اخلاق ان صفات اور افعال کو کہا جاتا ہے جو انسان کى زندگى ميں اس قدر رچ بس جاتے ہيں کہ غير ارادى طور بھى ظہور پذير ہونے لگتے ہيں۔ بہادر فطرى طور پر ميدا ن کى طرف بڑھنے لگتا ہے اور بزدل طبيعى انداز سے پرچھائيوں سے ڈرنے لگتا ہے۔ کريم کا ہاتھ خود بخود جيب کى طرف بڑھ جاتا ہے اور بخيل کے چہرے ہر سائل کى صورت ديکھ کر ہوائياں اڑنے لگتى ہيں۔
اسلام نے غير شعورى اور غير ارادى اخلاقيات کو شعورى اور ارادى بنانے کا کام بھى انجام دياہے اور اس کا مقصد يہ ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے شعور اور ارادہ کے ساتھ پيدا کرے تاکہ ہر اہم سے اہم موقع پر صفت اس کا ساتھ دى ورنہ اگر غير شعورى طور صفت پيدا بھى کرلى ہے تو حالات کے بدلتے ہى اس کے متغير ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ان تذکروں کو ملاحظہ کيا جائے جہاں اسلام نے صاحب ايمان کي اخلاقى تربيت کاسامان فراہم کيا ہے اور يہ چاہا ہے کہ انسان ميں اخلاقى جوہر بہترين تربيت اور اعليٰ ترين شعور کے زير اثر پيدا ہو۔
قوت تحمل:
سخت ترين حالات ميں قوت برداشت کا باقى رہ جانا ايک بہترين اخلاقى صفت ہے ليکن يہ صفت بعض اوقات بزدلي اور نافہمى کى بنا پر پيدا ہوتى ہے اور بعض اوقات مصائب و مشکلات کى صحيح سنگينى کے اندازہ نہ کرنے کي بنياد پر۔ اسلام نے يہ چاہا ہے کہ يہ صفت مکمل شعور کے ساتھ پيدا ہواور انسان يہ سمجھے کہ قوت تحمل کا مظاہرہ اس کا اخلاقى فرض ہے جسے بہر حال ادا کرنا ہے۔ تحمل نہ بزدلى اور بے غيرتي کى علامت بننے پائے اور نہ حالات کے صحيح ادراک کے فقدان کي علامت قرار پائے۔
”ولنبلونکم بشئى من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس والثمرات و بشر الصابرين الذين اذا اصابتہم مصيبة قالوا انّا للہ و انا اليہ راجعون، اولئک عليہم صلواة من ربہم و رحمة و اولئک ہم المہتدون“
” يقينا ہم تمہارا امتحان مختصر سے خوف اور بھوک اور جان، مال اور ثمرات کے نقص کے ذريعہ ليں گے اور پيغمبر آپ صبر کرنے والوں کے بشارت دے ديں جن کى شان يہ ہے کہ جب ان تک کوئى مصيبت آتى ہے تو کہتے ہيں کہ ہم اللہ کے لےے ہيں اور اسى کى بارگاہ ميں پلٹ کر جانے والے ہيں۔ انہيں افراد کے لےے پروردگار کى طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور يہي ہدايت يافتہ لوگ ہيں۔“
آيت کريمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجيد قوت تحمل کي تربيت دينا چاہتا ہے اور مسلمان کو ہر طرح کے امتحان کے تيار کرنا چاہتا ہے اور پھر تحمل کو بزدلى سے الگ کرنے کے لےے ”انا للہ و انا اليہ راجعون “کى تعليم ديتا ہے اور نقص اموال اور انفس کو خسارہ تصور کرنے کے جواب ميں صلوات اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے تاکہ انسان ہر مادى خسارہ اور نقصان کے لئے آمادہ رہے اور اسے يہ احساس رہے کہ مادى نقصان، نقصان نہيں ہے بلکہ صلوات اور رحمت کا بہترين ذريعہ ہے۔ انسان ميں يہ احساس پيدا ہوجائے تو وہ عظيم قوت تحمل کا حامل ہوسکتا ہے اور اس ميں يہ اخلاقي کمال شعورى اور ارادى طور پر پيدا ہوسکتا ہے اور وہ ہر آن مصائب کا استقبال کرنے کے لےے اپنے نفس کو آمادہ کر سکتا ہے۔
