بصیرت کا معنیٰ رہبر معظم کی نظر میں
بصیرت کا معنیٰ، آگاہی، فہم و فراست، نگاہ دل، ہوشیاری، مہارت اور یقین کیا جاتا ہے۔ اہل کشف اور شہود اس سے ایسی اندرونی طاقت اور قلبی قوت مراد لیتے ہیں جو حقایق اور واقعات کی انتہائی گہرائی اور اسکی اصل حقیقت تک پہنچ جاتی ہے۔ علم لغت کے بزرگ علماء بصیرت کی تعریف یوں کرتے ہیں، "بصیرت ایسے دینی یا غیر دینی حقایق ہیں جو قبلی یقین میں ڈھل جائیں”۔ لہذا ہر آگاہی اور معرفت، بصیرت نہیں کہلاتی بلکہ ایمان اور یقین کے ہمراہ حاصل ہونے والی آگاہی اور معرفت ہے۔ اس لحاظ سے بصیرت، ہدایت اور عمل کا موجب بنتی ہے۔ جبکہ علم اور آگاہی ہمیشہ قلبی یقین کے ساتھ نہیں ہوتی جسکا نتیجہ عمل کی صورت میں نہیں نکلتا۔ جیسے سگریٹ کے مضرات سے سب لوگ آگاہ ہیں لیکن چونکہ ان نقصانات کا انہیں دلی یقین حاصل نہیں ہوتا تو سگریٹ نوشی میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح تمام مسلمان یا خدای ادیان کے پیروکار یہ بات جانتے ہیں کہ ایک دن اس دنیا کو انہوں نے خیرباد کہنا ہے اور انکے ہر ہر عمل کا محاسبہ ہونا ہے جو جزاء و سزا کا باعث بنے گا۔ لیکن یہ علم اور آگاہی کیونکہ اکثر لوگوں کے ذہنی سطح سے قلبی اور یقینی سطح تک نہیں پہنچی اور قلبی ایمان میں تبدیل نہیں ہوتی تو انکے تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرنے کا باعث بھی نہیں بنتی۔

لیکن قلبی اعتقاد کے ساتھ والا علم انسان کے لیے حرکت اور عمل کا سبب بنتا ہے اسی لئے بصیرت ہدایت کا باعث بنتی ہے اور انسان کو غفلت سے بیدار کرتی ہے، بصیر شخص اسی نفسانی قوت کی بدولت گمراہی کے خطرے، معاملات می دھوکے اور غفلت زدہ اور بغیر حساب و کتاب کے فیصلوں سے محفوظ رہتا ہے۔ بصیرت ایک ڈھال کی مانند ہے جو فتنے و فساد اور خطرناک مواقعوں پر انسان کو محفوظ اور بچائے رکھتی ہے۔ شاید اسی لیے زرہ یا جنگی حفاظتی لباس کو بصیرت کہا جاتا ہے، چونکہ انسان کو تلواروں اور غافلگیرانہ اور ناگہانی ضربات سے محفوظ رکھتی ہے۔ فہم و فراست اور مہارت بصیرت کے لوازمات میں سے ہے کیونکہ جب ایک شخص کسی مسئلے کے بارے میں تمام پہلووں سے مطلع ہو اور کوئی بھی مبہم نقطہ باقی نہ رہے جو اس کے درست اقدام میں مانع ہو تو وہ پوری دلیری اور ہوشیاری سے اس مسئلے کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔

اس کے علاوہ بصیر شخص اپنی تیز بین اور گہری نگاہ کی وجہ سے ماضی اور حال کے حادثات سے عبرت حاصل کرتا ہے، لہذا لغت دان بعض اوقات بصیرت کو اسکے لوازمات کی بنیاد پر مہارت اور عبرت ترجمہ کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ انسان کی دو آنکھیں ہیں ایک چہرے کی آنکھ اور دوسری دل کی آنکھ، دل کی آنکھ (نگاہ دل) سے وہ حق و باطل کا فرق سمجھتا ہے، اسی لئے بصیر شخص کی دل کی آنکھ بینا اور روشن ہوتی ہے۔ قرآن ان لوگوں کو جو اردگرد کے واقعات سے عبرت لیتے ہیں اور حق اور باطل کی تشخیص دیتے ہیں، کو اہل بصر قرار دیتا ہے اور انہیں جو آیات الہی کو نظر انداز کرتے ہوئے کفر اور گمراہی اختیار کرتے ہیں، کو اندھا اور نابینا کہتا ہے۔
وَ اللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ إِنَّ في‏ ذلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصارِ (آل عمران/13)
ترجمہ: خدا اپنی نصرت سے جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے جو اہل بصارت ہیں ان کے لیے اس (واقعے) میں بڑی عبرت ہے۔
۔۔۔۔۔ فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتي‏ فِي الصُّدُورِ (حج/46)
ترجمہ: بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں۔ بعض اہل معرفت کہتے ہیں، بصیرت ایسی قلبی قوت اور باطنی توانائی ہے جو نور قدس سے روشن ہے اور اس کی روشنی میں صاحب بصیرت حقایق اور اشیاء کے باطن کو سمجھتا ہے، بصیرت نفس کے لیے آنکھ (بصر) کی مانند ہے۔ سید حیدر آملی، جامع الاسراء میں لکھتے ہیں، خداوند متعال کا کلام (نور علی نور یھدی من یشاء)، (۔۔۔ومن لم یجعل اللہ لھ نورا ممالھ من نور) اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب تک نور حق حاصل نہ ہو اور سالک کے دل و جان پر نہ چمکے، اس میں بصیرت پیدا نہیں ہوتی۔ نور حق بصیرت کی آنکھ کا سرمہ ہے اور مجاہدہ کرنے والے کی تمام تر کوشش اسی خاطر ہوتی ہے کہ موردِ عنایت حق قرار پائے اور نور حق اس کے دل و جان پر روشن افروز ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here