محمدایوب صابری
فمن یعمل مثقال زرة
خيرايره ومن يعمل مثقال زرة شرايره (الزالزله

کیاامام حسین پر رونااور ماتم کرنا باعث اجرو ثواب ہے ؟؟
کیا واقعاً امام حسین پہ رونا اور ماتم کرنا شرعاً عبادت میں شامل ہے ؟؟
میرامطلب یہ ہے کہ باقی شرعی اور اسلامی عبادات کی طرح عزاداری امام حسین بھی ایک شرعی اور اسلامی عبادت ہے؟؟
مثلاً نماز شرعا ایک واجب عبادت ہے بجا لانے والا اجر اور ثواب کا سزاوار ہے اور ترک کرنے والا قابل سرزنش اور گرفت ہے۔
یہ تو میں واجب نمازسے متعلق بات کر رہاتھا ۔
شریعت میں واجب نمازوں کے علاوہ مستحب نمازیں بھی ہیں جن کی بجا آوری کی اسلام میں بہت تاکید ہے۔
جیساکہ نماز تہجد ہے
نماز شب کا ذکر قران مجید اور بےشمار احادیث میں ہے اوراس نماز کے بجالا نے والوں کے لئے بہت اجر اور ثواب کاو عدہ دیا گیاہے
اور ترک کرنے والوں کی مذمت تو ہے لیکن گناہ نہیں نماز شب نہ پڑھنے والوں کو صرف اس جرم پرکہ انہوں نے نماز شب نہیں پڑی ہیں جہنم کے مستحق نہیں ہوں گے لیکن اپنے آپ کو ایک بہت بڑے اجر عظیم سے محروم رکھا

کیاعزاداری امام حسین بھی ایک واجب یامستحب نماز کی طرح عبادت ہے؟؟ اگرعزادای قائم کرے تو بہت بڑا اجر اور ثواب ملے گا
اور بجا نہ لانے کی صورت میں قابل گرفت اور سرزنش ٹھرایاجائے گا ۔ جیساکہ شیعہ حضرات عزاداری سیدالشہدا امام حسین (ع) کو بہت بڑے اہتمام کے ساتھ بجالاتے ہیں اور محرم کا چاند نظراتے ہی عالم سوگ میں چلے جاتے ہیں اور اس رسم عزاداری کو ادا کرنے کے لئے ہرقسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کر تے ہیں اور
ان مراسم کی ادائیگی میں انہیں بہت سے مکاتب فکر کی طرف سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے
اور بہت سی دشوار مشکلات سے گزرنا پڑتاہے اس عزاداری کے مقابلے میں ان کو سنگین نتائج کاسامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات بہت بہاری قیمت چکانی پڑتی ہے ۔
آخر شیعوں کا اتنا اصرار کیوں ہے؟؟
اور اس عزاداری کی شرعی حیثیت کیاہے؟؟
شیعہ اس کو قائم رکھنے پر پافشاری کرتے ہیں اور ایک مکتب فکر اسے ختم کرنے پر مصرہے شیعہ ہرقسم کی قربانی دینے کوتیارہیں اور کسی صورت عزاداری پر کمپرمائز کرنے کو تیار نہیں ہیں چاہے اس راہ میں ان کی جان مال عزت آبرو ہو ہی کیوں نہ چلاجائے آخر عزاداری ہے
کیا چیز؟؟
شیعوں کے ہاں اسے اتنی اہمیت کیوں ہے ؟؟
کیا قران مجید میں اس طرح عزاداری کرنے کاکوئی حکم ہے ؟؟
یا پیغمبر اسلام کی کوئی خاص ھدایت ہے
کہ امام حسین کی عزاداری کو ہر حال زندہ رکھاجائیں چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو نتائج اور سنگین قسم کے خطرات کیسے ہی کیوں نہ ہو مگر عزاداری پرآنچ نہ آنے پائے ؟؟
ان سب سؤالوں کے تفصیلی جوابات ذیل میں آپ ملاحضہ فرمایں گے _

آئیں سب سے پہلے میں آپ کی توجہ قرآنی ایک قاعدہ اور اصول کی طرف دلاؤں اور اس کی تھوڑی بہت وضاحت کروں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہو رہاہے ۔
(فمن یعمل مثقال زرة خيرايره ومن بعمل مثقآل زرة شرايره )
قیامت کے دن ہر انسان نے دنیا میں ذرہ برابر جو عمل انجام دیا ہوگا اسے دیکھے گا رأئی کے دانہ برابر عمل خیر انجام دیا ہو تو اسے بھی دیکھے گا اور اس کا پاداش اور اجر اسے دیاجائے گا اور اگر رائی کے دانہ کے برابر براعمل بجالایاہوتو اسے بھی دیکھے گا اور اس جرم کا اسے حساب دینا ہو گا اور اس کاسزا بھگتنا پڑے گا ۔
(کل نفس بماکسبت رھینه)

ہرشخص اپنے عمل کا زمہ دار ہوگا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے گناہ كا زمہ دار نہیں ہوگا

