معرفت خط امام خمینیؒ (حصہ چہارم)

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

موضوع ہے معرفت خط امام خمینیؒ ،اس میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ امام خمینیؒ کی نگاہ میں مبارزہ، قیام اور جدوجہد کی حقیقت ،اہداف ،اصول اسلوب اور طریقہ کار کیا ہے؟
مبارزہ کسے کہتے ہیں ؟
مبارزہ ایک عام اور کلی مفہوم ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے، مبارزے کا معنی یہ ہے، قیام کرنا،مقاومت، اُٹھ کھڑا ہونا، ستیزکرنا اور ایک ہدف کو پانے کے لیے تلاش مستمر اور کوشش کو مبارزہ کہتے ہیں ۔ یعنی انسان جب کسی کام کے لیے قیام کرتا ہے ،اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، ستیزکرتا ہے یا کسی مقصدکو پانے کے لیے مسلسل تلاش، جدوجہد اور کوشش کرتا ہے تو یہ مبارزہ کہلاتا ہے۔ اب مبارزہ مادی امور کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور غیر مادی اور معنوی امور کے لیے بھی ہوسکتا ہے یعنی انسان یہ کوشش ،یہ تلاش، یہ مقاومت ،یہ اُٹھ کھڑا ہونا دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کرسکتا ہے اور دینی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کرسکتا ہے ، اگر انسان اپنی ہوا و ہوس اور دنیا اور مقام و منصب کی خاطر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کوشش و تلاش کرتا ہے جس میں خدا نہیں ہے تو یہ مبارزہ ،قیام اور جدوجہد شیطانی ہوگا، شیطانی تلاش ،سعی اور کوشش ہوگی ،یہاں تک کہ یہ اس راستے پر چلتے ہوئے استعمار گر اور مستکبربن سکتا ہے اور استعمار اور استحصال کرنے والی قوت بن سکتا ہے۔
آج دنیا میں جتنی بھی استحصالی، استعماری اور ظلم کرنے والی قوتیں ہیں یہ باقاعدہ بڑی کوشش ،سعی تلاش، مسلسل محنت اور جدوجہد کے ذریعے اس مقام تک پہنچی ہیں لہٰذا شیطان کے راستے میں جو مبارزہ کرتے ہیں وہ بھی کوشش کرتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں ۔ بعض اوقات وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے جیلوں اور زندانوں میں بھی جاتے ہیں ،جلاوطن بھی ہوجاتے ہیں، چونکہ یہ لوگ خواہشات نفسانی، ہواو ہوس اور دنیا پرستی کی خاطر اس راستے پر چلتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مستکبربن جاتے ہیں ، ظالم اور استعمار گر بن جاتے ہیں۔جیسے آج دنیامیں امریکہ، اسرائیل، یورپ اور دیگر استکباری قوتیں ہیں ،یہ بڑی کوشش کے ساتھ اس مقام تک پہنچے ہیں، ایسے ہی نہیں پہنچے، اگر یہ تلاش ، مقاومت، یہ اُٹھ کھڑا ہونا، حق کے لیے ہے،اللہ کے راستے میں اور اللہ کی رضا پانے کے لیے ہے، یعنی انسان اس لیے قیام اور کوشش کرتا ہے کہ خدا کے قریب ہوجائے تو یہ مبارزہ الٰہی اور خدائی مبارزہ ہوتا ہے ۔ لہٰذا قرآن مجید نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔
ارشادِرب العزت ہوتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ(سورہ نساء۔آیت ۷۶)
ایمان لانے والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔
پس جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں مبارزہ اور قتال کرتے ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ، جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کی پوری کوشش طاغوت اور شیطان کے راستے میںہوتی ہے۔
