(علامہ راجہ ناصر عباس جعفری)
ہمارا یہ عقیدہ اور اعتقاد ہے کہ خدا کی مشیعت اور ارادہ یہ ٹھہرا نبوت اور رسالت ہمارے پیغبرؐ پر ختم ہو جائے اور اُس کے بعد ہدایت ِ بشر و انسانیت کی باگ ڈوڑامامت ؑ کے حوالے کیا جائے اور امامت ہی دلیل ختمِ نبوت بھی ہے ۔غدیر میں اعلان ہوا کہ اللہ نے اپنے نبی ؐ سے کہا تجھ پر تیرے رب کی طرف سے جو نازل ہوا ہے وہ پہنچا دے اور اگر تُو نے یہ کام نہیں کیا تو کارِ رسالت انجام ہی نہیں دیا ۔اس لئے کہ تیرے بعد امت کو ہادی چاہیے پیشواء چاہیے کشتیِ بشریت کے لئے نا خدا چاہیے جو اسے اُٹھا کر نجات تک لے جائے ۔جب علان ولایت ہو ا پھر سے آیت نازل ہوئی کہ آج ہم نے تمہارے لئے دین کو کامل کیا ۔ یعنی اگر دین میں امامت اور ولایت نہ ہو تو وہ کامل نہیں ہے اور آج کے دن میں نے تمہارے لئے نعمتوں کو تمام کیا ہے یعنی اگر سارے کائنات میں پائی جانے والی نعمتیں ہوں لیکن امامت اور ولایت کی نعمت نہ ہو تو وہ نعمتیں بھی ناقص ہیں اور آج میں تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر نازل کیا اور پسند کی ہے یعنی جس اسلام میں امامت اور ولایت نہ ہو وہ اسلام اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے لہذٰا رسالت کے بعد امتِ محمدی ؐ کی ابتلاع اور آزمائش مولا کی امامت اور ولایت ٹھہری لیکن لوگوں نے امامؑ کا ساتھ نہیں دیا ۔
ہم میں سے اکثر کو یہ نہیں معلوم ہے کہ ولایت کسے کہتے ہیں اور کیا ہوتی ہے؟اگر ہم میں سے کسی سے پوچھے کہ ولایت کیا ہے تو ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ مولا صاحب کرامت ہے وہ ڈھوبے سورج کو پلٹا سکتا ہے وہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کر سکتے ہیں اس کے طرح کے جوابات ہمارے ہوتے ہیں یہ ولایت نہیں ہے جس کا اعلان غدیر میں ہوا ہےاس کو تو سب مانتے ہیں ہمارے سارے اہل سُنت بھائی وہ سارے بھی اس کو مانتے ہیں وہ اپنے سارے ولایت کے سلسلے مولا علیؑ سے جوڑتے ہیں ۔
حُجت الافسانی یہ لکھتا ہے کہ اللہ سے جو بھی فیض کائنات میں آتا ہے انہیں بارہ اور چودہ کے زریعے آتا ہے وہ سارے یہ مانتے ہیں جس کا ہمارے ممبروں میں زکر ہوتا ہے اور سب مانتے ہیں یہ ولایت کوئی بھی چھین نہیں سکتا ہے اس مقام ولایت پر پہنچنے کے لئے انسان کو علیؑ بنا پڑھے گا کوئی بن سکتا ہے علیؑ بلکل نہیں اس مقامِ ولایت کسی کی رسائی ہے ہی نہیں۔
ہمارے ممبروں پر یہی فضائل بیان ہوتے ہیں اس ولایت اور امامت کا اعلان غدیر میں نہیں ہوا تھا۔امامت اور ولایت کا غدیر میں اعلان ہوا تھا وہ ایک جامعہ ایک کامل ہدایت کے سسٹم کا اعلان ہوا تھا جس کی بنیاد پر ہم شیعہ ٹھہرے ہیں جس میں حکومت ہے سیاست ہے معیشت، اجتماعی اصول ، قانون ، اخلاق ، اور تعلیم و تربیت ہے ۔جب ہم کہتے ہیں امامت اور ولایت یعنی آپ آل ِ محمد ؐ کا سیاسی نظام ، معاشی نظام ، سماجی نظام ، قانون، حقوق کا نظام ، اخلاقی نظام ، اور آلِ محمد ؐ تعلیمی اور تربیتی نظام ہے جس کو دنیا والوں نے نہیں مانا ان نظاموں کو ٹھکریادنیا والوں نے اوراُن لوگوں کو امیر شام کا نظام پسند آیا ، انہوں شام کا معاشی نظام پسند آیا اور مولا علیؑ کو نہیں مانا ۔