(ولاتزروازرة وزراخرا )

کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے بارگناہ کا زمہ دار نہیں ہوگا
(ان احسنتم احسنتم فلانفسکم وان اسأتم فلها )

جس نے اچھائی کیاہو اس کا فائدہ بھی اسے ہی ملے گا جس نے برے کام کئے ہو تو اس کانقصان بھی اسے ہی ہوگا۔
اب آئیں قرآنی اس اصول پرعزاداری کو پر رکھتے ہیں
عزاداری ایک عمل ہے عزادار کا _
ماتم کرنا رونا آنسوں بہانا اگر چہ ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو سینہ زنی یہ سب عمل ہے عزادار اور ماتم دار کا۔
وہ مالک کائنات جو ذرہ ذرہ کا حساب رکھتاہے جس کے ہاں بھول نام کی کوئی چیز ہے نہ سہوہ نسیان اتنے بڑے عمل کو نظر انداز کیسے کرسکتاہے ۔
جب کہ جب یہ کوئی چھوٹا موٹا کردار نہیں ہے جس پر ایک گروہ مر مٹ نے کوتیار ہے اور ہزاروں لاکھوں قربآنیاں دے چکاہے خداکی نظر سے کیسے پوشیدہ رہ سکتا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے یہ عمل اچھاہے یا براہے ۔
دوہی صورتیں ہیں تیسری صورت کوئی نہیں ہے اگرعزادای اور ماتم برا
کردار ہے تو صاحبان کردار کو اس کے برے نتائج کا سامناکرناپڑھے گا وہ اپنے آپ کو ان نتائج کے بھگتنے کے لئے تیار رکھیں اور اگر اچھا عمل ہے تو اچھاسے میرا مراد خلاف شرع نہ ہو بلکہ شریعت کے عین مطابق ہو کسی واجب یامستحب نماز کی طرح تو پھریہ عمل عبادت میں شامل ہوگا واجب یامستحب نماز کی طرح اس کاثواب ماتم دار کو ملے گا ۔
یہاں سے خود با خود ایک تیسرا سؤال جنم لیتا ہے وہ یہ کہ یہ کون فیصلہ کرے گا عزاداری ماتم داری قران اور شریعت کے مطابق ہے یانہیں عبادت ہے یا بدعت کفر ہے یاشرک ۔
تو جواب واضح ہے قرآن اور خود صاحب شریعت ہی مجاز اتھاڑٹی ہیں فیصلہ کرنے کا ۔
آئیں پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ماتمی کرتا کیا ہے ماتمی اھلبیت رسول کے فضائل بیان کرتاہے یاسنتا ہے توبہت خوش ہوتاہے۔
اور اگر ال رسول پر ہونے والے مظالم اور مصائب سنتا ہے تو افسردہ غم زدہ اور سوگ وارہوتا ہے ۔
سوگ مناتا یے اوران مصائب پرروتا ہے آنسوں بہاتا ہے سینہ زنی کرتاہے اور اس ظلم عظیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوے سڑکوں پربھی آتا ہے یہ عمل عین فطرت کے مطابق ہے کیوں کہ شیعہ آل رسول کا محب اور دوست دار ہے اپنے رسول کی آل کے دکھ سکھ کو اپنادکھ سکھ سمجھتاہےاور ان کے غم اور خوشی میں شریک ہوتاہے
یہ فطری عمل ہرانسان میں موجود ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے جوشیعہ انجام دیتاہے ۔
قران مجیدمیں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس میں الله تعالی نے رونے سے منع کیاہو بلکہ رونا ثابت ہے اور زیادہ ہنسنا اور خوشی منانا منع ہے ۔

فاالیضحکو قلیلا والیبکو کثیرا ۔

زیادہ رویاکرو کم ہنساکرو

یہاں تک زندہ آدمی کے مصائب اور جدائی پررونابھی قران مجید سے ثابت ہے حضرت یعقوب ابن اسحاق ابن ابراھیم جوخداکے نبی تھے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے یوسف وہ خود بھی الله کے نبی تھے کی جدائی پر چالیس سال تک روتے رہے یہ تو ہوا
زندہ و جاوید کا ماتم

(وابیضت عیناہ من الحزن فھوکیظیم )