لہٰذا اصل مبارزہ فی نفسہ ہمارے لیے اہمیت اور ارزش نہیں رکھتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ قیام کا معنی ہے اُٹھ کھڑا ہونا، خالی اٹھ کھڑا ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ نیت اور قصد کو دیکھنا ہوگا کہ کس لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہے؟ قیام اور مبارزے میں نیت اہم ہے۔
یہ پولیٹیکل اور سیاسی جدوجہد کیوں کررہے ہیں؟ یہ سیاسی مبارزہ کیوں کررہے ہیں؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اگر نیت اور قصد فقط طاقت کا حصول اور اپنی خواہشات نفسانی کی سیرابی ہے تو یہ شیطان کا کام ہے اور یہ طاغوت بننے کی طرف سفر ہے ،یہ اسی راستے پر چلتے ہوئے طاغوت بننا ہے جس طرح ہمارے حکمران آج طاغوت بنے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی ،نون لیگ اور تحریک انصاف والے یہ اپنے سیاسی مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے کتنی کوشش اور مبارزہ کرتے ہیں ؟اسی لیے کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، یعنی ان کی سیاست کے کوئی اصول نہیں ہوتے ، ان کے اصول یہ ہیں کہ جس طرح سے بھی ممکن ہے پاور اور طاقت حاصل کریں۔
لہٰذا قرآن مجید کی نگاہ میں انسان اگر خدا کے راستے میں او ر خدا کی رضا کی خاطر جدوجہد کرتا ہے تو یہ کام ،یہ عمل قابل ستائش ہے وگرنہ قابل مذمت ہے۔
قرآن مجید میں ایک آیت ہے جسے میں نے پہلے والے درس میں بھی عرض کیا تھا کہ ارشاد ہورہا ہے :
یاََیُّہَا الْاِِنْسَانُ اِِنَّکَ کَادِحٌ اِِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ (سورہ انشقاق۔آیت ۶)
اے انسان تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے پھر اس سے ملنے والاہے۔
یہ سفر رنج اور سختیوں سے بھرا ہوا ہے کَدح عربی زبان میں مسلسل تلاش اور مبارزہ کو کہتے ہیں۔یہ تلاش ،یہ جدوجہد رنج اور سختیوں سے پُر ہے، البتہ اس رنج اور سختی کا نتیجہ لقاء اللہ ہے فملاقیہ۔

امام خمینیؒ کی نگاہ میں مبارزہ کی ماہیت اور حقیقت:
امام خمینیؒ کی نگاہ میں مبارزہ ایک ایسی حقیقت ہے جو پوری تاریخ میں حق و باطل کے درمیان جاری رہا ہے۔ ایک ٹکرائو، ایک تنازعہ، ایک لڑائی جو حق وباطل اور اسی طرح باطل اور حق کے مابین جاری ہے ۔ اس سلسلے میں امام خمینیؒ فرماتے ہیں:
’’از اول کہ بشر در دنیا آمدہ است باب تنازع بین صالح و غیر صالح، پیدا شدہ است‘‘
جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے صالح اور غیر صالح لوگوں کے درمیان لڑائی اور آپس میں تنازعہ شروع ہوا ہے۔ہابیل اور قابیل کے درمیان ٹکرائو جس میں قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا اور شہید کیا، پس مبارزہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ مبارزہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خدائی بھی ہوسکتا ہے اور غیر خدائی بھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ امام خمینی کے نزدیک اس مبارزے کی حقیقت کیا ہے ؟ امام خمینی اس آیت سے استفادہ کرتے ہیں کہ ارشاد ہوتا ہے :
قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی (سورہ سبا۔آیت۴۶)
کہہ دیجئے: میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اُٹھ کھڑے ہو، ایک ایک اور دو دو کرکے۔۔۔
