فہم قرآن (۱)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

ماہِ رمضان میں ہم سب اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں۔ ماہِ رمضان کو شہرِاللہ کہا گیا ہے؛ یعنی خدا کا مہنہ۔
رسول اللہ ارشاد ہے کہ آپ لوگوں کو اس مہینے میں اللہ کی ضیافت کی طرف دعوت دی گئی ہے یعنی خدا نے ایک ماءدہ اور دسترخوان بچھایا ہے جس میں تمہیں دعوت دی ہے کہ تم آو وہ تمہارا میزبان ہے۔ رمضان انتہائی با برکت مہنہ ہے۔ اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دءے جاتے ہیں۔ گویا یوں کہہ سکتے ہیں کہ خدا اپنے بندے کی بخشش کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ لوگ جنہیں خداوند متعال اُن کے گناہوں کی وجہ سے ٹھکرا دیتا ہے، اُن کی بات نہیں سُنا چاہتا ہے، اُن سے گفتگو نہیں کرنا چاہتا ہے، اُن کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتا ہے لیکن ماہِ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے کہ خداوند متعال اس مہینے میں اُن گناہ گاروں کے لئے بھی بخشش کے دروازے کھول دیتا ہے اور خدا اُن کی بھی بات سُنتا ہے۔ خدا کی رحمت کے دروازے اُن کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور خدا کی رحمت کی چادر اُنہیں اپنی دامن میں لے لیتی ہے۔ لہذٰا ہمیں اس مہینے کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ اس مہینے میں سانس لینا بھی عبادت ہے۔ روایات میں ہے کہ ہر شی کی بہار ہوتی ہے اور قرآن کی بہار ماہِ رمضان ہے۔ یہ قرآن کی بہار کا مہینہ ہے۔
آئیں اہلیبت علیہم السلام کے فرامین کی روشنی میں ہم قرآن کی طرف رجوع کریں۔ معروف حدیث ہے جسے مکتب اہلیبت علیہم السلام میں حدیث ثقلین کہا گیا ہے۔ اللہ کے بنی نے کہا میں تمہارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ جب تم ان دونوں سے متمسک رہو گے تم گمراہ نہیں ہو گے۔ تم گمراہی کی تاریکیوں کی طرف نہیں جاو گے۔ تم محفوظ ہوجاو گے اور یہ قرآن اور اہلیبتؑ ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہونگے جب تک کہ اکھٹے حوضِ کوثر میں میرے پاس وارد نہ ہو جائیں۔
قرآن اور اہلیبتؑ سے تمسک کا میعار کیا ہے؟ کب ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان قرآن اور اہلیبتؑ سے متمسک ہے؟ علماء نے فرمایا ہے کہ اہلیبتؑ سے تمسک کے چند مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ، اہلیبتؑ سے محبت۔ دوسرا مرحلہ، معرفتِ اہلیبتؑ۔ تیسرا مرحلہ، اہلیبتؑ سے ہدایت لینا اور چوتھا مرحلہ، اہلیبتؑ کی اطاعت کرنا ہے۔ جسے اہلیبتؑ سے محبت نہیں، جسے اہلیبتؑ کی معرفت نہیں، جو اہلیبتؑ سے ہدایت نہیں لیتا ہے اور جو اُن کی اطاعت نہیں کرتا ہے وہ اہلیبتؑ سے متمسک نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن سے متمسک ہونے کے حوالے سے بھی علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن سے تمسک کا پہلا مرحلہ، قرآن پاک کی تلاوت کرنا ہے۔ دوسرا مرحلہ، قرآن میں تددبر کر کے قرآن کوسمجھنا، غور و فکر کر کے فہمِ قرآن حاصل کرنا ہے۔ تیسرا مرحلہ قرآن سے ہدایت لینا اور چوتھا مرحلہ قرآن کی اطاعت کرنا ہے۔ تلاوتِ قرآن تمسک کا پہلا قدم ہے۔ احادیث اور روایات کے اندر قرآن کی تلاوت کے حوالے سے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ سورہ مزمل میں خدا نے اپنے حبیب سے خطاب کر کے کہا اور ارشاد فرمایا: قرآن کو ٹہر ٹہر کر پڑھنا۔ اسی سورہ میں خدا نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا ہے: تمہارے لئے جتنا قرآن میسر ہے، جتنا تمہارے لئے آسان ہوتا ہے قرآن کی تلاوت کیا کرو۔ پھر آخر میں ارشاد فرمایا: جتنا تم آسانی سے قرآن کی تلاوت کر سکتے ہو کرو۔ اللہ نے جب اپنے نبی کو بیھجھا تو ارشاد فرمایا: اللہ نے امیین میں اُنہی میں سے رسول کو بیھجا اور نبی کا پہلا کام ان کے درمیان اللہ کے کلام کی تلاوت کرتا ہے۔ اُن کے درمیان کی تلاوت کرتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہےکہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ قرآن کی تلاوت ایسے کرتے ہیں جیسا حق ہے تلاوت کرنے کا۔ لہذٰا قرآن کی طرف رجوع ہونا چاہئے۔
احادیث میں ارشاد ہے کہ جب فتنے تاریک راتوں کی طرح تمہیں گھیرے، اندھیرا ہی اندھیرا چھا جائے اور تمہیں کوئی اچھائی نظرہی نہ آجائے قرآن کی طرف لوٹو اور قرآن کی طرف آجاو۔ قرآن کی پناہ میں آنے کے لئے پہلا قدم تلاوتِ قرآن ہے۔ جو آدمی قرآن کی تلاوت نہیں کرتا ہے وہ قرآن سے متمسک نہیں ہے۔