”الذين قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشو ہم فزادہم ايماناً و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکيل فانقلبو بنعمة من اللہ و فضل لم يمسسہم سوء وابتعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظيم“
”وہ لوگ جن سے کچھ لوگوں نے کہا کہ دشمنوں نے تمہارے لےے بہت بڑا لشکر جمع کر ليا ہے تو ان کے ايمان ميں اور اضافہ ہوگيا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لےے خدا کافى ہے اور وہى بہترين محافظ ہے جس کے بعد وہ لوگ نعمت و فضل الہى کے ساتھ واپس ہوئے اور انہيں کسى طرح کى تکليف نہيں ہوئى اور انہوں نے رضائے الہى کا اتباع کيا، اور اللہ بڑے عظيم فضل کا مالک ہے۔“
آيت کريمہ کے ہر لفظ ميں ايک نئى اخلاقى تربيت پائى جاتى ہے اور اس سے مسلمان کے دل ميں ارادى اخلاق اور قوت برداشت پيدا کرنے کى تلقين کى گئى ہے۔ دشمن کى طرف سے بے خوف ہوجانا شجاعت کا کمال ہے ليکن حسبنا اللہ کہہ کربے خوفى کا اعلان کرنا ايمان کا کمال ہے۔ بے خوف ہوکر نامناسب اور متکبرانہ انداز اختيار کرنادنياوى کمال ہے اور رضوان الہى کا اتباع کرتے رہنا قرآنى کمال ہے۔ قرآن مجيد ايسے ہى اخلاقيات کى تربيت کرنا چاہتا ہے اور مسلمان کو اسى منزل کمال تک لے جانا چاہتا ہے۔
”ولما راٴى المومنون الاحزاب قالوا ہذا ما وعدنا اللہ رسولہ و صدق اللہ و رسولہ و ما زاداہم الا ايماناً تسليماً“ (احزاب ۲۲)
”اور جب صاحبان ايمان نے کفار کے گروہوں کو ديکھا تو برجستہ يہ اعلان کرديا کہ يہى وہ بات ہے جس کا خدا و رسول نے ہم سے وعدہ کيا تھا اور ان کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس اجتماع سے ان کے ايمان اور جذبہ تسليم ميں مزيد اضافہ ہوگيا“
مصيبت کو برداشت کر لينا ايک انسانى کمال ہے۔ ليکن اس شان سے استقبال کرنا گويا اسى کا انتظار کر رہے تھے اور پھر اس کو صداقت خدا اور رسول کى بنياد قرار دے کر اپنے ايمان و تسليم ميں اضافہ کر لينا وہ اخلاقى کمال ہے جسے قرآن مجيد اپنے ماننے والوں ميں پيدا کرنا چاہتا ہے۔
”وکاين من نبى قات معہ ربّيون کثير فما وہنوا لما اصابہم فى سبيل اللہ و ما ضعفوا وما استکانوا واللہ يحبّ الصابرين“ (آل عمران ۱۴۶)
”اور جس طرح بعض انبياء کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کيا ہے اور اس کے بعد راہ خدا ميں پڑنے والي مصيبتوں نے نہ ان ميں کمزورى پيدا کى اور نہ ان کے ارادوں ميں ضعف پيدا ہوا اور نہ ان ميں کسى طرح کي ذلّت کا احساس پيدا ہوا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے“
آيت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس واقعہ کى ذريعہ ايمان والوں کواخلاقي تربيت دى جا رہى ہے اور انہيں ہر طرح کے ضعف و ذلت سے اس لےے الگ رکھا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ خدا ہے اور وہ انہيں دوست رکھتا ہے اور جسے خدا دوست رکھتا ہے اسے کوئى ذليل کرسکتا ہے اور نہ بےچارہ بنا سکتا ہے۔ يہى ارادى اخلاق ہے جو قرآني آيات کا طرہ امتياز ہے اور جس سے دنيا کے سارے مذاہب و اقوام بے بہرہ ہيں۔
