امام خمینی کے مبارزے کے ایم اصول

۴۔ تہاجم (یلغار)

امام خمینیؒ کے مبارزے کا چوتھا اصل تہاجم ہے یعنی دفاعی نہیں ہے بلکہ ہجومی ہے ہم نے ان پر ہجوم کرنا ہے ہم نے انہیں چین سے رہنے نہیں دینا ہے ورنہ وہ ہمیں چین سے رہنے نہیں دیں گے۔

۵۔ مستضعفین کی حمایت

امام خمینیؒ کے نزدیک مبارزے کا پانچواں اصل محروم اور مستضعف طبقہ کی حمایت ہے یعنی مظلوموں محروموں اور پسے ہوئے لوگوں کو ساتھ لے کے چلنا ہے۔ سرمایہ دار اور آسائشوں میں مبتلا طبقہ عموماً استکبار کے ساتھ مبارزے میں آپ کا ساتھ نہیں دے گا اگر چند قدم چلے بھی تو رک جائیں گے یہ جو تھر میں مر گئے ہیں جو غریب، نادار بے چارے مظلوم اور مستضعف ہیں امام خمینیؒ کی نظر میں یہ اس مبارزے کی بنیاد ہیں۔ ان کی طرف توجہ دینی ہے ایک جگہ پوری دنیا کے سرمایہ داروں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:

"تم اگر اپنے سارے محل مجھے دے دو تو میں تمہیں ان مستضعف لوگوں کا ایک بال بھی تمہیں نہیں دوں گا”۔

ان کا ایک بال تمہارے تمام محلوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ عام طور پر تحریکیں چلتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ مالدار، کوٹھی والے بنگلے والے بھی آئیں اگر ایسا ہوا تو یہ ظلم کے خلاف لڑنے والی تحریک نہیں ہے یہ بھی ایک دکان اورکھیل ہو گی جیسے پیپلز پارٹی اور نون لیگ ہے اسی طرح یہ بھی ایک لیگ ہو گی اگر ہم اس طرح کا سوچیں تو ہم بھی ایک لیگ بن جائیں گے۔

یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ ہم مظلوموں اور محروموں کے درد کو محسوس نہ کریں بے نوائوں کی آہوں کو محسوس نہ کریں، یتیموں کی فریاد نہ سن لیں۔ شہید چمران کا ایک بڑ ا پیارا جملہ ہے۔ شہید چمران امریکہ میں رہتے تھے ڈاکٹریٹ وہاں سے کیا وہیں پڑھاتا تھا ان کے پاس پیسہ بھی تھا لیکن جب لبنان آیا غربت اور مشکلات کی زندگی شروع کی تو خدا کے ساتھ مناجات میں کہتاہے :

"خدایا تو کتنا قریب ہے ۔میرے رب تو نے مجھے غربت اور فقر کے سرمائے سے نوازا ہے تو کتنا کریم ہے، میرے رب اگر یہ غربت اور فقر نہ ہوتا تو میں کیسے غریبوں، بے نوائوں، ناداروں اور یتیموں کی آہوں اور درد کو محسوس کرتا۔ جب تو نے مجھے یہ سرمایہ دیا تو میں غریبوں، بے نوائوں اور یتیموں کے قریب ہو گیا اور میں انہیں محسوس کرنے لگا ہوں”۔

استکبار کے ساتھ ٹکرانے کے لئے بلال، عمار یاسر اور ابوذر جیسے لوگوں کی ضرورت ہے، یہ آخر تک ساتھ دیتے ہیں پھر سرمایہ دار لوگ ان کے مقابلے میں آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں علی ؑنہیں چاہئے جب انہیں موقع ملتا ہے تو ایک نیا طبقہ وجود میں لاتے ہیں وہ اسلامی انقلابی تحریک کو نگل جاتے ہیں ان کے گھروں میں ہزاروں گھوڑے، اونٹ، حیوانات، سرمایہ اور نہ جانے کیا کیا آتا ہے۔ پس امام خمینیؒ کے مبارزے میں بنیادی لوگ کون ہیں؟ مستضعف اور محروم طبقہ ہے۔فرماتے ہیں :

"ملت عزیز ماکہ مبارزان حقیقی و راستین ارزشہای اسلامی ہستند بہ خوبی دریا فتندکہ مبارزہ بارفاہ طلبی سازگارنیست”۔

