فہم قرآن(4) بسم اللہ کی تفسیر (حصہ دوئم)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

بسم اللہ کی اہمیت اور آثار:
نماز پنجگانہ میں سورہ الحمد کا دس مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔ قرآنِ مجید کی ابتدا سورہ فاتحہ سے ہوئی ہے اور سورہ فاتحہ کی ابتدا بسم اللہ سےہوئی ہے۔ گویا قرآن کی ابتدا بسم اللہ سے ہوئی ہے۔ بسم اللہ ہر سورہ کا جُز ہے۔ ہر سورہ کی پہلی آیت بسم اللہ ہے۔ 114میں سے 113 سورتوں میں بسم اللہ آیا ہے اور بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں۔ ایک سورہ نمل میں حضرتِ سلیمانؑ نے جو نامہ لکھا اُس میں انھوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم خط کا آغاز کیا۔ اس طرح کل 114 مرتبہ قرآنِ مجید میں بسم اللہ نازل ہوئی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر سورہ کےاول میں بسم اللہ لکھا جائے۔ قرآن خود رسول اللہ جمع کروا رہے تھے تو بتلاتے تھے کہ کونسی سی آیت کو کہاں اور کون سی سورۃ کو کہاں لکھا جائے۔ قرآن رسول اللہ کی زندگی میں پورا جمع ہوا تھا۔ آپ کی ذاتِ گرامی خود قرآن مجیدِ کی آیات کو اور جتنی سورتیں نازل ہوتی تھیں اُن کو خود ارشاد فرماتے تھے کہ ان آیات اور سورتوں کو کہاں رکھا جائے۔
خداوند متعال فرماتے ہیں کہ آپ اپنا کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کریں۔ ہر وہ کام جو بغیر بسم اللہ کے شروع کیاجائے وہ ابتر ہے۔ یعنی وہ منزل تک نہیں پہنچتا ہے۔ بسم اللہ درحقیقت ایک طرح کی ہجرت ہے۔ بسم اللہ کے ذریعہ انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت یعنی اپنے نام سےاللہ کے نام کی طرف ہجرت کرتا ہے۔
علامہ طباطبائی اور آیت اللہ جوادی آملی اور دیگر مفسرین نے بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بارے میں لکھا ہے کہ ہر سورہ میں جو بسم اللہ نازل ہوئی ہے وہاں پر جو بسم اللہ کا جو مضمون ہے اُس سورۃ کے مضمون کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ یعنی جس مضمون کو سورہ میں بیان کیا گیا ہے بسم اللہ کا مضمون بھی ویسا ہی ہے۔ اسی سے مربط ہے۔ لہذٰا وہ مضمون جو سورہ الحمد میں ہے وہ فرق کرتا ہے جو سورہ بقرہ میں ہے۔ کیونکہ سورہ بقرہ کے مضامین فرق کرتے ہیں سورہ الحمد سے۔ لہذٰا فرماتے ہیں کہ بسم اللہ کا مضمون اور مفہوم ہر سورہ کے مضمون کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
تیسرا نقطہ یہاں بیان کیا جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں ادب سکھایا ہے کہ ایک اچھا کام کیسے کیا جائے۔ اللہ ہمیں ادب سکھاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ آپ اپنے کام بسم اللہ سے شروع کریں۔ اہلِ تشیع اور اہلِ سُنت نے رسول خدا سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ہر وہ شائستہ عمل، اچھا کام جو بسم اللہ کے ذریعے شروع نہ کیا جائے وہ ابتر ہے۔ یعنی وہ منزل تک نہیں پہنچتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اچھے کام مقصد تک پہنچ جائے تو ہمیں ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنا ہوگا۔
اگر کوئی ہجرت بھی کرتا ہے تو وہ بھی اللہ کے نام سے اور اللہ کے لئے ہونی چاہئے۔ یعنی انسان کا ہر کام اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے۔ دیگر صورت اُس کے اس عمل کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اکثر دنیا میں لوگ کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو اُس میں وہ اپنا نام ظاہر کرتے ہیں کہ فلاں بندے نے یہ کام کیا ہے۔ اپنے نام کو دوسروں تک پہنچایا ہے۔ یہ ابتر ہے۔ یہ اللہ کے لئے نہیں ہے۔ جو اللہ کے لئے نہیں ہے وہ بے مقصد ہے۔ وہ اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔ وہ خدا کے قریب نہیں لے جاسکتا۔ رنگِ خدائی نہیں دے سکتا ہے۔ اور خدا کے رنگ سے خوبصورت رنگ کونسا ہو سکتا ہے۔ رنگِ خدائی کب آتا ہے؟ جب عمل اللہ کی خاطر انجام دیا جائے۔ اُس کے اُوپر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا عنوان لگے۔