”وعباد الرحمن الذين يمشون على الارض ہوناً واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً۔۔۔۔۔ اولئک يجزون الغرفة بما صبروا و يلقون فيہا تحيہ وسلاما“ ( فرقان ۶۳)
”اور اللہ کے بندے وہ ہيںجو زمين پر آہستہ چلتے ہيں اور جب کوئى جاہلانہ انداز سے ان سے خطاب کرتا ہے تو اسے سلامتى کا پيغام ديتے ہيں۔۔۔۔۔ يہى وہ لوگ جنہيں ان کے صبر کى بنا پر جنت ميں غرفے دےے جائيں گے اور تحيہ اور سلام کى پيش کش کى جائے گى
اس آيت ميں بھى صاحبان ايمان اور عباد الرحمن کى علامت قوت تحمل و برداشت کو قرار ديا گيا ہے، ليکن ”قالوا سلاماً“ کہہ کراس کى اراديت اور شعورى کيفيت کا اظہار کيا گيا ہے کہ يہ سکوت بر بنائے بزدلى اور بے حيائى نہيں ہے بلکہ اس کے پيچھے ايک اخلاقي فلسفہ ہے کہ وہ سلامتى کا پيغام دے کر دشمن کو بھى راہ راست پر لانا چاہتا ہیں۔
واضح رہے کہ ان تمام آيات ميں صبر کرنے والوں کى جزا کا اعلان تربيت کا ايک خاص انداز ہے کہ اس طرح قوت تحمل بيکار نہ جانے پائے اور انسان کو کسى طرح کے خسارہ اور نقصان کا خيال نہ پيدا ہو بلکہ مزيد تحمل و برداشت کا حوصلہ پيدا ہوجائے کہ اس طرح خدا کى معيت، محبت، فضل عظيم اورتحيہ و سلام کا استحقاق پيدا ہوجاتا ہے جو بہترين راحت وآرام اور بے حساب دولت و ثروت کے بعد بھى نہيں حاصل ہوسکتاہے۔
قرآن مجيد کا سب سے بڑا امتياز يہى ہے کہ وہ اپنے تعليمات ميں اس عنصر کونماياں رکھتا ہے اور مسلمان کو ايسا با اخلاق بنانا چاہتا ہے جس کے اخلاقيات صرف افعال، اعمال اور عادات نہ ہوںبلکہ ان کى پشت پر فکر، فلسفہ، عقيدہ اور نظريہ ہو اور وہ عقيدہ و نظريہ اسے مسلسل دعوت عمل ديتا رہے اور اس کے اخلاقيات کو مضبوط سے مضبوت تر بناتا رہے۔
جذبہ ايماني:
قوت تحمل کے ساتھ قرآن مجيد نے ايمانى جذبات کے بھي مرقع پيش کےے ہيں جن سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ وہ تحمل و حلم کو صرف منفى حدوں تک نہيں رکھنا چاہتا ہے بلکہ مصائب و آفات کے مقابلہ ميں ايک مثبت رخ دينا چاہتا ہے۔
”فالقى السحرة سجدا قالو اآمنا برب ہارون و موسيٰ قال آمنتم بہ قبل ان آذن لکم انہ لکبير الذي علمکم السحر فلاقطعن ايديکم و ارجلکم من خلاف ولا وصلينکم فى جذوع النخل و لتعلمن اينا اشد عذابا و ابقى قالوا لن نوشرک على ما جاء نا من البينات والذى فطرنافاقض ما انت قاض انما تقضى ہذہ الحيٰوة الدنيا انا امنا بربنا ليغفر لنا خطٰيٰنا وما اکرہتنا عليہ من السحر واللہ خير و ابقي“ (طہ ۷۰ تا۷۳)