امام خمینیؒ ارشاد فرما تے ہیں کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ،خدا کی بارگاہ میں ہزاروں نصیحتیں ہونگی ،ان ہزاروں نصیحتوں میں سے ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تمہارا قیام اللہ کے لیے ہونا چاہیے ،انفرادی یا اجتماعی طور پر، یعنی آپ کے مبارزے کا درون اور جوہر قیا م اللہ کیلئے ہونا چاہیے ۔ امام خمینیؒ کے نزدیک یہی مبارزے کی ماہیت اور حقیقت ہے ۔ جب قیام اللہ کے لیے ہے تو اس کے اندر کچھ خصوصیات ہونی چاہیے، یعنی آپ کے مبارزے کے اُصو ل اور اہداف دوسرے لوگوں کے مقابلے میں فرق کر جائیں گے، ان لوگوں کے اُصول اور اہداف سے جن کا مبارزہ خدا کے لیے نہیں ہوتا ہے۔ یہاں پر بہت تفصیلی گفتگو ہے ۔ لہٰذا میں اسے آخری درس کے لیے چھوڑ دوں گا اور آج فقط اہداف مبارزہ کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ امام خمینیؒ کے ہاں اہداف مبارزہ، قیام اور مبارزے کی ماہیت ایک دوسرے سے میچ کرتے ہیں۔

امام خمینی کے نزدیک مبارزے کے اہداف:
امام خمینیؒ کے نزدیک مبارزے کا ہدف یعنی اپنی ڈیوٹی اور مسئولیت کو انجام دینا، اپنی ذمہ داری کو انجام دینا، فارسی میں کہتے ہیں تکلیف کو انجام دینا، فرماتے ہیں : ’’ما مکلف بہ وظیفہ ایم نہ مکلف بہ نتیجہ ‘‘ یعنی ہمارا کام اپنی ڈیوٹی اور مسئولیت کو انجام دینا ہے، ہمارا نتیجہ سے تعلق نہیں ہے۔
ہمیں اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہے، ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا، مظلوموں کے حقوق کے لیے قیام اور اللہ کے قوانین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا اور اسلام کو مظلومیت سے نکالنا نیز عالمی استکبار اور شیطانی قوتوں کے مقابلے میں جنگ لڑنا ہے۔ ہمارے مبارزے کا ہدف اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہے ،اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ امریکہ کو شکست ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ الگ چیز ہے جیسا کہ بابابلے شاہ نے کہا:
مالی دا کام پانی لانا بھر بھر مشکاں لاوے
مالک دا کام پھل پھول لانا لاوے یا نا لاوے
مالی کی ذمہ داری یہ ہے کہ درختوں کو پانی دینا اور ان کا خیال رکھنا ہے باقی پھل پھول لگانا مالی کا کام نہیں ہے۔
امام خمینیؒ فرماتے ہیں :
ھمۂ ما مأ موربہ ادائے تکلیف و وظیفہ ایم نہ مامور بہ نتیجہ
فرماتے ہیں کہ ہم سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی تکلیف اور ڈیوٹی کو انجام دیں نتیجہ ہماری ڈیوٹی اور تکلیف نہیں ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
ما بشر ط غلبہ قیام نمی کنیم ما می خواہیم یک تکلیفی را اداء کنیم
یعنی ہم اس شرط کی بنا پر قیام نہیں کرتے کہ ہمیں ہر حال میں غالب آناہے بلکہ ہم اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ اگر غلبہ حاصل ہوا تو الحمدللہ، اگر غلبہ حاصل نہ بھی ہوا تو کم از کم اپنی تکلیف اور ذمہ داری کو انجام دے دیا ہے۔
اس بیان سے آپ کے لیے بہت سی چیزیں واضح ہونا شروع ہوجائیں گی۔ عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس وقت اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے کہ جب ظاہری کامیابی اور غلبہ یقینی ہوگا، گویا ان کے نزدیک اس وقت قیام کرنا ہوگا جب ظاہری غلبہ یقینی ہوجائے لیکن امام خمینیؒ فرماتے ہیں ،ایسا نہیں ہے بلکہ : ما می خوایم یک تکلیفی را انجام بدھیم، یعنی ہمیں اپنی ڈیوٹی انجام دینا ہے۔
