مفاہیم

عنوان: اسلام کی آفاقیت

موضوعات:
۱۔ اسلام کی آفاقیت
۲۔ خاتمیت رسالت
۳۔ احکام اسلام (شریعت)
۴۔ وجود حاکم کی ضرورت

خاتمہ رسالت:
خدا وند نے شریعت اسلام کی یہ خصوصیت بخشی کہ یہ تمام شریعتوں کی خاتم ہے ۔ اس کے بعد نہ کوئی شریعت ہو گی اور نہ رسالت ۔ اس خصوصیت کی وجہ سے اس شریعت کو دوامر میں باقی شریعتوں سے امتیاز حاصل ہے ۔
۱۔ یہ کامل ترین شریعت ہے
اس شریعت میں وہ سب کچھ ہے جو انسان کی ضرورت ہے ، اور جس کی اسے اپنی زندگی میں ضرور ت پیش آ سکتی ہے ۔ کیونکہ اس شریعت کو خداوند نے انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات بنا کر بھیجا ہے ۔ اسمیں انسان کے خدا کے ساتھ ارتباط اور اجتماعی تعلقات کے حدود معین کر دیئے گئے ہیں ، اور اس کے لیے اجتماعی تعلقات چاہے خاندان سے ہوں یا سیاست و اقتصاد س سب کے حدود معین کر دیے ہیں ۔خداوند ارشاد فرماتا ہے !
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلام دنیا (مائدہ ۳)
آج میں نے تم پر تمہار دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تمام کر دکی اور اسلام کوتمہارے لیے پسندیدہ دین بنا دیا ۔اور خداوند کا ارشاد ہے !
مازطنا فی الکتاب من شی ء (انعام ۳۸)
ہم نے کتاب میں کسی شی کے بیان میں کوتاہی نہیں کی ۔
کمال دین کا مطلب ہے شریعت تمام ضروریات بشر کا حل رکھتی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ شریعت انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں سے اس کے متعلق ہے ۔
۲۔ یہ دین آفاقی و عالمی ہے
یہ رسالت تمام بشر کے لیے ہے یہ کسی خاص قوم یا جماعت کے لیے نہیں آئی بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہے چاہے ان کاتعلق جس رنگ و نس سے ہو ، ارشاد ہے ’’ ذکری للبشر ‘‘ (انعام ۹۰)
جب رسالت عمومی ہو تو رسول خدا ﷺ بھی سب کے لیے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے ۔ نذیر للبشر (مدثر ۳۶) اور رحمت للعالمین (انبیاء ۱۰۷)
اسی طرح یہ رسالت ابدی ہے اور قیامت تک کے لیے انسانی زندگی کی تنظیم کی صلاحیت رکھتی ہے چاہے انسان جتنی ترقی کر لے اور صنعت و تہذیب و تمدن میں چاہے جتنا آگے بڑھ جائے ان سو مراحل میں شریعت اسلام اس کے ساتھ ساتھ رہے گی ۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا میرے جدرسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو میر ا حلال قیامت تک کے لیے حلال ہے اور میرا حرام قیامت تک کے لیے حرام ہے(وسائل الشیعہ، ج۲۷، ص ۱۶۹) ۔
احکام اسلام:
اسلامی نظام احکام کے ایک مجموعے پر مشتمل ہے مثلا سزائوں کا نظام احکام حدود و تصاص کے ذریعے بیان ہوا ہے ۔دفاعی نظام احکام جہاد کے ذریعے ، اور اقتصادی نظام احکام بیع و اجارہ و غیرہ میں بیان ہوا ہے ۔اس کے علاوہ بھی بہت سے احکام و تشریعات ہیں کہ جنکی تطبیق کی ضرورت ہے تا کہ لوگ ان کے زیر سایہ زندگی گزاریں ۔
الف : اسلامی حکومت کا قیام
سابقہ گفتگو سے معلوم ہوگیاکہ اسلام وہ دین ہے جو خدا وند نے تمام لوگوں کے لیے ھر زمان اور ھر مکان میں تشریع کیا ہے جس کا تعلق اس کی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے ۔لیکن ان احکام کو نافذ کرنے کے لیے قوت و نظام کی ضرورت ہے اور یہ ایک اسلامی حکومت کے ذریعے ممکن ہے جو روح اسلام سے پھوٹے ۔
اس بارے میں امام خمینی ؒ فرماتے ہیں حرف قانون بنا دینا کسی معاشرے کی اصلاح کے لیے کافی نہیں ہے ۔ایک قانون تب بشر کی اصلاح و سعادت کا ضامن بن سکتا ہے کہ اسے نافذ کرنے والی قوت موجود ہو ۔اس وجہ سے خدا وند نے زمین میں قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت اور ان قوانین کے نافذ کرنے والے ادارے کی ضرورت بیان کی ہے ۔اور اسلامی معاشرے میں رسول خدا ؐ ان تمام اداروں کے سربراہ تھے لہذا یہ بات واضح ہے کہ قوانین اور اجتماعی نظام کو نافذ کرنے والی قوت کی ضرورت ہے ۔آیات میں لوگوں کو احکام اسلام کے احیاء کا حکم دیا گیا ہے ۔
ارشاد ہے : الذین ان مکنا ھم فی الارض اقاموالصلوۃ وآتو الزکاۃ و آمروا بالمعروف و نہی عن المنکر ولللہ عاقبتہ الامور (حج ۴۱)