یعقوب کے روتے روتے یہ عالم ہوا کہ ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی اور ان کی آنکھیں سفید ہوگئی۔
پس اگر رونا الله قرآن اور رسول کی نظرمیں گناہ ہوتا یا زرہ برابر برائی ہوتی یارأئے کے دانے کے برابر بھی کراہت ہوتی تو الله کا رسول حضرت یعقوب چالیس سال تک نہ روتے وگرنہ آج حضرت یعقوب الله کی گرفت میں ہوتے اوراس ناپسندیدہ عمل کی وجہ سے وہ منصب نبوت سے محروم ہوتے اور اہل نہ رہتے ۔
اگرحضرت یعقوب قرآن مجید کے روسے چالیس سال تک زندہ یوسف کی جدائی پرروتے رہتے ہوے الله کے نبی اور جنت کے حقدار رہے تو شیعہ ال رسول
(جو فخریعقوب ویوسف ہیں)
پر ہونے والے مظالم اور مصائب پر وہ بھی شہیدہونے کے بعد ماتم کرنے اور رونے سے مسلمان بھی رہ سکتے ہیں اور جنت میں بھی جاسکتے ہیں ۔
یہاں پرایک نکتہ کی طرف متوجہ کرناضروری سمجھتاہوں وہ یہ کہ قرآن مجید میں صرف حضرت یعقوب کے رونے کا یک طرفہ ذکرہے وگر نہ حضرت یوسف بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم اورباپ کی جدائی پر روتے رہے ہیں جب کہ حضرت یوسف بھی جانتے تھے کہ بالآخرباپ سے ملاقات ہوگی۔
اب میں چندروایات ائمہ اہلبیت سے نقل کرتاہوں امام حسین اور دیگراہلبیت کاماتم کرنا نہ تنہاثواب ہے بکلہ باعث اجر اورعندالله بلندی رجات کاسبب بھی ہے ۔
ریان بن شبیب حضرت امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہے ۔
یابن شبیب ان بکیت علی الحسین حتی تصیردموعك علي خديك ، غفرالله لك كل ذنب اذنبته صغيرا كان اوكبيرا قليلاكان اوكثيرا … يابن شبيب ان سرك ان تكون معنافي الدرجات العلي من الجنان ،فاخزن لحزنناوافرح لفرحنا )

امام رضا(ع) فرماتے ہے ،فرزند شبیب اگراماحسین پر گریہ کروگے اور تیرے آسوں رخسارپرجاری ہو تو الله تعالی تیرے چھوٹے بڑے ،قلیل کثیر گناہوں کو بخش دیگا پسرشبیب اگرتم چاہتے ہو جنت میں ہمارے ساتھ بلند درجات میں ہو تو ہمارے غم میں غم مناؤ اور ہماری خوشی میں خوش ہوجاؤ۔
حوالہ کتاب لامالی ، شیخ صدوق مجلس نمبر27 الدرسات الاسلامیہ ۔ص۔ 192)
حدیث چہارسو خصلت

امیرالمؤمنین (ع) ایک حدیث جوچارسوخصلت پر مشتمل ہے) فرماتے ہے
عن امیرالمومنین (فی حدیث اربعمائه)
قال كل عين يوم القيامة باكية وكل عين يوم القيامة ساهرة الاعين من اختصه الله بكرامته وبكي علي ماينهتك من الحسين وآل محمد)

آپ فرماتے ہیں قیامت کے دن ہرانکھ اشک بار ہوگی (اور ہرانکھ پریشانی کی وجہ سے ) بیدار ہوگی ۔ مگروہ آنکھ جسے خدا نے اپنی رحمت سے مخصوص کیاہو اور حسین اور آل محمدکی ہتک حرمت پر گریہ کیاہو۔
الخصال ۔ شیخ صدوق ۔ حدیث اربعمائه ،تصحیح علی اکبر غفاری. ص . 625؛

امام محمدباقر(ع) کی روایت
(عن محمدبن مسلم عن ابي جعفر قال ، كان علي بن الحسين يقول ، ايما مؤ من دمعت عيناه لقتل الحسين بن علي دمعة حتي تسيل علي خده بواه الله بهافي الجنة غرفايسكنها احقاباوايمامؤمن دمعت عيناه حتي تسيل علي خده فينااذي مسسنامن عدونافي الدنيا بواه الله في الجنة مبوا صدق ،ايمامؤمن مسه اذي فدمعت عيناه حتي تسيل علي خده من مصاضة مااوذي فينا ،صرف الله عن وجههالاذي وآمنه يوم القيامة من سخطه والنار .

امام محمد باقر (ع) امام سجاد (ع) سے روایت کرتے ہے کوئی بھی مؤمن امام حسین کی شہادت پر گریہ زاری کرے اور آنسوں اس کے رخسار پر جاری ہوجائے الله تعالی جنت میں اس کے لئے محلات تیار کرےگا اور عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اگر کوئی مؤمن ہمارےاوپر ہونے والی اذیت اور آزار کی وجہ سے گریہ وزاری کرے اور آنسوں اس کے رخسارپر جاری ہوتو الله تعالی محل صدق ۔
میں جگہ عنایت فرمائے گا اور اگر کسی مؤمن کو ہماری وجہ سے ازیت پہنچی ہواور اس وجہ سے روتے ہوے آسوں اس کے رخسارپر جاری ہوے تو خداوندمتعال قیامت کے دن اس کو ہرقسم کی عذاب اور اذیت سے محفوظ رکھے گا اور اپنے غیض و
غضب اور آتش جہنم سے اس کوبچاکر رکھے گا۔
کامل الزیارات ابن قلوویہ تحقیق نشرالفقاهه باب 32. ص. 111،
مقاله جاري ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here