ہمیں لوگ کہتے ہیں آپ نے سیاسی جدوجہد شروع کی ہوئی ہے ، اس میں آپ نے کیا حاصل کیا؟ یہ وہی سوچ اور فکر ہے جو کہتی ہے کہ غلبہ کی شرط کے ساتھ قیام کرنا چاہیے، اگر غلبہ اور کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو ہمیں گھروں میں بیٹھنا چاہیے۔ امام خمینیؒ اس نظریہ کے مخالف ہیں۔ امام خمینی اور دوسروں میں بہت فرق ہے۔ انشاء اللہ اس کی تفصیلات آگے آنے والے دروس میں بیان کریں گے ۔
امام خمینیؒ کے مبارزہ کرنے کے اصول:
اب آتے ہیں اُصول مبارزہ کی طرف جو بہت اہم بحث ہے کہ ہم نے مبارزہ کس کے ساتھ کرنا ہے؟ ہمارا مبارزہ ظالم اور استکباری قوتوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اس وقت اقوام عالم کو مظلوم اور محروم کررکھا ہے۔ ان کے عظیم منابع اور ثروت کو لوٹ رہے ہیں۔ افریقہ اور تھرڈ ورلڈ میں جاکر دیکھیں دنیا کے دوسرے ملکوں میں جاکر دیکھ لیں ،انہیں فقر اور افلاس میں مبتلا کررکھا ہے ، ان پر مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اپناتسلط جمایا ہوا ہے ۔ آج اُصول مبارزہ کو پورے کے پورے بیان کروں گا اور اسلوب اور روش مبارزہ آئندہ درس میں بیان کروں گا۔ انشاء اللہ
امام خمینیؒ نے سیاسی ادب کے اندر کچھ نئی اصطلاحات کا اضافہ کیا ہے مثلاً استکبارجہانی، یعنی عالمی استکبار ، مستضفعین عالم، یہ وہ اصطلاحات ہیں جو امام نے سیاسی ادب کو دی ہیں اور امام خمینیؒ نے ان اصطلاحات کو قرآن سے اخذ کیے ہیں، امام کے تمام کے تمام مبارزاتی اُصول اور روش قرآنی ہیں۔
مستکبر اور استکبار کے کیا معانی ہیں؟زمین پر اپنی بڑائی کا اظہار کرنا اور دوسروں کے لیے خود کو بڑا شو کرنا، مغرور و متکبر ، خود کو طاقتور اور دوسروں پر تسلط ظاہر کرنا۔ قرآن مجیدفرماتا ہے:
اِِنْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ ( سورہ غافر،آیت۵۶)
یعنی ان کے سینوں میں کبر، غرور اور تکبر ہے،یہ ہمیشہ احساس بڑائی کرتے ہیں ، جیسے امریکہ ،یورپ، اسرائیل اور عالمی صیہونیزم ہے۔ یہ مستکبر اور مغرور ہیں ،ان کا انداز دیکھیں ،یہ کیسے Behaveکرتے ہیں ؟گویا یہ پوری دنیا کے مالک ہیں۔
قرآن مجید میں لفظ : فاستکبرتم یعنی تم نے استکبار اور گردن کشی کی، اللہ کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔کذبوا بآیاتنا واستکبروا عنہا، انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور اللہ کی آیات سے منہ پھیر لیا ۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں کفار ،منافقین اور مشرکین کے بارے میں لفظ استکبار استعمال کیا گیا ہے۔ کون لوگ غرور اور بڑائی کا اظہار کرتے ہیں؟ منافقین، کافرین اور مشرکین ان تینوں کی رو ش ، استکبار ہے۔ پس قرآن کی اصطلاح میں مستکبر اسے کہتے ہیں جو بڑائی کا اظہار کرتا ہے جو مغرور اور مستکبر ہو اسے مستکبر کہتے ہیں۔

امام خمینیؒ کے نزدیک مبارزہ کس کے ساتھ کرنا ہے؟
امام خمینیؒ کی نظر میںمبارزہ مستکبرین کے ساتھ ،یعنی ان قوتوں کے ساتھ جو اس وقت دنیا میں غرور اور تکبر کا شکار ہیں ،جو اپنے آپ کو اقوام عالم پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ امام خمینیؒ کی نظر میں اس وقت امن اور صلح برقرار ہوگی اور اقوام عالم کے درمیان پائیدار روابط ہونگے جب یہ مستکبرین نہیں رہیںگے۔
اسی سلسلے میں امام خمینیؒ فرماتے ہیں:
سلامت و صلح جہانی وابستہ بہ انقراض مستکبرین است تا این سلطہ طلبان بی فرہنگ در زمین ہستند بہ ارث خود کہ خدای تعالیٰ بہ آنہا عنایت فرمودہ است بہ آن نمی ر سند
کہتے ہیں کہ دنیا میں عالمی سطح پر اس وقت صلح ہوگی اور امن ہوگا جب یہ مستکبرین ختم ہوچکے ہوں۔ جب تک یہ ظالم اور مستکبر زمین پر ہیں اور دنیا میں اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ اس وقت تک مظلومین زمین کے وارث نہیں بن سکتے جس کا خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں زمین کا وارث مظلوموں اور محروموں کو بنائوں گا۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ (سورہ القصص۔آیت۵)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: زمین مستضعفین کی ہے ،کب مستضعفین زمین کے وارث ہونگے اور کب انہیں یہ ارث ملے گا؟ جب یہ عالمی استکباری قوتیں ختم ہوچکی ہوں لہٰذا ہمارا اصل مبارزہ اور ٹکرائو عالمی استکباری قوتوں کے ساتھ ہے تاکہ مظلوم اور محروم اپنی میراث کو پالیں وہ ہے زمین کی وراثت ۔ پس ان مظلوموں ، محروموں اور مستضعفین کو چاہیے کہ ظالم اور مستکبرین کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوجائیں ،ا ن کے خلاف انہیں قیام کرنا ہوگا ۔ اگر مظلوم محروم اور یہ پسا ہوا طبقہ نہیں اُٹھے گا یہ ظالم اسی طرح مسلط رہیں گے لہٰذا ضروری ہے کہ مظلوم استکبارستیز بن جائے اور ظالموں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ لہٰذا امام خمینیؒ اپنے مبارزہ کی Doctrine(ڈاکٹرائن) استکبار ستیزی کو قرار دیتے ہیں یعنی اس دنیا میں ان ظالموں اور طاغوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونا۔
امام خمینیؒ امریکہ کو مستکبرین جہان کا راس(منبع) اور سربراہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ھمۂ بد بختی ما از امریکا است خیال نکیندکہ روابط ما با امریکا و نمی دانیم رابطہ ما با شوروی یک چیزی است کہ برای ما یک صلاحی دارد۔ این مثل رابطہ میش باگرگ است۔ رابطہ میش باگرگ، رابطہ سلامتی برای میش نیست اینھا می خواہند از ما بدوشند، اینھا نمی خواہند بہ ما چیزی بدھند
کہ امریکہ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے جو کہ دنیا میں سب سے بڑا مستکبر بھی ہے، یہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ہمارا مریکہ اور روس سے رابطہ ہو اور استعماری قوتوں سے رابطہ ہو اس میں ہمارا فائدہ ہے۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں اس میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ان روابط کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، ان سے دوستی نہیںکرنی چاہیے، ان کے ساتھ روابط ر کھنا بھیڑئیے کے ساتھ بھیڑ کی دوستی کی مانند ہے۔بھیڑئیے اور بھیڑ کی دوستی کبھی بھیڑ کے فائدہ میں نہیں ہے۔ یہ درندے ہیں ،ان کے خلاف قیام کرنا چاہیے ۔ ان عالمی استکباری قوتوں کے خلاف محروموں، مظلوموں اور مستضعفین کوStand لینا چاہیے۔
لہٰذا امام خمینیؒ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ ہمارا ستکبار کے ساتھ مبارزہ فقط ایران میں نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ہے اور فرماتے ہیں کہ ایران دنیا کے تمام محروموں اور مستضعفین کی پناہ گاہ ہے۔

(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here