فرماتے ہیں ہماری عزیز ملت جو حقیقی مبارز ہیں انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ قیام اور آسائش طلبی آپس میں ناسازگار ہیں یہ آپس میں اکھٹے نہیں ہو سکتے ۔آگے فرماتے ہیں :

"و آنہائیکہ تصور می کند کہ مبارزہ در راہ استقلال و آزادی مستضعفین و محرومان جہان با سرمایہ داری و رفاہ طلبی منافات ندارد، با الف بای مبارزہ بیگانہ اند”۔

اور جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مستضعفین کی آزادی اور استقلال کے راستے میںقیام اور محروموں کے حقوق کی جدوجہد میں اٹھ کھڑے ہونا ،سرمایہ داری اور آسائش طلبی کے ساتھ منافات نہیں رکھتا، انہیں مبارزے اور قیام کا الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے اور جولوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم انہیں نصیحت کر یں گے تو وہ بھی آزادی کے راستے میں مبارزہ کریں گے یہ تصور خام ہے یہ ناممکن ہے ۔

یعنی اگر ہم کوشش کریں کہ سرمایہ دار حلقہ ہمارے ساتھ مل کر استعماری قوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں گے تو یہ فکر اور خیال صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ آپ کے اندر لابی پیدا کریں گے، آپ کے انقلاب کا رخ سرمائے کی طاقت سے موڑ کر رکھ دیں گے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ انقلابی جدوجہد میں ریزش بھی ہوتی ہے یعنی کچھ لوگ چھوڑ دیں گے اور رویش بھی ہوتی ہے یعنی کچھ لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوں گے۔ مثال کے طور پر طلحہ و زبیر وہ کیا چاہتے تھے حکمرانی اور عہدہ چاہتے تھے۔ عہدہ چاہنے والے جلد ہی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ عہدوں کے بھوکے اور عہدوں کے لئے مرنے والے کبھی مبارزے میں ثابت قدم نہیں رہتے۔ جوں ہی مشکلات اور سختیاں آئیں گی آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے بلکہ آپ کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے یہ آپ کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے۔ سلطانی گواہ سے مراد یہ ہے کہ ہمارے پاکستان میں ایک قانون ہے کہ جب تین چار افراد مل کر کسی جرم کا ارتکاب کریں اور ان میں سے ایک گواہی دے کہ میں بھی اس جرم میں شامل ہوں اور ہم نے یہ جرم انجام دیا ہے تو یہ گواہی دینے والا چھوٹ جائے گا اسے کہتے ہیں سلطانی گواہ اور باقی سزا پائیں گے۔ اس مقدس مبارز ے کیلئے کتنی پاکیزگی اور طہارت نفس چاہیے۔ ہماری جماعتوں میں لابیاں بنائی جاتی ہیں یہ دنیا پرستی ہے، ڈھونگ ہے یہ خیانت ہے۔جماعتوں کے اندر سب سے بڑی مشکل لابی گری ہے۔ یہاں مبارزہ ڈھونگ بن جاتا ہے یہ کیسے لڑیں گے یہ تو آپس میں لڑ رہے ہیں یہ محروموں کے حقوق کے لئے کیسے لڑیں گے۔یہ تو عہدوں کے بھوکے ہیں بہت مشکل کام ہے اس میں ایثار اور فداکاری کی ضرورت ہے ۔اما م خمینیؒ فرماتے ہیں:

"بحث مبارزہ و رفاہ و بحث سرمایہ و قیام ،بحث دنیا طلبی و آخرت جوی دو مقولہ ہای ھستند کہ ھرگز باھم جمع نمی شوند و تنہا آنہایی تا آخر خط با ما ھستند کہ طعم محرومیت و استضعاف راچشیدہ باشند فقراء و متدینین بی بضاعت،گردانندگان و برپادارندگان واقعی انقلاب ہستند”۔

فرماتے ہیں کہ قیام آسائش طلبی سرمایہ داری، قیام اور دنیا خواہی و آخرت جوئی دو الگ الگ مفہوم اور مقولے ہیں یہ کبھی بھی آپس میں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آسائش بھی ہو اور قیام بھی ہو۔ دنیا طلبی بھی ہوا ور آخرت طلبی بھی ہو، یہ ہو نہیں سکتا فرماتے ہیں :