پس جادو گر سجدہ ميں گر پڑے اور انہوں نے کہا کہ ہم ہارون اور موسيٰ کے رب پر ايمان لے آئے تو فرعون نے کہا کہ ہمارى اجازت کے بغير کس طرح ايمان لے آئے بے شک يہ تم سے بڑا جادو گر ہے جس نے تم لوگوں کو جادو سکھايا ہے تو اب ميں تمہارے ہاتھ پاوٴں کاٹ دوں گا اور تمہيں درخت خرما کى شاخوں پر سولى پر لٹکا دوں گا تاکہ تمھيں معلوم ہو جائے کہ کس کا عذاب زيادہ سخت تر ہے اور زيادہ باقى رہنے والا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم تيرى بات کو موسيٰ کے دلائل اور اپنے پروردگار مقدم نہيں کرسکتے ہيں اب تو جو فيصلہ کنا چاہے کر لے تو صرف اسى زندگانى دنيا تک فيصلہ کر سکتا ہے اور ہم اس لےے ايمان لے آئے ہيں کہ خدا ہمارى غلطيوں کو اور اس جرم کو معاف کردے جس پر تونے ہميں مجبور کياتھا اور بے شک خدا ہى عين خير اور ہميشہ باقى رہنے والا ہے۔“
”الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا خرجہ الذين کفروا ثانى اثنين اذہما فى الغار از يقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکينة عليہ ايدہ بجنود لم لم تروہا و جعل کملة الذين کفرو السفليٰ و کلمة اللہ ہى العليا اللہ عزيز حکيم۔“ (توبہ ۴۰)
”اگر اتم ان کى نصرت نہيں کروگے تو خدا نے ان کى نصرت کى ہے جب انہيں کفار نے دو کا دوسرا بنا کروطن سے نکال ديا اور وہ اپنے ساتھى سے کہہ رہے تھے کہ رنج مت کرو خدا ہمارے ساتھ ہے تو خدا نے ان پر اپنى طرف سے سکون نازل کرديااور ان کى تائيد اسے لشکروں کے ذريعہ کى جن کا مقابلہ نا ممکن تھا اور کفار کے کلمہ کو پست قرار ديا اور اللہ کا کلمہ تو بہر حال بلند ہے اور اللہ صاحب عزت بھى ہے اور صاحب حکمت بھى ہے۔“
آيت اوليٰ ميں فرعون کے دور کے جادوگروں کے جذبہ ايماني کى حکايت کى گئى ہے جہاں فرعون جيسے ظالم و جابر کے سامنے بھى اعلان حق ميں کسى ضعف و کمزورى سے کام نہيں ليا گيا اور اسے چيلينج کر ديا گياکہ تو جو کرنا چاہے کرلے۔ تيرا اختيار زندگانى دنيا سے آگے نہيں ہے اور صاحبان ايمان آخرت کے لےے جان ديتے ہيںانہيں دنيا کى راحت کى فکر يا مصائب کى پروا نہيں ہوتى ہے۔
اور دوسرى آيت ميں سرکار دو عالم کے حوصلہ کا تذکرہ کيا گيا ہے اور صورت حال کى سنگينى کو واضح کرنے کے لےے ساتھى کا بھى ذکر کيا گيا جس پر حالات کي سنگينى اور ايمان کى کمزورى کى بنا پر حزن طارى ہو گيا اور رسول اکرم کو سمجھانا پڑا کہ ايمان و عقيدہ صحيح رکھو۔ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوتا ہے اسے کوئى پريشانى نہيں ہوتى ہے اور وہ ہر مصيبت کا پورے سکون اور اطمينان کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔
اس کے بعد خدائى تائيد اور امداد کا تذکرہ کرکے يہ بھى واضح کردياگيا کہ رسول اکرم کا ارشاد صرف تسکين قلب کے لےے نہيں تھا بلکہ اس کى ايک واقعيت بھى تھى اور يہ آپ کے کمال ايمان کا اثر تھا کہ آپ پر کسى طرح کا حزن و ملال طارى نہيں ہوا اور آپ اپنے مسلک پر گامزن رہے اور اسى طرح تبليغ دين اور خدمت اسلام کرتے رہے جس طرح پہلے کر رہے تھے بلکہ اسلام کا دائرہ اس سے زيادہ وسيع تر ہو گيا کہ نہ مکہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہوا تھا اور نہ مدينہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہونے والا ہے۔ مکہ کا صبر و تحمل بھى خدائى امداد کى بنا پر تھا اور مدينہ کا فاتحانہ انداز بھى خدائي تائيد و نصرت کے ذريعہ ہى حاصل ہو سکتا ہے۔
ادبي شجاعت:
