مہدویت

انتظار کا معنی و مفہوم اور منتظرین کی اہم خصوصیات

موضوعات:

۱۔ غیبت امام ؑ کے معنی
۲۔ مفہوم انتظار
۳۔ منفی انتظار سے مراد
۴۔ منتظرین کی آمادگی کے طریقے
۵۔ منتظرین کی صفات

ظہور امام زمانہ ؑ کا انتظار :
۳۲۹ ھجری سے غیبت کبری شروع ہوئی تب سے شیعہ گھڑیاں اور دن گن رہے ہیں کہ کب وہ ظہور مبارک ہو کہ جس میں امام زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ، خدا وند نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے ۔
ولقد کتبنا فی الزبور امن بعد الذکر ان الا رض یر ثہا عبادی الصالحون (انبیاء ۱۰۰)
بے شک ہم نے زبور میں قرآن کے علاوہ لکھ دیا ہے کہ بالا آخر زمین کے وارث میرے صالح بندے بنے گے ۔
شیعہ یہ دعا کرتے ہیںکہ خدا وند انہیں امام ؑ کے لشکر میں سے قرار دے اور ا ن کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شھید ہوں ۔لیکن غیبت کی مدت کتنی ہوگی یہ ہمیں معلوم نہیں ہے اور آئمہؑ نے فرمایا ہے، جو بھی ظہور کا وقت معین کرے اسکی تکذیب کرو ، جیسا کہ امام محمد باقر ؑ سے روایت ہے کہ جب ایک صحابی نے آپ ؑ سے وقت ظہور کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا :’’ کذب الوقاتون کذب الوقاتون کذب الوقاتون ‘‘ حضرت نے تین دفعہ فرمایا کہ وقت معین کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں(اصول کافی، ج۱، ص۳۶۸) ۔
لہٰذا وقت ظہور معلوم نہیں ہے ۔ غیبت طولانی مسئلہ ہے جیساکہ امام صادق ؑ سے روایت میں ہے خدا کی قسم تمہار ا امام یقینا کئی سال غائب رہے گا ۔اور تمہیں آزمایا جائے گا ۔ حتی کہ کہا جائے گا امام ؑ زندہ نہیں ہیں ، دنیا سے چلا گیا ہے اور اس امام ؑ پر مومنین کی آنکھیں گریہ کریں گی (اصول کافی، ج۱، ص۳۳۶)۔
یہ غیبت کا طولانی دور ہے جس میں نسلیں گزر جائیں گی اور مومنین احکام شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور انہیں اس غیبت کے دور میں اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ زمانہ غیبت میں ایک مومن کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟
انتظار فرج :
مومن کی زمانہ غیبت میں ایک ہی ذمہ داری ہے اور وہ انتظار فرج ہے جیسا کہ امام حسن عسکری ؑ نے فرمایا ’’ علیک بالصبر و انتظار الفرج فان النبی ﷺ قال افضل اعمال امی انتظار الفرج ‘‘ (بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۱۵) فرمایا آپ پر لازم ہے کہ صبر کرو اور انتظار فرج کرو کیونکہ رسول خدا ؐ نے فرمایا ہے میری امت کا افضل ترین عمل انتظار فرج ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ انتظار کا کیا مطلب ہے اور اس سے مراد کیا ہے ؟
الف : انتظار کے منفی معنی