"آنہایی تا آخر خط با ما ھستند”۔

وہ افراد آخرتک ہمارے ساتھ ہوں گے جنہوں نے فقرو غربت اور محرومیت کا درد چکھا ہوا ہو، غریب فقراء اور وہ متدین جو بے بضاعت اور نادار ہیں یہ حقیقت میں مبارزے کو آگے بڑھانے والی اصلی قوت اور طاقت ہیں۔ تلاش کرو انہیں اپنے قریب لانے کی، ان کے پاس جاو ان کی جھگیوں میں ہم جائیں ان کے ٹوٹے ہوئے گھروں میں جا کر بیٹھیں ان کے بچوں کے ساتھ بیٹھیں جب یہ ہمارے ساتھ ملیں گے تو پھر عوامی تحریک ظلم کے خلاف اٹھے گی۔ لہٰذا فرماتے ہیں:

"قدرتھا و ابرقدرتھا و نوکران آنہا مطمئن باشند”۔

عالمی قوتیں دنیا کی سپر طاقتیں اور ان کے نوکر اطمینان رکھیں کہ

"اگر یک و تنھا بماند راہ مبارزہ باکفر و ظلم و شرک و بت پرستی را ادامہ می دھد”۔

اگر خمینیؒ اکیلا بھی رہا تو وہ کفر ،ظلم ،شرک اور بت پرستی کے خلاف قیام اور مبارزے کو جاری رکھے گا۔

"و بہ یاری خدا درکنار بسیجیان جہان اسلام، این پا برہنہ ہای مغضوب دیکتا تور ھا، خواب راحت از دیدگان جہان خواران و سرسپردگانی کہ بہ ستم و ظلم خویش اصرار می نمایند سلب خواھد کرد”۔

فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو ڈکٹیٹروں کے مغضوب ہیں اور عالمی سطح پر جہان اسلام میں جو رضا کاروں کی طاقت ہے اس کے ذریعے میں ان ڈکٹیٹروں اور مستکبرین کی آنکھوں سے آرام کی نیند کو چھین لوں گا انہیں چین اور سکون سے رہنے نہیں دیں گے ۔میری اصلی طاقت یہ سوسائٹی اور معاشرے کا کچلا ہوا اور پسا ہوا طبقہ ہے ۔

آپ امام کے ساتھ دینے والوں کو دیکھیں ان میں سے ایک رہبر معظم ہیں ان کی حالات زندگی کا میں نے مطالعہ کیا ہے کہتے ہیں:

"ہم اتنے غریب تھے کہ ہماری والدہ میرے بابا کی قبا جب پرانی ہوتی تھی تو اس سے ہمارے لئے کپڑے بناتی تھیں ہم دو کمروں کے گھر میں رہتے تھے کہ ایک کمرہ نیچے تھا اور ایک اوپر جس میں ہم چھ بہن بھائی رہتے تھے”.

امام خمینیؒ کے ساتھ دینے والے جوانوں کو لے لیں جو بعد میں بڑے بڑے کمانڈر اور سردار بنے ان کی حالات زندگی کا مطالعہ کریں ان میں سے ایک بہت بڑا سردار ہے جس کا نام عالمی استکباری قوتوں کے لئے خوف کی علامت ہے جس نے عراق میں عالمی استکباری قوتوں کو شکست دی جو اسرائیل کو ناک سے چنے چبوا رہا ہے جس نے یمن کے مظلوموں کو طاقتور بنایا اور لبنان میں لبنانی قوم کو مضبوط ترین قوم میں تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا جب انقلاب آیا تو یہ پانی کے محکمہ میں ملازمت کرتا تھا۔ اٹھارہ، انیس سال کا لڑکا تھا شاید انٹرمیڈیٹ بھی نہیں تھا یہ انٹرمیڈیٹ یا میٹرک پاس جوان اس وقت جنرل ہے۔

یہ وہ شخص ہے جو شام میں عالمی استکبار کو شکست دینے کی کمانڈ کررہا ہے ۔جس نے اسرائیل کے اندر حماس اور جہاد اسلامی کو میزائل دے کر انہیں طاقتور بنا دیا۔ اکثر امام خمینی کے ساتھ دینے والے قریبی جوانوں کا تعلق غریب اور محروم طبقہ سے تھا۔ سرمایہ دار نہ ہونے کے برابر تھے۔ ممکن ہے ایک دو ہوں لیکن اکثریت غریب اور متدین طبقہ کے لوگ تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here