ميدان جہاد ميں زور بازو کا مظاہرہ کرنا يقينا ايک عظيم انسانى کارنامہ ہے ليکن بعض روايات کى روشني ميں اس سے بالاتر جہاد سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کا زبان پر جاري کرنا ہے اور شايد اس کا راز يہ ہے کہ ميدان جنگ کے کارنامے ميں بسا اوقات نفس انسان کى ہمراہى کرنے کے لےے تيار ہوجاتا ہے اور انسان جذباتى طور بھى دشمن پر وار کرنے لگتاہے جس کا کھلا ہوا ثبوت يہ ہے کہ مولائے کائنات حضرت على عليہ السلام نے عمرو بن عبدود کى بے ادبى کے بعد اس کا سر قلم نہيں کيا اور سينے سے اتر آئے جہاد راہ خدا ميں جذبات کى شموليت کا احساس نہ پيدا ہوجائے ليکن سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق کے بلند کرنے ميں نفس کى ہمراہى کے بجائے شديد ترين مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں نفس انسانى کبھى ضائع ہوتے ہوئے مفادات کى طرف متوجہ کرتا ہے اور کبھى آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور اس طرح يہ جہاد ”جہاد ميدان“ سے زيادہ سخت تر اور مشکل تر ہوجاتا ہے جسے روايات ہى کى زبان ميں جہاد اکبر سے تعبير کيا گياہے۔ جہاد باللسان بظاہر جہاد نفس نہيں ہے ليکن غور کيا جائے تو يہ جہاد نفس کا بہترين مرقع ہے خصوصيت کے ساتھ اگر ماحول ناسازگار ہواور تختہ دار سے اعلان حق کرنا پڑے۔
قرآن مجيد نے مرد مسلم ميں اس ادبى شجاعت کو پيدا کرنا چاہا ہے اور اس کا منشاٴ يہ ہے کہ مسلمان اخلاقيات ميں اس قدر مکمل ہو کہ اس کے نفس ميں قوت تحمل و برداشت ہو۔ اسکے دل ميں جذبہ ايمان و يقين ہو اور اس کى زبان، اس کي ادبى شجاعت کا مکمل مظاہرہ کرے جس کى تربيت کے لےے اس نے ان واقعات کى طرف اشارہ کيا ہے۔
”قال رجل مومن من آل فرعون يکتم ايمانہ اٴ تقتلون رجلاً ان يقول ربى اللہ و قد جائکم بالبينات و ان يک کاذباً فعليہ کذبہ و ان يک صادقاً يصبکم بعض الذى يعدکم ان اللہ لا يہدى من ہو مسرف مرتاب۔“ (غافر ۲۶)
”فرعون والوں ميں سے ايک مرد مومن نے کہا جو اپنے ايمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کيا تم کسي شخص کو صرف اس بات پرقتل کرناچاہتے ہو کہ جو اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے جب کى وہ اپنے دعوے پر کھلى ہوئى دليليں بھى لا چکا ہے ۔ تو آگاہ ہوجاوٴ اگر وہ جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ کا ذمہ دار ہے ۔ ليکن اگر سچا ہے تو بعض وہ مصيبتيں آسکتى ہيں جن کا وہ وعدہ کر رہا ہے۔ بے شک خدا زيادتى کرنے والے اور شک کرنے والے انسان کى ہدايت نہيں کرتا ہے۔
اس آيت کريمہ ميںمرد مومن نے اپنے صريحي ايمان کى پردہ دارى ضرور کى ہے ليکن چند باتوں کا واشگاف اعلان بھى کر ديا ہے جس کى ہمت ہر شخص ميں نہيں ہو سکتي۔
يہ بھى اعلان کرديا ہے کہ يہ شخص کھلى ہوئي دليليں لے کر آيا ہے۔
يہ بھى اعلان کر ديا ہے کہ وہ اگر جھوٹا ہے تو تم اس کے جھوٹ کے ذمہ دار نہيں ہو، اور نہ تمہيں قتل کرنے کا کوئى حق ہے۔
يہ بھى اعلان کرديا ہے کہ وہ اگر سچا ہے تو تم پر عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