عام طور پر انتظار کے یہ معنی مراد لیے جاتے ہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جائے اور کچھ نہ کرے جیسے ایک شخص ڈوب رہا ہو اور وہ ہاتھ پائوں بالکل نہ مارے کسی بچانے والا کا انتظار کرتا رہے ۔صرف اسی امید پر زندہ رہے وہ بچانے والا آکر بچائے گا ، اور وہ خود اپنی نجات کے لیے بالکل کوشش نہ کرے اگر انتظار فرج کے یہی معنی مراد لیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مومنین کا بنیادی وظیفہ یہ ہے کہ وہ زمانہ غیبت میں ظہور امام کی آس و امیدلگا کر بیٹھ جائیں ، اور سیاسی و اجتماعی صورتحال میں تبدیلی کی کوشش نہ کریں ، پس ان کا کردار صرف اس حد تک محدود ہے کہ وہ علامات ظہور کو دیکھتے رہیں تاکہ ان میں امید ظہور کی لو روشن رہے ۔
ب:انتظار کے مثبت معنی
اس سابقہ معنی کے مقابل انتظار کے ایک مثبت معنی بھی ہیں جیسے میدان جنگ میں جنگجو ایک بڑے مدد گار لشکر کی آمد کا انتظار کرتے ہیں وہ جنگ چھوڑ کربیٹھ نہیں جاتے بلکہ مددگار کی انتظار کرتے ہوئے خود لڑتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے انہیں اہم کامیابی بھی حاصل ہو جائے ، جنگ کرتے ہوئے وہ مد د آنے کا انتظار کرتے ہیں اور اپنی جنگ اس نیت سے جاری رکھتے ہیں کہ آنے والے لشکر کے لیے میدان جنگ ؎آمادہ و تیار کر رہے ہیں ۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ جنگ اس مدد گار لشکر کو بلانے میں بہت اہم دخالت رکھتا ہے اور جب وہی اس لشکر کی آمد کی بعض علامتیں دیکھتے ہیں تو اور بڑھ چڑھ کر حملے کرتے ہیں اور اب کے جوش میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ امام غائب کے منتظرین کی یہی حالت ہے ، وہ غیبت میں ایسا کام کرتے ہیں کہ زمین اس ظہور مبارک کے لیے آمادہ و تیا ر ہو سکے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ بعض روایات میں بھی ہوا ہے جیسے وہ روایت ہے جس میں امام ؑ کے دشمنوں سے جنگ کرنے والے علم کی حکایت ہے ۔ ’’ حتی تنزل بیت المقدس توء طی للمھدی سلطان ‘‘ (عصر ظہور، الشیخ علی کورانی، ص۲۰۶)یہ لوگ بیت المقد س میں پڑائو کریں گے اور یہ امام مھدیؑ کی سلطنت کے لیے زمینہ ساز ہوں گے ۔
منتظرین کی تیاری :
منتظر اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو اس عظیم امام کے لائق بنا سکیں ۔ جو تمام انبیاء کے خواب کو تعبیر دے گا ۔ وہ خدا وند سے مسلسل یہ دعا کرتے ہیں ’’ واجعلنی من انصار ‘‘ اور امام کی زیارت جب پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ ونصرت لکم معدۃُُ ‘‘ اور میری مدد آپ کے لے تیار ہے ۔ اس تیار ی کے لیے درج ذیل کام کرنا ضروری ہیں ۔
۱۔ اخلاص بر خدا
تیاری کے امور میں سر فہرست خلوص نیت ہے جو شخص خدا وند کے لیے خلوص نیت نہیں رکھتا وہ منتظر بننے کی لیاقت نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ اخلاص کو انتظار کی بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ امام جواد علیہ السلام کی حدیث ہے کہ ’’ینتظر خروجہ المخلصون ‘‘ اس کے ظہور کے انتظار میں ہیں مخلص لوگ(کمال الدین و تمام النعمۃ) ۔
۲۔ قوت و قدرت
