ہمارے عقائد(2)
توحید اور اس کے مراتب

موضوعات:
۱۔معرفت توحید
۲۔مراتب توحید
۳۔ توحید کی دلیلیں

توحید کے اوّلین اصول:

پانچ اصول دین میں سے سب سے پہلی اصل توحید ہےیعنی یہ ایمان کہ خداوند وحدہ لاشریک لہ ہے اور یہ اصل تمام اصول کی بنیاد و اساس ہے اور خداوند کی توحید کی گواہی ہی اسلام میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔
ہم ہر روز کلمۂ توحید یعنی لاالہ الاّاللہ بولتے ہیں اور یہ کلمہ ہمارے عقیدے کابنیادی جزو ہے جس پر ہمارے عقول و اذہان کا ایمان قائم ہے اور اس کا مطلب خداوند کی الوہیت میں ہر طرح کے شرک کی نفی ہے ،پس اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ خداوند ارشاد فرماتا ہے۔
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (نساء ۴۸)
خداوند اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس نے خداوند کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس نے عظیم گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔
لیکن توحید کیا ہے اور کیا توحید کی ایک ہی جہت ہے یا اس کے مختلف پہلو ہیں ۔

توحید کے مراتب:

مکمل توحید تک پہنچنے اور یہ یقین حاصل کرنے کے لئے ہم نے اپنی توجہ خداوند کی طرف خالص کرلی ہے ضروری ہے کہ مراتب توحید کی معرفت حاصل کریں۔
پہلا مرتبہ: توحید ذات ہے
جب ہم کسی شے کو واحد (ایک ) کہتے ہیں مثلاً ہم کہتے ہیں کہ سورج ایک ہے تو اس سے کوئی مانع نہیں ہے کہ ہم دو یا تین سورج فرض کریں جبکہ خارج میں صرف ایک سورج موجود ہے لیکن جب خداوند کو واحد کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ خدا کے مثل دوسرا وجود فرض کرنا بھی ممکن نہیں ہے یہ معنی ہیں توحید ذات کے پس خدا وند ذات میں واحد ہے اور اسکی شبیہ ،نظر، مثل و برابر فرض کرنا ہی ممکن نہیں ہےاورہم ایک مختصر سی آیت اس بارے میں ذکر کرتے ہیں جو توحید ذاتی کو بیان کر رہی ہے۔
’’لیسں کمثلہ شیٔ‘‘
اس کی مثل کوئی نہیں ہے
پس خداوند کے لئے کسی چیز میں بھی شبیہ و مثل فرض کر نا ممکن نہیں ہے۔

توحید ذات کی دلیل:

کسی شے کے وجود کی نفی کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے کہ اس کے ہر طرح کے اثر کی نفی کر دیں۔ جب اثر اس شے کے وجود کے ملازم ہو تو اثر کی نفی سے اس شے کے وجود کی نفی بھی ہو جائے گی اسے کہتے ہیں نفی اثر سے نفی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ توحید ذاتی کے اثبات کے لئے اس طریقہ سے استدلال کیا جا سکتا ہے، اگر خداوند کے علاوہ کوئی خدا ہوتا تو اس کا اثر ضرور ہوتا اور اثر اس کی طرف سے انبیاء و رسل کا مبعوث ہونا تھا، جو لوگوں کو اس کی اطاعت و عبادت کی دعوت دیتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کوئی نبی اور رسول نہیں آیا جس نے خداوندمتعال کے علاوہ کسی اور کی عبادت و اطاعت کی دعوت دی ہو پس اللہ کے غیر کی طرف سے انبیاء کا نہ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میںاگر خداوند کا کوئی شریک ہوتا تو دو طرح کے نبی آتے،ایک گروہ انبیاء ایک خدا کی طرف بلاتا اور دوسرا گروہ دوسرے خدا کی طرف ،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سب انبیاء ایک ہی خدا کی طرف بلاتے ہیں پس اگر دوسرا خدا ہے تو اس کی طرف لو گوںکو بلانے والے اس کے انبیاء کہاں ہیں۔
یہ دلیل نہج البلاغہ میںحضرت امیر المومنینؑ نے اپنے بیٹے امام حسنؑ کے نام اپنی وصیت میں ذکر فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں۔
’’واعلم یا بنییّ انہّ لوکان لرّبک شریک لاتتک رسلہ ولراء یت آثار ملکہ وسلطانہ و لعرفت افعالہ وصفاتہ ولکنّہ الٰہ واحد کما وصف نفسہ‘‘(نہج البلاغہ خط نمبر ۲۱)
جان لو اے بیٹا اگر تیر ے ربّ کا کوئی شریک ہوتا تو اس کی طرف سے تیرے پاس رسول آتے،تم اسکی مملکت و سلطنت کے آثا ر دیکھتے اور اس کی افعال و صفات کو جان لیتے ، لیکن خداند واحد معبود ہے جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے۔

دوسرا مرتبہ: توحید خالقیت:

خلق وہ فعل ہے جو خداوند کے ساتھ خا ص ہے پس صرف اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے جب کہ ارشاد ہے۔
قُلِ اللّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ(رعد۱۶)
اگر کوئی شخص تو حید ذات کا قا ئل ہے کہ اسکی ذات میں کوئی اس کی مثل و شبیہ نہیں ہے لیکن غیر خدا کی خالقیت کا قائل ہے تو وہ شخص خالقیت میں مشرک ہے۔