وہ اگر انہیں ہم زمین میں اختیار و قوت دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ۔اور امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے ۔ رسول خدا ﷺ سے روایت میں آیا ہے کہ ساعتہ امام عادل افضل من عبادۃ سبعین سنتہ وحدیقام للہ فی الارض افضل من مطر اربعین صباحاً (وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص ۳۰۸)
امام عادل کی ایک گھڑی ستر سال کی عباد ت سے افضل ہے ۔ اور ایک حد الہی جو زمین میں قائم کی جاتی ہے زمین پر چالیس د ن کی بارش سے افضل ہے ۔
احکام اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو شامل ہیں اور ان میں سے اکثر احکام کی تطبیق ممکن نہیں ہے مگر حکومت کے قیام کے ساتھ اس وجہ سے ہمارے اوپر حکومت کا بپا کرنا لازم ہے ۔
ب: حاکم کا وجود ہونا ضروری ہے
قانون و حکومت کی ضرورت انسان کی بنیادی اور دائمی ضرورت ہے ، یہ ضرورت انسان کی طبیعت کے پیش نظر پیدا ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے ساتھ مل کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔لین دین کرنا پڑتا ہے لیکن انسان میں خواہشات ہیں ۔میلانا ت ہے جیسے حب ذات ، حب مال، حب جاہ اور خواہشات نفسانیہ ہیں ۔اگر وہ ان خواہشات کو کھلا چھوڑ دے ۔یہ اپنے فائدے کے لیے کوشش کرے گا ۔اور دوسرے اپنے فائدے کی کوشش کریں گے ۔اس وجہ سے ان کے درمیان نزاع و چپقلش پیدا ہو جائے گی ۔اس نزاع و چپقلش کو ختم کرنے کے لیے ایک چیز ہو جہاں رجوع کر کے مشکلات حل ہوں اور سب اسے قبول کریں، اس چیز کو قانون کہتے ہیں ، قانون کو اپنی نصوص میں عدالت کا حامل ہونا چاہیے تاکہ ہر صاحب حق کو اس کا حق دیا جا سکے ۔
جب نوع بشر کے لیے قانون کا ہونا ضروری ہے تو حاکم کا وجود بھی ضروری ہو گا ۔تاکہ لوگو ں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے درمیان عدالت کی بپائی کی ضمانت دی جا سکے ۔اس بارے میں بہت سی احادیث و روایات وارد ہوئی ہیں ، نہج البلاغہ میں ہے کہ جب حضرت علی ؑ نے خوارج کے اس قول ’’ لاحکم الا لللہ‘‘ کو سنا تو فرمایا کلمۃ حق بہ ادبہاالباطل یہ کلمہ حق ہے لیکن اس سے ان کی مراد درست نہیں ہے ۔صحیح ہے لا حکم الا لللہ ،حق حاکمیت صرف خدا کو ہے۔ لیکن یہ اس س ے مراد یہ لے رہے رہیں کہ لا امرۃ الا الللہ کہ سوائے خدا کے کوئی امیر نہیں ہو سکتا ۔حلانکہ لوگوں پر امیرہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو فاجرجس کی امامت میں مومن عمل انجام دے سکے اور کافر فائدہ اٹھا سکے ، خدا اس میں ہر شے کو اسکی مدت تک پہچانے اور وہ فیس جمع کرے جس کے ذریعے دشمن سے جنگ کر سکے ، اسکے ذریعے راستے امن رہیں اور ضعیف کا حق قوی سے لیا جا سکے ، تاکہ نیک راحت محسوس کریں اور برے سے جان چھوٹے (نہج البلاغہ )
ٖفصل بن شاذان نے امام رضا علیہ السلام سوال کیا ’’فلِمَ جُعِل اولی الا مر واُمِِر بطاعتہم ‘‘ خدا وند اولو الامر کیوں قرار دئیے اور ان کی اطاعت کا حکم کیو ں دیا ؟ (عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۱۰۷)
تو آپ نے فرمایا جب مخلو ق نے اپنی حدود پہچان لیں اور انہیں حکم دیا گیا کہ ان حدود سے تجاوز نہ کریں کہ اس سے ان کے معاملات میں فساد پیدا ہو اجائے گا ۔ تو یہ کام ممکن نہیں تھا مگر یہ کہ ان پر ایک امین قرار دیاجائے جو انہیں تجاوز سے اور ممنوع حدود میں اہدافداخل ہونے سے روکے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی بھی اپنی لذت و منفعت دوسروں کے منافع کے لیے چھوٹے پر آمادہ نہیں ہو گا ۔
انسان اجتماعی زندگی پر مجبور ہے اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا ، اور لوگوں کے میلانات ، رحجانات اور خواہشات ان کے درمیان لرائی جھگڑے کا باعث بنتے ہیں لہذا اس مشکل کے حل کا واحد ذریعہ قانون ہے ۔ لیکن صرف قانون موجود ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس پر عمل ہونا چاہیے ، اور عمل صرف حکومت کے ذریعے ممکن ہے پس حکومت ایک ضروری چیز ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here