کبھی آپ نے سُنا ہے کہ آلِ محمدؐ سے سیاسی اصول کیا ہیں؟ آلِ محمدؐ کا سیاسی فلسفہ کیا ہے؟آلِ محمدؐ کا پولیٹیکلی نظام کیا ہے؟آلِ محمدؐ کی پولیٹیکل سائنس کیا ہے؟ یہ سب ہمیں پتہ نہیں ہے اور ہم دنیا پرستوں کے سیاسی پرچم تلے ہیں۔
امام ؑ نے کہا کہ نوکِ نیزے پر قرآن جو اُٹھا رہے ہیں یہ ایک فتنہ ہے لوگوں نے کہا کہ مالکِ اشتر کو واپس بُلاو ورنہ ہم آپ کو ماردینگے ایسے لوگ تھے کیا ایسے لوگوں کے زریعے عدل ممکن تھا کیا ان کے زریعے ظالموں کو صفہ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے جو اتنے سادہ احمق اور بے وقوف ہوں ۔
امام ؑ نے کہا تھا کہ میں قرآن ِ ناطق ہوں میں حقیقتِ قرآن ہوں دھوکے میں نہ آو ۔ہاتھ کھول کر پڑھنے سے لوگ علیؑ کے شیعہ نہیں بنتے ہیں ، لوگ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے لئے تیار تھے ، سورج غروب ہو کر اندھیرا ہو جائے روزہ کھولنے کے لئے تیار تھے ، حج میں طواف نساء کرنے کے لئے تیار تھے ، لیکن آلِ محمدؐ کی امامت اور ولایت کا ساتھ دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں تھے ۔
اس لئے بارہ میں سے گیارہ اماموں ؑ کو شہید کر دیا ، جو دینا میں امامت کرنے آئے تھے
وہ مسجد میں بیٹھ کر درس دینے لگےوہ لوگ مسندِ رسول اور ممبر پر بیٹھنے لگے جنہیں تیمم کا مسئلہ معلوم نہیں تھا، شراب پینے والے لوگ آ گئے اور یہ شرابی انہوں منظر تھے لیکن اہلیبتؑ ِ رسول کی حکومت اور حکمرانی انہیں قبول نہیں تھی ۔
ہمارے بارہ میں سے گیارہ امامؑ بڑی مظلومی سے مارے گئے 63 سال کا امام ؑ بھی شہید ہے اور 25 سال کا امام ؑ بھی شہید ہے جب بارہوایں امامؑ اس دنیا میں تشریف لائے شیعہ تیار نہیں تھے آمادہ نہیں تھے امامؑ کا ساتھ دینے کے لئے ، اس لئے خدا وند متعالیٰ کی مشیعت یہ ٹھہر ی کہ امام ؑ پردہ ِ غیبت میں چلے گئے ۔
کس کے لئے تیار ہونا ہے اور امام ؑ نے دینا میں آکر کیا کرنا ہے ؟امام ؑ سے دنیا میں آکر دو کام کرنے ہیں ظُلم مٹانا ہے اور اللہ کی ساری زمین پر عدل کا نفاذ کرنا ہے امام ؑ کو ایسے شیعہ چاہیے جو بلا چُوں چراں امامؑ کی اطاعت کریں ، غیبت امام ؑ کے ظہور کی تیاری کے لئے ہے ، انتظار یعنی تیاری اور آمادہ گی کس کے لئے ؟ہم ایسے بنیں کہ امامؑ کی ظُلم مٹانے کی تحریک کا حصہ بنیں کہ پوری کائنات سے ظُلم مٹانے میں امامؑ کا ساتھ دیں اور دنیا میں عدل کے نفاذ میں بھی امامؑ کے ساتھ ہوں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here