روایات کے اندر ہے جس گھر میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے اُس گھر سے شیطان چلے جاتے ہیں اور ملائکہ آجاتے ہیں۔ وہ گھر آسمان والوں کے لئے ایسے چمکتا ہے جیسے آسمان کے ستارے زمین والوں کے لئے چمکتے ہیں۔ جس گھر میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی ہے، جو قرآن کی تلاوت سے محروم ہو جاتا ہے اُس گھر میں ملائکہ نہیں آتے بلکہ اُس گھر میں شیاطین آتے ہیں۔ وہ شیاطین کا گھر بن جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن، احادیث اور روایات میں قرآن کی طرف رجوع کرنے کا پہلا قدم تلاوت قرآن کا بتایا گیا ہے۔
روایات اور احادیث میں قرآن کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ رسول پاک کا ارشادِ گرامی ہے کہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے اُس کی زندگی باسعادت ہو اور شہدا کی موت اُسے ملے اور قیامت کے دن اُسے نجات ملے اور جس دن خوف اور ڈر کا دن ہے اُس دن وہ امن میں ہو اور خوف سے محفوظ ہو، جو ظُلمتوں میں نہ جائے اور وادیِ نور میں رہے، جسے سخت سردی والے دن گرمی کا وسیلہ مل جائے اور سخت گرمی والے دن سایبان اور سایہ مل جائے اور جس دن پیاسا ہو سیراب ہو جائے، جس دن انسان کے اعمال سُبک ہو جائے اُس دن اُس کے اعمال کی قدرو قیمت بڑھ جائے اور وہ وزنی ہوں اُسے چاہئے کہ وہ قرآن کی تلاوت کرے۔ اس لئے کہ قرآن، خدا کی یاد دیلاتا ہے اور انسان کو شیطان سے محفوظ رکھتا ہے اور جس دن انسان کے اعمال کو ترازو میں تولا جائے گا اُس دن اُس کے اعمال کو وزنی بنا دے گا۔
رسول پاک ارشاد فرماتے ہیں قرآن کی تلاوت کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان پیمبری کے قریب پہنچ جائے اُس پر وحی تو نہیں آئے گی لیکن قرآن کی تلاوت کے نتیجے میں اگر وہ قاریِ قرآن بن جاتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے تو انبیا کے درجے کے قریب پہنچ جائے گا۔ مولا امیرالمومین علیہ السلام سے روایت ہے کہ اگر آپ یہ چاہتے ہو کہ آپ کے ایمان میں اضافہ ہو، آپ کا ایمان رشد کرے تو قرآن کی تلاوت کیا کرو۔ ایمان کی مضبوطی، ایمان کا رشد اور ایمان میں قوت، قرآن کی تلاوت سے ملتی ہے۔
امام حسن مجتبیٰؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی قرآن کی تلاوت کرتا ہے اُس کی دعا مستجاب ہو جاتی ہے۔ اگر دعاوں کی قبولیت چاہتے ہیں تو قرآن کی تلاوت کیا کریں۔ قرآن کی تلاوت کا ایک اثر یہ ہے کہ دعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ رسول پاک کا ارشاد ہے کہ جن گھروں میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے اُن گھروں میں برکت ہوتی ہے۔ خیر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ گھر نورانی ہو جاتے ہیں۔
چھٹے امامؑ کی حدیث ہے کہ اگر کوئی انسان قرآن کی تلاوت کرے تو خدا قرآن کی تلاوت اُس کے والدین کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتا ہے۔ اُس کے والدین کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی قرآن کو سامنے کھول کر تلاوت کرے اگر خدا نخواستہ کسی کے والدین گناہ گار تھے اور ان پر عذاب ڈھایا جارہا ہو تو اُس کے والدین کو بخش دیا جائے گا اور عذاب کو کم کر دیا جائے گا۔
روایات کے اندر ہے کہ قیامت کے دن جنت کے درجے جتنے بھی ہیں وہ قرآن کی آیات کے مطابق ہیں۔ قاریِ قرآن سے کہا جائے گا تُو قرآن کی آیات کی تلاوت کرتا چلا جا اوربلند ہوتا چلا جا۔ لہذٰا ماہِ رمضان جو قرآن کی بہار کا مہینہ ہے ہمیں چاہئے کہ اس مہینے کے اندر قرآن کی تلاوت کریں۔ قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرنا ختم قرآن کے برابر کا ثواب ہے۔ یعنی اگر کوئی آدمی ماہِ رمضان میں ایک بار قرآن کو ختم کرے تو ایسا ہے جیسے اُس نے چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ مرتبہ قرآن کو ختم کیا ہے۔ انسان تصور نہیں کر سکتا کہ اس مہینے میں کتنی برکتیں خدا نے رکھی ہیں۔ کتنے رحمتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس مہینے میں اگر کوئی انسان خدا کی مغفرت سے محروم رہ جائے روایات میں ہے کہ وہ شکی ہے۔ تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ جو دوسری چیز ہے کہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کرنا اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here