يہ بھى اعلان کرديا ہے کہ يہ عذاب اس کى وعيد کا ايک حصہ ہے ورنہ اس کے بعد عذاب جہنم بھى ہے۔
يہ بھى اعلان کرديا ہے کہ تم لوگ زيادتى کرنے والے اور حقائق ميں تشکيک کرنے والے ہو ، اور ايسے افراد کبھي ہدايت يافتہ نہى ہوسکتے۔
اور ادبى شجاعت کا اس سے بہتر کوئى مرقع نہيں ہو سکتاہے کہ انسان فرعونيت جيسے ماحول ميں اس قدر حقائق کے اظہار اور اعلان کے اظہار کى جراٴت و ہمت رکھتا ہو۔
واضح رہے کہ اس آيت کريمہ ميں پروردگار عالم نے اس مرد مومن کو مومن بھى کہا ہے اور اس کے ايمان کے چھپانے کا بھى تذکرہ کيا ہے جو اس بات کى دليل ہے کہ ايمان ايک قلبى عقيدہ ہے اور حالات و مصالح کے تحت اس کے چھپانے کو کتمان حق سے تعبير نہيں کيا جاسکتا ہے جيسا کہ بعض دشمنان حقائق کا وطيرہ بن گيا ہےکہ ايک فرقہ کى دشمنى ميں تقيہ کى مخالفت کرنے کرنے کے لئے قرآن مجيد کے صريحى تذکرہ کى مخالفت کرتے ہيں اور اپنے لےے عذاب جہنم کا سامان فراہم کرتے ہيں۔
قال ماخطبکن اذراودتن يوسف عن نفسہ قلن حاش للہ ما علمنا عليہ من سوء قالت امراٴة العزيز الآن حصحص الحق اناراوتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقين“ (يوسف ۵۱)
”جب مصر کى عورتوں نے انگلياں کاٹ ليںاور عزےز مصر نے خواب کى تعبےر کے لئے جناب ےوسف (ع) کو طلب کيا تو انہوں نے فرماياکہ عورتوں سے درےافت کروکہ انہوںنے انگلياںکاٹ ليں اور اس ميں ميرى کيا خطا ہے؟۔۔عزيز مصر نے ان عورتوںسے سوال کيا توانہوں نے جواب دےاکہ خداگواہ ہے کہ ےوسف ﷼کى کوئى خطا نہيں ہے۔۔توعزيز مصر کى عورتوں نے کہاکہ يہ سب ميرا اقدام تھااور ےوسف ﷼صادقےن ميںسے ہيں اوراب حق بالکل واضح ہوچکاہے۔“
اس مقام پر عزےز مصر کى زوجہ کااس جراٴت وہمت سے کام لينا کہ بھرے مجمع ميں اپنى غلطى کااقرارکرليااورزنان مصر کا بھي اس جراٴت کا مظاہرہ کرنا کہ عزےز مصرکى زوجہ کى حماےت ميں غلط بيانى کرنے کے بجائے صاف صاف اعلان کر دےاکہےوسف ميں کوئى برائى اور خرابى ہيں ہے۔ادبي جراٴت وشجاعت کے بہترےن مناظرميں جنکاتذکرہ کر کے قرآن مجيدمسلمان کى ذہنى اور نفسےاتى تربےت کرنا چاہتا ہے۔
۔۔”وجاء من اقصى المدےنةرجل يسعيٰ قال يٰقوم اتبعواالمرسلين اتبعوا من لايسئلکم اٴجراوہم مہتدون#ومالى لااعبدالذى فطرني واليہ ترجعون اٴاتخذمن دونہ آلہةاٴن ےردن الرحمٰن بضرلاتغن عنّى شفاعتہم شيئاًولاےنقذون انى اذا لفى ضلال مبين انى آمنت بربکم فاسمعون۔“(يآس۲۰)
”اور شہرکے آخر سے اےک شخص دوڑتا ہواآيااور اسنے کہا کہ اے قوم!مرسلين کا اتباع کرو،اس شخص کا اتباع کروجوتم سے کوئى اجر بھى نہيں مانگتاہے اور وہ سب ہداےت ےافتہ بھى ہيں،اور مجھے کيا ہو گےا ہے کہ ميں اس خدا کى عبادت نہ کروںجس نے مجھے پيدا کيا ہے اور تم سب اسي کى طرف پلٹ کر جانے والے ہو۔کيا ميں اس کے علاوہدوسرے خداوں کو اختےار کر لوں جب کہ رحمٰن کوئى نقصان پہونچانا چاہے توان کى سفارش کسى کام نہيں آسکتى ہے اور نہ يہ بچا سکتے ہيں،ميں تو کھلى گمراہى ميںمبتلا ہوجاؤںگا۔بشک ميںتمہارے خدا پر اےمان لا چکا ہوںلھذاتم لوگ بھي ميرى بات سنو۔“ !
