(علامہ راجہ ناصر عباس جعفری)
جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا ہے وہ تزکیہ اور تہذیبِ نفس نہیں کرتا ہے جو قرآن سے دور ہے وہ تقویٰ کا مالک نہیں بن سکتا ہے قرآن کی تلاوت ہماری زندگی کا حصہ بن جانا چاہیے ہماری جماعت کی شناخت ایسی ہو کہ ہم سب قرآن پڑھنے والے بن جائیں۔عبادات اور نماز کو اہمیت دینے والے بن جائیں۔
قرآن میں ارشاد ہے کہ ۔اے چادر میں لیپٹے ہوئے رات کا کچھ حصہ چھوڑ کر باقی تم قیام کیا کرو عبادت کے لئے ساری رات عبادت کیا کرو سوائے تھوڑی رات کے یعنی تھوڑی رات آرام زیادہ رات کا حصہ عبادت اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو اور اطمنان کے ساتھ تلاوت کیا کرو ہم ان قریب آپ پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں بھاری کام سے مراد بھاری ذمہ داریاں کہا گیا ہے۔
بے شک رات کے وقت اُٹھنا ایک ایسا عمل ہے جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاسکتا ہے اور بات بھی بہتر طریقے سے کی سکتی ہے۔
رات کو اُٹھنا بہت اہم ہے پھر خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ جتنا تمہیں موقع اور میسر ہے اتنا تم قرآن کی تلاوت کیا کرو
اے پیغبر ؐ تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب تم قیام کرتے ہو یعنی اُٹھتے ہو اور آدھی رات اور ایک رات کا تیسرا حصہ سوتے ہو اور لوگوں کا ایک گروہ ہے وہ بھی تیرا ساتھ ایسا ہی کرتا ہے یعنی پیغمبر ؐ کے مخلص ساتھی جو عظیم الہی ذمہ داری آخری نبوت کے فرائض انجام دینے میں نبی ؐ کا ساتھ دیتے ہیں وہ بھی عبادت میں ویسے ہی ہے اللہ کی طرف امت کو قریب لیکر جانا قُرب الہی کی طرف لے جانا اور روکاوٹوں کو عبور کرنا وہ فرعونوں ، نمرودوں ، ابوجہلوں ، شددادوں، اور یزیدوں ان طاغوتوں سے دور رہنا اور انکا مقابلہ کرنا اور اللہ کے قریب پہنچ جانا تاکہ وہ ساتھ چلیں انہوں نے اکیلے نہیں جانا ہے اجتماعی سفر کرنا ہے جماعت کے جو عہدار ہیں وہ اینجن کی حثیت رکھتے ہیں اگر ہم ساری رات اوندے پڑھے رہیں قرآن کی تلاوت نہ کریں اور فالتو فیس بُک ، موبائل ، واٹس اپ وغیرہ میں لگ کر بیٹھ جائیں قرآن کوئی بھی نہیں پڑھتا ہے اجتماعی تنظیمی اخلاقیات کے اندر خود سازی بہت اہم ہے اور خود سازی میں عبادات ہیں، نوافل ہیں ،۔
ایک شہید ہے اُس کانام محمود شہبازی ہے 23 سے 24 سال کی عمر میں جنگ میں شہید ہواتھا سپاہ کے بڑے بڑے کمانڈر کہتے تھے وہ ہمارا معلم اخلاق تھا ہمیں نہج البلاغہ اور اہل بیت ؑ کے کلمات سے ہمیں اخلاق سیکھاتا تھا ۔
اور ہم نہ صحیفہ سجادیہ سے مانوس ہیں اور نہ ہی نہج البلاغہ سے مانوس ہیں اور نہ ہی قرآن سے مانوس ہیں۔جس طرح ہم نے بہت بڑے شیطانوں سے ٹکرانے کا عظم رکھا ہے اُس کے لئے ان سب احکامات اور اخلاقیات پر پابند ہونا انتہائی ضروری ہے دیگر صورت ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائینگے اور ختم ہو جائینگے۔لہذٰا خود سازی بہت ہی اہم چیز ہے یہ باقاعدہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے ۔لکھ لینا چاہیے کہ آج کے دن میں اس طرح کے عبادات کے پروگرام ہیں ۔
رسول پاک ؐ فرماتے ہیں کہ میرے دل پر غبار آجاتا ہے میل آجاتا ہے پھر میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں پھر وہ غبار میرے دل سے اُتر جاتا ہے۔
اس حدیث کو سمجھانے کے بہترین مثال یہ ہے کہ ایک بائیک میکینک جس کے کپڑے اتنے میلے ہوتے ہیں کہ نیا داغ لگ بھی جائے تو محسوس نہیں ہوتا اور اسی طرح اگر کوئی سفید کاٹن کے کپڑے پہنے اور چھوٹا سا داغ بھی لگ جائے تو ایک دم اور دور سے پتہ چل جاتا ہے ہماری روحیں میکنیک کے کپڑوں کی طرح ہو گئی ہیں جس پر لگنے والا داغ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا ہے ۔
رسول پاک ؐ کی روح اتنی پاک اور صاف ہے کیسے لوگوں میں بیٹھتے ہیں مثال سے واضح کرونگا۔
جو مقام ِ ابرار پر فائز ہیں اُنکی نیکی جو ہے مقربین کے مقام پر جو فائز ہیں اُنکا گناہ ہے اگر وہی عمل وہ انجام دیں تویہ اُنکا گناہ ہے ۔
خود سازی بہت اہم ہے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ لیکر چلنا ہے اس لئے دوسرے لوگوں کی جانب ہم نے اخلاقیات اور احکامات میں سب آگے رہنا ہے اور عمل میں بھی سب سے آگے رہنا ہے
اگر ایک جماعت کے نظم اور ضبط کی اساس اور بنیاد تقوی اور خود سازی اور باطنی طہارت نہ ہو اُس جماعت کی بنیاد دلدل کے اُوپر ہے کسی وقت ایک دم سے دلدل میں پھنس جائے گی خواہشات اور ہواہوس کی لالچ میں ایک دن دھس جائے گی اور تباہ و برباد ہو جائے گی ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here