بعض اوقات کچھ لوگ بہت ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ابتر ہو رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ہدف تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ اُس کے اندر خدا نہیں ہوتا ہے۔ ذہین ہے اور بڑا تیز بھی ہے لیکن اللہ سے دور ہے۔ اس نے اللہ کی طرف ہجرت نہیں کی ہے۔ لہذٰا ضروری ہے کہ انسان اپنے کاموں کی ابتدا بسم اللہ سے کرے۔ پہلی بات یہ کہ وہ عمل اچھا ہونا چاہئے اور دوسری بات یہ کہ وہ خدا کے لئے ہونا چاہئے۔ پھر وہ ابتر نہیں ہوگا۔ پھر وہ مقصد تک پہنچ جائے گا۔ پھر وہ کمال تک پہنچ جائے گا۔ لہذٰا ضروری ہے۔ ادبِ الہی یہ قرار پایا کہ ہم اپنے کاموں کی ابتدا اللہ کے نام سے کریں اور وہ عمل بھی عملِ خیر ہو۔ یعنی وہ عمل حُسنِ فعلی بھی رکھتا ہو اور حسنِ فاعلی بھی رکھتا ہو۔ وہ فعل بذات خود عمل خیر ہو اور عمل کرنے والے کا ضمیر بھی پاک ہونا چاہئے۔ وہ شخص طہارتِ باطنی کا حامل ہو۔ یعنی خدا کی خاطر اُس کو انجام دے۔ اللہ کے نام پر اُس کو انجام دے۔ لہذٰا ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام کاموں کو اللہ کی رضا کے لئے انجام دیں۔ خدا خود ہمیں نصیحت کر رہے ہیں کہ اپنے اچھے کاموں، تلاوتِ قرآن اور دیگر اچھے اور نیک کام بسم اللہ سے شروع کریں۔
اسی طرح قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں۔ اے خدا میں دنیا داخل میں ہوں تو سچائی کے ساتھ داخل ہوں اور اگر دنیا سے نکلوں تو سچائی کے ساتھ نکل جاوں۔ اگر برزخ میں داخل ہو جاوں تو سچائی کے ساتھ اور نکلوں تو بھی سچائی کے ساتھ نکلوں۔یعنی یہاں دونوں چیزیں موجود ہیں عملِ صالح بھی موجود ہے اور نیتِ صالح بھی موجور ہے اور اللہ کا نام بھی موجود ہے۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو اس کا شمار متقین میں ہو گا۔ متقی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے کاموں کا ٹائٹل بسم اللہ ہوتا ہے۔
پھر خدا اس کے تمام مسائل حل کرتا ہے۔ معاملات خواہ مادی ہوں یا معنوی، اللہ اُس کی مدد کرتا ہے۔ بعض اوقات ایک مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہوتا ہے لیکن اللہ کی مدد سے اچانک حل ہو جاتا ہے جس کا ہم تصور ہی نہیں کر سکتے اور غیبی رزق مل جاتا ہے۔ لہذٰا اللہ نے جو آداب ہمیں سیکھائے ہیں اُسی حساب سے ہمیں اپنے کام کرنے چاہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے بعض اوقات شیطان انسان کی اولاد اور اموال میں شریک ہو جاتا ہے۔ انسان جب اپنا خیال نہ رکھے تو اس کا مال بھی شیطانی ہو جاتا ہے اور اولاد بھی شیطانی ہو جاتی ہے۔ ازدواج بھی ایک عمل خیر ہے۔ اس کا ٹائٹل بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہونا چاہئے۔ کارِ خیر ہو یا عمل صالح ہوا و ہوس اور دنیا کی لالچ میں نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اوقات خیا ل نہ رکھنے کی وجہ سے شیطان اموال اور اولاد میں شریک ہو جاتا ہے اور وہ شیطان زادے ہو جاتے ہیں۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی والاد شیطانی نہ بنے اُس کا مال شیطانی نہ بنے اور دشمن نہ بن جائے تو ضروری ہے کہ ہر کام کرنے سے پہلے اُس کا ٹائٹل اللہ ہو اور بسم اللہ الر رحمٰن الر رحیم سے شروع کرے۔ قرآن میں دشمن شیطان کو کہا گیا ہے۔ لہذٰا تمام اچھے کاموں کا ٹائٹل بسم اللہ ہونا چاہئے تاکہ ہم جو بھی کام انجام دینگے اللہ کے قریب ہو جائیں۔ روایات میں ہے کہ جو شخص شادی کرتا ہے اُس کی ایک رکعت نماز ستر رکعت کے برابر ہو جاتی ہے۔ جس نے شادی کی اُس نے اپنا دین بچالیا۔ شادی وہ ہے جس سے دین کی حفاظت ہو۔ شادی وہ ہے جس سے انسان کی عبادت کے مراتب بلند ہو جائیں۔ یعنی شادی بھی خدائی ہونی چاہئے۔اُس کا ٹائٹل بسم اللہ ہونا چاہئے۔
پورا قرآن بھی کچھ کلی اہداف اور مقاصد رکھتا ہے۔ قرآن نور ہے اور مومنین کے باطن کو نورانی کرنے کے لئے آیا ہے۔ قرآن شفاء اور ہدایت ہے مومنین کے لئے۔ مومن کے باطن کو نورانی کرنا یہ قرآن کا ہدف ہے۔ اور قرآن کو پڑھنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر پڑھنے سے باطن نورانی ہو جاتا ہے تاکہ مجھے ہدایت مل جائے۔ مختلف قسم کی بیماریوں سے مجھے شفاء مل جائے۔ اور انسان کو دیکھنا چاہئے کہ جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اُس کے اندر نور آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کے اندر نور، شفاء آجائے اور اُسے محسوس نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے۔ آیتُ اللہ جواد آملی درسِ قرآن کی تفسیر میں فرما رہے تھے نماز پڑھیں اور دیکھیں کہ نماز آپ کو بُرائی سے روک رہی ہے کہ نہیں۔ اگر روک رہی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے واقع نماز قائم کی ہے۔ اسی طرح انسان دیکھے اگر قرآن پڑھ کر باطن نورانی ہو رہا کہ نہیں اگر نہیں ہو رہا ہے تو سمجھ لیں کہ جیسے قرآن کو پڑھنے کا حکم ہے ویسے وہ نہیں پڑھ رہا ہے۔ جیسا تعلق قرآن کے ساتھ ہونا چاہئے ویسا نہیں ہے۔قرآن نور ہے اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ انسان کا باطن نورانی نہ ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here