توحید خالقیت کی دلیل:

مخلوقات میں غور و فکر کر لینا ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ان سب کا خالق ایک ہے، اس لئے کہ ان مخلوقا ت میں خاص نظم وارتباط پایا جا تا ہے ،اگر خدا وند کے علاوہ کوئی اور خالق ہوتا تو ہمیں اور مخلو قا ت بھی نظر آتیں جس کا نظام الگ اور مستقل ہوتا۔ ہر انسان کا وجدان (ضمیر) شاہد ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک سے زیادہ نہیں ہے اور اس سوال کا جواب ان کا ضمیر دیتا ہے جیسا کہ قرآن میں اسی طرف اشارہ ہوا ہے۔
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ(لقمان۲۵)
جب آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کو کس نے خلق کیا ہے تو وہ یک زبان ہو کرکہیں گے اللہ نے، کہہ دو سب حمدخداوند کے لیے ہے بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

تیسرا مرتبہ : توحید ربوبیت:

ربّ کے معنی مدبرّ (تدبیر کرنے والے) کے ہیں یعنی جس کے قبضہ قدرت میں تمام امور کی تدبیر ہو بلاواسطہ یا بالواسطہ ، باپ خاندان کے امور کی تدبیر کرتا ہے یعنی ان کے تمام معاملات کی دیکھ بھال بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کے ہاتھ میں ہے۔
رسول خدا کے زمانے کے مشرکین نے توحید ذات یا توحید خالقیت کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے توحید ربوبی کا انکار کیا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ اس کا مدبرّ خداوند کے علاوہ بھی ہے اور وہ بت وغیرہ کو مدبرّ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرتے تھے کہ یہ زمین و آسمان کے امور جیسے رزق، جنگ میں فتح و نصرت اور موت وغیرہ جیسے امور کی تدبیر کرتے ہیں۔اس بات کو خداوند نے سورہ یوسف میں بیان فرمایا ہے کہ جب حضرت یوسف اپنے قید خانے کے دو ساتھیوں سے گفتگو کرتے ہیں۔
أَرْبَاب مُتَفَرِّقُونَ خَيْر أَمِ اللَّه الْوَاحِد الْقَهَّار(یوسف آیت۳۹)
کیا بہت سے رب مان لینا بہتر ہے یا رب صرف اللہ واحد قہار ہے۔

توحید ربوبی کی دلیل:

توحید کی اہم ترین دلیل نظام کائنات کی وحدت کی دلیل ہے جسکا بیان درج ذیل ہے۔
اس کائنا ت کا نظام انتہائی غورو خوض و باریکی کے ساتھ جاری ہے جیسے جیسے ہم اس نظام میں زیادہ غور کرتے جائیں گے اس کی باریکی اتنی ہی زیادہ ہمارے لیے روشن ہوتی جائے گی اگر اس کائنات کے مدبر ایک سے زیادہ ہوتے تو ان کی تدبیر میں اختلاف ہوتا کیونکہ ان کےطور طریقےمختلف ہوتے جس کا اثر اس کائنات کے نظام میں ظاہر ہوتا۔
لہٰذا نتیجہ کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات کے نظام میں وحدت و انسجام اس نظام کےعطا کرنے والے کی وحد ت پر دلیل ہے جیسا کہ خداوند قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا(انبیاء ۲۲)
اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ خدا ہوتے تو ان دونوں (زمین و آسمان) میں فساد و اختلاف ہوتا۔
چوتھا مرتبہ: توحید عبادت
مسلمان جب بھی سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو اس میں خداوند سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟یعنی وہ جو مستحق عبادت ہے اور مستحق اطاعت ہے اوراس کے غیر کی عبادت و اطاعت جائز نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے۔
توحید عبادت کا یہ مطلب ہے کہ آپ کوئی ایسا عمل جس سے آپ کا ارادہ خضوع و خشوع کا ہو غیر اللہ کے لیے انجام نہ دیں بلکہ آپ کا خضوع صرف خداوند کے لیے ہونا چاہیے۔

توحید عبادت کی دلیل:

اگر آپ توحید کے سابقہ مراتب کا ایمان رکھتے ہیں یعنی آپ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے اورآپ کے تمام امور اس کے ہاتھ میں ہیں تو پھر آپ اس کے غیر کی عبادت نہیںکر سکتے ہیں۔توحید کے سابقہ مراتب کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان عبادت میں موحدّ ہو، خداوند ارشاد فرماتا ہے۔
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (توبہ ۳۱)
انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو رب بنا لیا خداوند کو چھوڑ کر اور عیسیٰؑ بن مریمؑ کو جبکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ ایک خد ا کی عبادت کریں وہ خدا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور خداوند پاک و منزہ ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ امام صادق ؑاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اماواللہ مادعوھم الی عبادۃ انفسھم ولو دعوھم مااجابوھم ولکن احلّوا لھم حراماًمو علیھم حلالاً فعبدوھم من حیث لا شیعرون(کافی ج ۵۳)
خداکی قسم انہوں نے انہیں اپنی عبادت کی دعوت نہیں دی اگر وہ انہیں اپنی عبادت کی دعوت دیتے تو وہ قطعاً ان کی بات نہ مانتے بلکہ انہوں نے ان پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیا پس لوگوں نے ان کی لاشعوری طور پر عبادت کی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here