اخلاق (5)

زبان کی بیماریاں(1)
موضوعات:

۱۔ انسان کے ایمان کی استقامت میں اعضاء کے کردارکا تعیین
۲۔ جھوٹ کے مفہوم کا بیان
۳۔ جھوٹ کے آثار کا بیان
۴۔ وہ عوامل جو انسان کو جھوٹ میں مبتلا کرتے ہیں
۵۔ ایک دوسرے کو برے ناموں سے بلانے کے منفی آثار

جھوٹ اور برے القاب:
وہ سب سے بڑا عضو جو انسان پر گناہوں کا دروازہ کھول دیتا ہے زبان ہے، اسلام نے انسان کے ایمان کی استقامت اور اسکے تمام اعضاء کی استقامت کو زبان کی استقامت کے ذریعے قرار دے کرمربوط کیاہے۔ روایت میں واردہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا۔
لایستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ ولایستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانہ( بحار اص۲۸۷)
کسی عبد کا ایمان مستقیم نہیں رہتا حتی کہ اس کا قلب مستقیم ہو اور اس کا قلب مستقیم نہیں ہو سکتا مگر یہ اس کی زبان مستقیم ہو۔
ایک دوسری روایت میں آیاہے
اذااصبح ابن آدم اصجت الاعضاء کلہاتستکفی اللسان ای تقول اتق اللہ فینافانک ان استقمت استقمنا وان اعو ججت اعو ججنا(میزان الحکمتہ ج اص ۲۷۷۸)
جب آدم کا بیٹا صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء صبح کرتے ہوئے زبان سے بچنے کا تقاضا کرتے ہیں کہ خدا کا خوف کرنا تم سلامت رہوگی تو ہم بھی سالم رہیں گے ،اور اگر تم کج ہوگئی تو ہم بھی کج ہو جائیں گے۔
وہ گناہ جن کاانسان زبان کی وجہ سے مراتکب ہوتا ہے بہت زیادہ ہیں ، انسان کو ایک گناہ کی پکڑ ہو گی جبکہ وہ سمجھ رہا ہو گا کہ میں نے تو اس گنا ہ کا ارتکا ب نہیں کیا تھا ،لیکن وہ اس بات سے غافل ہو گا کہ اس سے ایک بات سرزد ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اس گناہ کا مرتکب ہوا۔
رسول خداﷺسے روایت میں آیا ہے:
یعذب اللہ اللسان بعذاب لایعذب بہ شیئامن الجوارح فیقول ای رب غدّبتنی بعذاب لم تعذب بہ شیاءً فیفال لہ خرجت منک کلمۃ فبلغت مشارق الارض ومغاربہا فسفک بہا الدم الحرام وانتھب بہا المال لالحرام وانتھک بہا الفرج الحرام(اصول کافی ج۲،ص ۱۱۰)
خداوند زبان کو ایساعذاب کرے گا کہ کسی اور عضوکو نہیںکرے گا، زبان کہے گی اے رب مجھے تو نے ایسا عذاب کیاجو کسی کو نہیں کیا،تو اس سے کہا جائے گا کیونکہ تجھ سے ایک بات سرزد ہوئی جو مشرق و مغرب میں پھیل گئی ،اس کی وجہ سے نا حق جان ضائع ہوئی ،نا حق مال لوٹا گیا اور نا حق عزت لوٹی گئی۔
یہا ں ہم ان بعض گناہو ں کو ذکر کرتے ہیں جن کا انسان زبان کی وجہ سے مرتکب ہوتا ہے۔
۱۔ جھوٹ:
جھوٹ یعنی وہ بات جو واقع کے خلاف ہو اور اس کے مطابق نہ ہو، انسان جانتا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے لیکن اسے کہتاہے ، جھو ٹ گناہ کبیرہ ہے اور سب برائیوں اور گناہوں کی جڑ ہے، انسان اکثر گناہوںکا جھوٹ کی وجہ سےمرتکب ہو تاہے ،جھوٹ انسان کے لئے جہنم کی کنجی ہے ، کسی نے رسول خداؐ سے جنت کے عمل کے بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا سچ ہے ، جب انسان سچ بولتا ہےتو نیکی کرتا ہے ، جب نیکی کرتا تو ایمان لے آتا ہے اور جب باایمان ہو جاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
پھر اس نے سوال کیا یا رسول اللہ جہنم کا عمل کون سا ہے؟ تو فرمایا جھوٹ ہے، جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو فجور کرتا ہے اور جب فجور کرتا ہے تو کفر کرتا ہے اور جب کفر کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔(میزان الحکمتہ ج۲،ص ۲۶۷۴)
جھوٹ کے آثار:
جھوٹ بولنے پرانسان کے لیے اخروی عذاب کی جو وعیداللہ نے سنائی ہے کیا ہے اس کے علاوہ کچھ دنیاوی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ۔
۱۔اس پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور شہر ت بری ہوجاتی ہے ۔
