ان امرنا صعب مستصعب لا یحتملہ الا ملک مقرب او نبی مرسل او مومن امتحن اللہ قلبہ بالایمان (حدیث)
معصومین علیہم السلام کے فرمودات اور احادیث قرآن کی تفسیر ہیں۔ معصوم ائمہ ، تمام انبیاء کے وارث ہیں،ان کی زحمتوں اور محنتوں کے وارث ہیں، وہ اس تحریک کے امین ہیںجس نے معاشرے سے ظلم مٹانا ہے اورعدل کو نافذ کرنا ہے۔جس نے معاشرے سے جہالت اور جاہلیت کو ختم کرکے علم کے چراغ جلانے ہیںاور سوسائٹی کو سیولائز (sivilivzed)اور کلچرڈ (cultured)بنانا ہے۔انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام ان تمام فضیلتوں کے وارث ہیں جن کی انسانی معاشرے کو ضرورت ہے جنہیں انہوں نے اپنا خون دیکر زندہ رکھا ہے۔لہذا جب وہ کسی چیز کے بارے میں گفتگو کرتے ہیںتو اس میں ہمارے لئے ہدایت، راہنمائی اور نجات ہوتی ہے۔ مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام کے کلمات میں سے ایک کلمہ یہ ہے:
{من عرف الزمان امن }
جس نے اپنے زمانے کو پہچان لیا اس نے امن پا لیا،وہ سکیور (secure)ہو گیا،وہ انشورڈ (insured)ہوگیا، وہ محفوظ ہو گیا،وہ بچ گیا۔
امام جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے :
{العالم بزمانہ لا تہجم علیہ اللوابس}
جو شخص اپنے زمانے کی معرفت رکھتا ہے، فتنے اس پر ہجوم نہیں لاتے، پے در پے وہ فتنوں کا شکار نہیں ہوتا، وہ فتنوں کے گردوغبار میں حقایق کو دیکھ لیتا ہے، حقیقتیں اس کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ایک حدیث میں مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں:
{اعرف الناس بالزمان من لم یتعجب بالحوادث}
زمانے کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والا انسان وہ ہوتا جو رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر متعجب نہیں ہوتااور حیرت میں نہیں پڑتا۔

زمانے کے حوالے سے معاشرے اور انسانوں کی تین قسمیں ہیں:
1 . کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو وقت سے پیچھے ہوتے ہیں
2 . کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ہوتے ہیں
3 .کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جو وقت سے آگے ہوتے ہیں
جو لوگ وقت سے پیچھے ہوتے ہیں انہیں زمانے کی معرفت نہیں ہوتی، وہ فتنوں سے نہیں بچ سکتے اور کبھی بھی امن نہیں پا سکتے۔ اسی طرح وہ لوگ جو وقت کے ساتھ ہوتے ہیں وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیشہ وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو وقت سے آگے ہوتے ہیں اور وقت کو لیڈ کرتے ہیںاور طوفانوں کو درک کرکے ان کا رخ موڑ ڈالتے ہیں۔ ہم منجی عالم بشریت بقیۃ اللہ الاعظم کو امام زمان اس لئے کہتے ہیںکیونکہ وہ زمانے کی امامت کرتا ہے۔ امام زمان یعنی زمانے کی امامت کرنے والا، یعنی وقت سے آگے رہنے ولا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لیڈ (lead) اور رہبری وہی کرتا ہے جو آگے ہوتا ہے۔
کیسے زمانے کو پہچانا جا سکتا ہے تا کہ ہم حوادث سے بچ سکیں؟ وقت کی شناخت کیسے ممکن ہے؟ وقت کی شناخت کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟کب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس شخص کو اپنے زمانے کی معرفت اور پہچان ہے؟
عناصر ترکیبی زمان شناسی

وقت کی شناخت اور زمانے کی معرفت کے حوالے سے چند چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں:
1 . دشمن کی پہچان
2 . دوست کی پہچان
3 .رہبر کی پہچان
4 .بدلتے ہوئے حالات کی پہچان
5 . وقت کے تقاضوں کی پہچان
6 . ذمہ داری کا تعین

اس مختصر کتاب میں درج ذیل موضوعات پر مختلف ابعاد اور زوایا سے گفتگو کی جائے گی ۔
۱۔ رہبر شناسی
۲۔ دشمن شناسی
۳۔ وقت کے تقاضے اور ذمہ داری کا تعین
٭ دشمن کون ہے؟ دشمن کیوں ہے؟ دشمن کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ دشمن اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کون سے ہتھکنڈے اور طور طریقے استعمال کرتا ہے؟ دشمن کے اسٹرٹیجک پارٹنرز کون ہے؟
٭ ہمارا دوست کون ہے؟ ہمارے اسٹریٹجک پارٹنرز کون ہیں؟ ہم کن کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں؟ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے ساتھی کون ہیں۔ جس کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں ممکن ہے کوئی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے 30% ہمارا دوست ہے کوئی ۴۰ فیصد ، کوئی 50% اور ممکن ہے کوئی 100%ہمارا دوست ہو۔ ان تمام چیزوں کا ہمیں علم ہونا چاہئے۔
٭ جسے اپنے دوستوں کی پہچان نہیں ہے اپنے اسٹریٹجک پارٹنرز کی پہچان نہیں ہے اسے زمانے کی پہچان نہیں ہے۔ ممکن ہے اس نادانی ، حماقت اور جہالت کی وجہ سے جو اسٹریٹجک پارٹنرز ہیں انہیںکے خلاف اسٹینڈ لینا شروع کر دے۔ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں یہ دشمنوں کی دنیا ہے ، یہ دوستوں کی دنیا ہے اس لئے دوست اور دشمن کی شناخت کے ساتھ ساتھ رہبر اور ولی کی شناخت ضروری ہے تا کہ ہم فتنوں کے ہجوم سے محفوظ رہ سکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here