نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت طیبہ(حصہ اول)

ولادت سے شعیب ابی طالب تک:

اہداف و مقاصد :
۱۔حضورپاکؐ کی بعثت سے پہلے کی زندگی
۲۔شعب ابی طالب میں محصوری تک حضور کی زندگی کے اہم واقعات۔

شناسنامہ:
نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد
لقب۔۔۔۔۔۔۔مصطفی
کنیت۔۔۔۔۔۔۔ابوالقاسم
باپ کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ
ماں کا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمنہ بنت وھب
تاریخ ولادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۷ ربیع الاول
شہادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۸ صفر ۱۱ ہجری
مدت نبوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۳ سال
محل دفن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدینہ منورہ

ولادت سے بعثت تک:

حضر ت محمد ؐ یتیم پیدا ہوئے یعنی آپ کی ولادت آپ کے والد بزرگوار کی وفات کے بعد ہوئی ، خدا وند نے ارشاد فرمایا،
’’ألم یجدک یتیما فآوی ‘‘
کیا خدا نے آپ کو یتیم نہیں پایا لیں اس نے آپ کو پناہ دی،
حضور اپنی والدہ گرامی کے ساتھ بھی زیادہ دیر نہیں رہ سکے ، جب آپ کی عمر شریف چھ سال تھی تو آپ کی والدہ گرامی کی وفات ہو گئی ، اور آپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دادا عبدالمطلب نے اٹھالی اور انہوں نے اسے بڑے اچھے طریقے سے نبھایا ، آپ اکثر فرماتے تھے ،’’ان لابنی ھذا لشانا‘‘
میرا یہ بیٹا شان والا ہے، کیونکہ آپ کی ولادت سے ہی آپ کے وجود کی برکات کو دیکھ رہے تھے ، حضورپاکؐ کی عمر مبارک آٹھ سال کی تھی تو آ پ کے دادا حضر ت عبدالمطلب کی وفات ہوگئی او ر ان کی وصیت کے مطابق آپ کی کفالت آ پ کے چچا حضرت ابو طالب نے سنبھالی۔
نبی پاکؐ اپنے زمانے کے لوگوں میں سے بالکل ممتاز تھے، آپ ؐ ان کے درمیان صادق و امین کے لقب سے معروف تھے، تمام اخلاقی عیوب سے دور تھے جیسے شراب نوشی ، لہو، جوا وغیر ہ جو کہ اس دور میں عام تھے یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی دشمن نے بھی آپ کو اسکی عار نہیں دلائی جب آپ انہیں اسلام کی دعوت دیتے ،نہ کسی معیوب فعل کی اور نہ کسی پرروا رکھے جانے والے ظلم کی ۔

الف : بعثت:

رسول خدا ؐ جاہلیت کی زندگی کے تمام مظاہر سے پاک و منزہ تھے اور آپ معاشرے کو جہالت کے اثرات سے بچانے کے لئے مسلسل سوچتے رہتے تھے اور خداوند کی آ پ پر خاص عنایت تھی ، خداوند کی عبادت کے لئے آپ مسلسل غار حراء تشریف لیجاتے اور خداوند نے آپ کو نبوت کے شرف سے مشرف فرمایا، آپ کی عمر شریف جب چالیس سال تھی تو جبرئیل آ پ پر پہلی وحی لیکر نازل ہوئے، یوں اس الٰہی دعوت کا آغاز ہو اتاکہ لوگوں کو آپ تاریکیوں سے نور کی طرف نکالیں۔
آپ کی زوجہ محترمہ خدیجہ بنت خویلد اور علی بن ابی طالب سب سے پہلے افرادتھے جنہوں نے آپ پر ایمان کا اقرار کیا اور جب آپ پر آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ(شعراء ۲۱۴) نازل ہوئی تو مخفی دعوت کا دور ختم ہوا اور اسلام کی اعلانی دعوت کا آغاز ہوا۔