امام صادق ؑ نے بڑے صاف لفظوں میں ارشاد فرمایا کہ ان کا پوتا مھدی منتظر ظہور نہیں کرے گا مگر صاحبان قوت کے ساتھ یہ قوتاگرچہ اسلحہ و جنگ کی مہارت کے ساتھ حاصل ہو جاتی ہے ۔ لیکن اصل چیز دل کی مضبوطی ہے جسکے ساتھ انسان ہر مصیبت و سختی کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو سکتا ہے ۔ اور یہی حقیقت امام ؑکے ساتھ ہمرکابی کا شرف رکھنے والوں کے بارے میں کہی گئی ہے ۔ ’’ ان قلب رجل منہم اشد من زبر ا لحدید لومروا بالجبال الحدید اللہ و برکت لا یکغون سیو فہم حتی یرض اللہ عزوجل‘‘(شرح اخبار، ج۳،ص۵۶۹)ان میں سے ہر مرد کا دل لوہے کے ٹکڑوں سے زیادہ مضبوط و سخت ہے اگر وہ لوہے کے پہاڑ سے گزریں گے تو وہ بھی اپنی جگہ سے اکھڑ جائے گا وہ اپنی تلواریں نیام میں نہیں کریں گے مگر اس وقت جب خدا راضی ہو جائے گا ۔
۳۔ امید شہادت
امام ؑکے منتظر اس عقیدہ حق ک ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ قیامت کا دن آئے گا جس میں وہ کچھ ہو گا جو کسی کان نے سنا نہ ہو گا ۔ کسی آنکھ نے دیکھانہ ہو گا۔اور کسی دل میں اس کا خیال نہیں آکیا ہو گا۔ ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ وہ بھی اس کاروان شھداء میں شامل ہوں جنھیں قیامت کے د ن انتہائی عظیم منزلت حاصل ہوگی جن کے بارے حضرت امیر ؑ نے فرمایا یہ مقام انبیاء کے سواریو ں سے اترنے کا تقاضا کرے گا جب انبیاء ان کے حسن و بہاء کو دیکھیں گے ۔ (تفسیر مجمع البیان، ج۲، ص۴۴۵) منتظر اس خواہش کے ساتھ راہ انتظارپر گامزن ہیں جیسا امام صادق ؑ نے ان کی وصف یوں بیان فرمائی ہے ۔ ’’ یدعون بالشہادۃ و یتمنون ان یقتلوا فی سبیل اللہ‘‘ (بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۸)وہ دائمی شہادت ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ راہ خدا میں قتل ہو جائیں ۔
۴۔ زمانہ غیبت میں ولی امر کی اطاعت کرنا
جو امام ؑ کے سچے منتظر ہیں وہ راہ ولایت پر چلنے والے ہیں اور آج راہ ولایت ولی فقیہ کی صورت میں جلوہ گر ہے جسکی اطاعت کا حکم خود امام زمانہ ؑ نے ہمیں ان لفظوں میں دیا ہے۔’’اما الحوادث الواقعہ نار جعوا فیہا الی رواۃ حدیثنا فانہم حجتی علیکم وانا حجتہ اللہ ‘‘
جو نئے حوادث ہوں گے ان میں ہمارے آقا روایت کرنے والوں کی طرف رجوع کرنا کہ یہ میری طرف سے تمہارے اوپر حجت ہے ۔ اور میں حجت خدا ہوں(وسائل الشیعہ، ج۲۷،ص۱۴۰) ۔اور رسول خداؐ سے بھی حدیث میں آیا ہے’’ طوبی لمن ادرک قائم اھل بیتی وھو مقتدبہ قبل قیامہ یتولی بولیہ و یتبر من عدوہ ‘‘
مبارک ہو اسے جس نے میری اھل بیت کے قائم کو پالیا اس حال میں کہ وہ اسکے ظہور سے پہلے اس کی اقتداء کرنے والا ہو گا اس کے ولی سے دوش رکھے گا اور اس کے دشمن سے برائت کرے گا(بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۳۰) ۔
امام کے ظہور کی تیاری ان چند امور سے ہو سکتی ہے ۔ ۱۔ اخلاص برائے خدا ہو ۲۔ قوت و قدرت کی آمادگی ہو ۳۔ مولا کے ساتھ شہادت کی آرزو ہو ۴۔ ولی امر مسلمین کی زمانہ غیبت میں اطاعت ہو۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here