آيت کريمہ ميں اس مرد مومن کے جن فقرات کا تذکرہ کيا گيا ہے وہ ادبى شجاعت کا شاہکار ہيں ۔
اس نے ايک طرف داعى حق کى بے نيازى کا اعلان کيا کہ وہ زحمت ہدايت بھى برداشت کرتا ہے اور اجرت کا طلبگار بھي نہيں ہے ۔
پھر اس کے خدا کو اپنا خالق کہہ کر متوجہ کيا کہ تم سب بھى اسي کى بارگاہ ميں جانے والے ہو تو ابھى سے سوچ لو کہ وہاں جا کر اپنى ان حرکتوں کا کيا جواز پيش کروگے ۔
پھر قوم کے خداوٴں کى بے بسى اور بے کسى کا اظہار کيا کہ يہ سفارش تک کرنے کے قابل نہيں ہيں ، ذاتى طور پر کونسا کام انجام دے سکتے ہيں۔
پھر قوم کے ساتھ رہنے کو ضلال مبين اور کھلى ہوئى گمراہى سے تعبير کر کے يہ بھى واضح کرديا کہ ميں جس پر ايمان لايا ہوں وہ تمہارا بھى پروردگار ہے ۔ لہذا مناسب يہ ہے کہ اپنے پروردگار پر تم بھى ايمان لے آوٴ اور مخلوقات کے چکر ميں نہ پڑو۔
”ان قارون کان من قوم موسيٰ فبغيٰ عليہم و آتينٰہ من الکنوز ما ان مفاتحہ لتنوء بالعصبة اوليٰ القوةاذا قال لہ قومہ لا تفرح ان اللہ لا يحب الفرحين ابتغ فيما آتٰک اللہ الدار الآخرة ولا تبغ الفساد فى الارض ان اللہ لا يحب المفسدين۔“ (قصص ۷۶۔۷۷)
”بے شک قارون موسيٰ ہي کى قوم ميں سے تھا ليکن اس نے قوم پر زيادتي کى اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے کہ بڑى جماعت بھى اس کا بار اٹھا نے سے عاجز تھى تو قوم نے اس سے کہا کہ غرور مت کر کہ خدا غرور کرنے والوں کو دوست نہيں رکھتا ہے۔
آيت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قارون کے بے تحاشہ صاحب دولت ہونے کے با وجود قوم ميں اس قدر ادبى جراٴت موجود تھى کہ اسے مغرور اور مفسد قرار دے ديا ، اور يہ واضح کر ديا کہ خدا مغرور اور مفسد کو نہيں پسند کرتا ہے اور يہ بھى واضح کرديا کہ دولت کا بہترين مصرف آخرت کا گھر حاصل کر لينا ہے ورنہ دنيا چند روزہ ہے اور فنا ہو جانے والى ہے۔
عفت نفس:
انسان کے عظيم ترين اخلاقى صفات ميں ايک صفت عفت نفس بھى ہے جس کا تصور عام طور سے جنس سے وابستہ کر ديا جاتا ہے، حالانکہ عفت نفس کا دائرہ اس سے کہيں زيادہ وسيع تر ہے اور اس ميں ہر طرح کى پاکيزگى اور پاکدامانى شامل ہے ۔۔ قرآن مجيد نے اس عفت نفس کے مختلف مرقع پيش کيے ہيں اور مسلمانوں کو اس کے وسيع تر مفہوم کى طرف متوجہ کيا ہے۔
”وراودتہ التى ہو فى بيتہا ان نفسہ و غلقت الابواب و قال ہيت لک قال معاذ اللہ انہ ربى احسن مثواى انہ لا يفلح الظالمون۔“ (يوسف ۲۳)
”اور زليخا نے يوسف کو اپنى طرف مائل کرنے کى ہر امکانى کوشش کى اور تمام دروازے بند کرکے يوسف کو اپنى طرف دعوت دى ليکن انہوں نے برجستہ کہا کہ پناہ بخدا وہ ميرا پروردگار ہے اور اس نے مجھے بہترين مقام عطا کيا ہے اور ظلم کرنے والوں کے لےے فلاح اور کاميابى نہيں ہے۔“