ب : دعوت مخفی و ظاہری

رسول خدا نے امرالٰہی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی رسالت اور نزول وحی کو لوگوں پر ظاہر نہ کیا اور یہ مخفی دعوت تین سال کی مدت تک جاری رہی ان سالوں میں حضورؐ ابتدائی بنیادیں بناتے رہے اور دعوت کے ستون مضبوط کرتے رہے، اس مدت میں ایک جماعت نے ایمان قبول کرلیا جب ان کی تعداد چالیس افراد تک پہنچ گئی تو خداوند نے آپ کو حکم دیا کہ اب اپنی دعوت کو علی الاعلان کریں ۔
’’یا ایہاالمدثر قم فأنذر‘‘
خداوند کا حکم آیا کہ کہ پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دو،
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ
اپنے رشتہ داروں کو خدا کی عبادت کرنے اور بتوں کی عبادت چھوڑنے کی دعوت دیں ۔
حضر ت ابو طالب اپنے بھتیجے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ، آپ کی اس رسالت میں انہوں نے آ پ کی ہر طرح کی مدد کی اور بھرپور دفاع کیا اور مشرکین جو آ پ کو اذیتیں دینا چاہتے تھے ان کے سامنے ابوطالب دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ، یہی وجہ ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہوئی تو حضور ؐ کے لئے ایک محکم پناہ گا ہ اور مضبوط پشت پناہ کے ختم ہونے کا احساس پیدا ہوااس کا اظہا ر آپ نے ان لفظوں میں فرمایا:
یاعم ربیت صغیر اً و کفلت یتیما ونصرت کبیرآ فجز اک اللہ عنی خیراً ومشی بین یدی سریرہ وجعل یقول وصلتتک رحم و جزیت خرآ(تاریخ یعقوبی ج۲،ص۳۵)
اے چچا میں چھوٹا تھا جب آپ نے میری پرورش کی ، میں یتیم تھا آپ نے میری کفالت کی اور جب میں جوان ہوا تو آپ نے مسلسل میری مددکرتے رہے خداوند آپ کو جزاء خیردے، حضور آپ کے جنازے کے آگے چل رہے تھے اور فرما رہے تھے آپ نے خوب صلہ رحمی کی خدا آپ کو جزاء خیر دے۔

ج۔ قریش کا موقف اور شعب میں محصور ہونے کا واقعہ

قریش نے حضورؐ کی دعوت کوبیہودہ بہانوں کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کردیا جیسے ہمارے باپ دادا کا جو مذہب ہے وہ ہم کیسے چھوڑ یں وغیرہ ،اور پھر وہ آپ کے مقابلہ پر کھڑے ہوگئے اور آپ کو اور آپ کا ساتھ دینے والوں کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچانے لگے
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا،
مااُوذی بنیٌّ قطّ مثل مااُوذیتُ(مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ج۲،ص ۲۴)
کسی نبی کو اتنی تکلیفیں نہیں پہنچائی گئیں جتنی مجھے پہنچائی گئیں ۔قریش کی سختیوں کے مقابلے میں حضورؐ نے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کیں مثلاً اپنے بعض اصحاب سے کہ جن میں سرفہرست جعفربن ابی طالب تھے فرمایا حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤ فرمایا:
ھی ارض صدق فانّ بہا ملکا لایظلم عندہ احدٌ(سیرح ابن ہشام ج۱،ص ۳۴۴)
یہ سچ کی زمین ہے اور وہاں ایسا بادشاہ حاکم ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیاجاتا،
قریش نے مسلمانوں پر ظلم کی حد کردی ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے جس میں انہوں نے یہ طے کیا کہ بنی ہاشم کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے اور انہیں شعب میں پناہ لینے پر مجبور کیا جائے ۔اس خاطر انہوں نے ایک صحیفہ لکھا کہ نہ بنی ہاشم کو کھانے پینے کی اشیاء دی جائیں ، نہ ان کے ساتھ بات کی جائے،نہ انہیں کچھ بیچیں ، نہ ان کے ساتھ رشتہ کریں یہاں تک کہ بنی ہاشم رسول خداؐ کو ان کے حوالے کردیں اور وہ انہیں قتل کردیں۔
یہ اقتصادی محاصرہ تین سال تک جاری رہا ، جب یہ بائیکاٹ ختم ہوا تو اس کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ تین ماہ کے فاصلے سے وفات پاگئے اور حضورؐ نے اس سال کو ’’عام الحزن ‘‘ یعنی غم کا سال قرار یا قریش کی یہ بائیکاٹ والی سختی اور چچاو زوجہ کی وفات کے باوجود حضورؐ کے عزم و اردہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، آپ نے تسلسل کے ساتھ اپنی دعوت جاری رکھی اور بعثت کے دسویں سال آپ نے طائف جانے کا ارادہ کیا تاکہ طائف والوں کو اس نئے دین کی دعوت دیں،لیکن انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی دعوت قبول نہ کی بلکہ آپ کو پتھر مارے اور آپ رحمت خداسے مایوس ہوئے بغیرمکہ لوٹ آئےعام الحزن وہ سال ہے جس میں حامی رسول ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی۔