جو شخص جھوٹ بولتا ہے لوگ اس کی تصدیق نہیںکرتے اور اسکی بات کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔
۲۔انسان بعض جھوٹ چھپانے کے لئے بعض گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے، یوں جھوٹ اسے ایک گناہ کے بعد دوسرے گناہ میں کھینچتا چلا جاتا ہے ۔
ایک شخص نے رسول خداؐ سے عرض کیا میں چار چیزیں چھپ کر کرتا ہوں ،زنا، شراب خوری ، چوری اور جھوٹ ، آپ کی خاطر ان میں سے ایک چھوڑ سکتا ہوں ، فرمائیں کون سی چھوڑوں ؟ تو حضور نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دو،جب واپس گیا اس نے زنا کرنا چاہا تو سوچا جب حضور اس بارے پوچھیں گے اور میں نے کہا نہیں کیا تو عہد کی خلاف ورزی ہوئی ، اور اگر سچ بولوں گا تو کوڑے لگیں گے،پھر چوری کا سوچا، شراب پینے کا سوچا اور یہی چیز ذہن میں آئی جسکی وجہ سے سب گناہوں کو چھوڑ دیا اور آکر عرض کیا آپ نے مجھ پر سب چیزوں کا راستہ بند کردیا لہٰذا میں نے سب گناہ چھوڑ دیئے ہیں (میزان الحکمتہ ج۳،ص ۲۶۷۴)
۳۔دوسروں کی توہین
جھوٹ کے منفی اثرات میں سےایک دوسروں کی توہین ہے اگرچہ مزاج کی وجہ سے ہو، یہ چیز جھوٹ کے ساتھ ایک اور بہت بڑے گناہ کے اضافے کا باعث بنتا ہے،امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے۔
من روی علی مومن روایۃ یرید بہ شینہ وھدم مرو تہ لیسقط من اعین الناس اخرجہ اللہ من ولایۃ الی ولایتہ الشیطان فلایقبلہ الشیطان(وسائل الشیعہ ج۱۲،ص۲۹۴)
اگر کوئی مومن کے خلاف کوئی بات اس کی عیب جوئی اور بے عزتی کی خاطر کہتا ہے تاکہ وہ لوگوں کی نظروں میں گرجائے تو خدا وند سے اپنی ولایت سے نکال دیتا ہے شیطان کی ولایت کی طرف اور شیطان بھی اسے قبول نہیں کرتا۔
انسان کے جھوٹ بولنے کے اسباب:
اخلاقی انحراف کے اسباب بہت سے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں ۔
۱۔عادت
جھوٹ سے انسان کو مزید جھوٹ کی عادت پڑجاتی ہے۔
۲۔شخصیت کی کمزوری
انسان اپنی شخصیت کی کمزوری کی وجہ سے جھوٹ بولتاہے ، اگر کوئی شخص مضبوط شخصیت کا مالک ہوگا تو وہ جھوٹ نہیں بولے گا کیونکہ سچ کے نتیجہ سے اسے کوئی ڈر نہیں ہوگا، رسول خداؐ سے روایت وارد ہے کوئی شخص جھوٹ نہیں بولتا مگر اپنی بے شخصیتی کی وجہ سے۔ (بحار الانوار ۶۹،ص۲۶۲)
۳۔دشمنی وحسد
جب انسان کسی دوسرے کے پاس نعمت دیکھتا ہے تو یہ چیز اسکے بارے اس کے دل میں دشمنی کا باعث بنتی ہے اور چونکہ اس سے یہ نعمت چھین نہیں سکتا لہٰذا اس پر جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس طرح سے اس سے وہ نعمت چھین سکے، لہٰذا اس پر بہتان باندھتا ہے یعنی اس کی طرف ایسی بات کی نسبت دیتاہے جو اس میں نہیں ہوتی۔
مزاح میں بھی جھوٹ مت بولو
اکثر لوگوں کو مزاح کرنے کی عادت ہوتی ہے اور جب انسان کو مزاح کا کوئی طریقہ نظر نہ آئے تو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جبکہ وہ نہیں جانتے کہ اس ہنسی کا انجام خداوند سے دوری ہے اور لوگوں میں اس کے اعتبار کی کمی ہے ، رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا۔
فلعنہ اللہ علی الکاذب وان کان مازحاً(مستدک الوسائل ج۱۱،ص ۴۷۲)
جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے اگرچہ مزاح کرے
برے القابات سے مت پکارو
لوگوں میں زبان کی بیماریوں میں سے ایک بیماری جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوتے ہیں ایک دوسرے کو برے القابات سے نوازنا ہے ، اور وہ ایک دوسرے کو پہچانتے نہیں ہیں مگر انہی القابات سے جیساکہ ارشاد ہے۔
وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ (حجرات ۱۱)
ایک دوسرے کو برے القاب مت دو،برانام فسق ہے ایمان کے بعد ،
ناپسندیدہ کام برے القاب دینا ہے ، احترام پر دلالت کرنے والے القابات دینا پسندیدہ عمل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here