ايسے حالات اور ماحول ميں انسان کا اس طرح دامن بچا لينا اور عورت کے شکنجے سے آزاد ہو جانا عفت نفس کا بہترين کارنامہ ہے، اور الفاظ پر دقت نظر کرنے سے يہ بھى واضح ہوتا ہے کہ يوسف نے صرف اپنا دامن نہيں بچا ليا بلکہ نبى خدا ہونے کے رشتہ سے ہدايت کا فريضہ بھى انجام دے ديا اورزليخا کو بھى متوجہ کر ديا کہ جس نے اس قدر شرف اور عزت سے نوازا ہے وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس کے احکام کى اطاعت کى جائے اور اس کے راستے سے انحراف نہ کيا جائے اور يہ بھى واضح کرديا ہے کہ اس کى اطاعت سے انحراف ظلم ہے اور ظلم کسى وقت بھى کامياب اور کامران نہيں ہو سکتا ہے ۔
”للفقراء الذين احصروا فى سبيل اللہ لا يستطيعون ضرباً فى الارض يحسبہم الجاہل اغنياء من التعفف تعرفہم بسيماہم لا يسئلون الناس الحافا وما تنفقوا من خيرٍ فان اللہ بہ عليم“ (بقرہ۲۷۳)
ان فقراء کے لےے جو راہ خدا ميں محصور کر دےے گئے ہيں اور زمين ميں دوڑ دھوپ کرنے کے قابل نہيں ہےں، ناواقف انھيں ان کي عفت نفس کى بنا پر مالدار کہتے ہيں حالانکہ تم انہيں ان کے چہرے کے علامات سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال نہيں دراز کرتے ہيں حالانکہ تم لوگ جوبھى خير کا انفاق کروگے خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
جنسي پاکدامنى کے علاوہ يہ عفت نفس کا دوسرا مرقع ہے جہاں انسان بد ترين فقر و فاقہ کى زندگى گذارتاہے جس کا اندازہ حالات اور علامات سے بھى کيا جاسکتا ہے ليکن اس کے باوجود اپنى غربت کا اظہار نہيں کرتاہے اور لوگوں کے سامنے دست سوال نہيں دراز کرتا ہے کہ يہ انسانى زندگى کا بدترين سودا ہے۔ دنيا کا ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ آبرو کى قيمت مال سے زيادہ ہے اور مال آبرو کے تحفظ پر قربان کر ديا جاتاہے۔ بنابريں آبرو دے کر مال حاصل کرنا زندگى کا بد ترين معاملہ ہے جس کے لےے کوئى صاحب عقل و شرف امکانى حدود تک تيار نہيں ہوسکتا ہے۔ اضطرار کے حالات دوسرے ہوتے ہيںوہاں ہر شرعى اور عقلي تکليف تبديل ہو جاتى ہے۔
”واذا خاطبہم الجاہلون قالو سلاماً“ ۔ ”جب جاہل ان سے جاہلانہ انداز سے خطاب کرتے ہيں تووہ سلامتى کا پيغام دے ديتے ہيں“
”والذين لا يشہدون الزور واذا مروا باللغو مروا کراماً۔“ (فرقان ۷۳)
”اللہ نيک اور مخلص بندے وہ ہيںجو گناہوں کى محفلوں ميں حاضر نہيںہوتے ہيں اور جب لغويات کى طرف سے گذرتے ہيں تو نہايت شريفانہ انداز سے گذر جاتے ہيں اور ادھر توجہ دينا بھى گوارا نہيں کرتے ہيں۔
ان فقرات سے يہ بات بھى واضح ہو جاتى ہے کہ عباد الرحمان ميں مختلف قسم کى عفت نفس پائى جاتى ہے۔ جاہلوںسے الجھتے نہيں ہيں اور انھيں بھى سلامتى کا پيغام ديتے ہيں۔ رقص و رنگ کى محفلوں ميں حاضر نہيں ہوتے ہيںاور اپنے نفس کو ان خرافات سے بلند رکھتے ہيں۔ ان محفلوں کے قريب سے بھى گذرتے ہيں تو اپني بيزارى کا اظہار کرتے ہوئے اور شريفانہ انداز سے گذر جاتے ہيںتاکہ ديکھنے والوں کو بھى يہ احساس پيدا ہوکہ ان محفلوں ميں شرکت ايک غير شريفانہ اور شيطاني عمل ہے جس کى طرف شريف النفس اور عباد الرحمان قسم کے افراد توجہ نہيں کرتے ہيں اور ادھر سے نہايت درجہ شرافت کے ساتھ گذر جاتے ہيں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here