(مطالعہ کے لئے)
وہ کلام جس نے ابوطالب کو روحانی قوت بخشی:

حضور ؐ قریش کے مقابلے کی پروا کئے بغیر اسلام کی دعوت انجام دیتے رہے ، آپ ؐنے ان کے دین کی عیب جوئی کرتے اور ان کے عقائد کو سفیہانہ قراردیتے ،یہ چیز ان کے لئے باقابل برداشت تھی اس وجہ سے وہ آپ کی دشمنی اور عداوت پر متفق ہوگئے ، ان میں سے کچھ حضرت ابوطالب کے پاس گئے اور تقاضا کیا کہ آپ اپنے بھتیجے کو دعوت اسلام کے جاری رکھنے سے روکیں لیکن حضرت ابوطالب نے انہیں نرمی سے سمجھایا اور اچھے طریقے سے ان کی بات رد کردی،حضورپاکؐ اپنی دعوت مسلسل جاری رکھے ہوئے تھے اور اب آپ کا ذکر قریش کی محافل میں زیادہ ہونے لگا تھا اور وہ ایک دوسرے کو آپ کے مقابلے اور قلع قمع کرنے کی بات کرنے لگے۔ اب کی بار ایک اور گروہ حضرت ابوطالب کے پاس آیا اور کہا اے ابوطالب آپ بزرگ ہیں اور صاحب شرف آپ کا ہماری نگاہ میں بڑا احترام ہے،ہم نے آپ سے پہلے بھی کہا کہ اپنے بھتیجے کو روکیں لیکن آپ نے ایسا نہ کیا ، لیکن اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور ہم اپنے عقائد کی توہین اور اپنے معبودیوں کو گالیاں مزید برداشت نہیں کرسکتے لہٰذا اگر آپ انہیں نہیں روکتے تو ہمیں یہ کام کرنے دیں ،اب ہم میں سے کوئی ایک ہی زندہ رہے گا۔
یہ دھمکی حضرت ابوطالب کو بڑی شاق گذری کیونکہ اس سے پہلے ایسا انہیں نہیں کہا گیا تھا اور واضح ہے کہ ابو طالب اکیلے پورے قریش کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے،اگر مقابلہ کرتے تو یہ سب کے لئے خطرہ تھا، اسی وجہ سے آپ نے اس بارے پیغمبر اکرمؐ سے مشورہ کیا تو حضورؐ نے فرمایا اے چچا خدا کی قسم اگر وہ سورج میرے دائیں ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند میرے بائیں ہاتھ پر تاکہ میں یہ دعوت چھوڑدوں تو ایسا قطعاًنہیں ہوسکتا،میں یہ دعوت جاری رکھوں گا یہاں تک خداوند مجھے کامیاب کردے یا اس میں میری جان چلی جائے ، یہ کہا تو حضورؐ کے آنسو بہہ نکلے اور آپ اٹھ کر چل دیئے ، ابوطالب نے پیچھے سے آواز دی ، میرے بھتیجے میری بات سنو،آپ واپس آئے تو ابو طالب نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے تم جو چاہو جا کر کہوخدا کی قسم میں کبھی تمہیں قریش کے حوالے نہیں کروں گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here