ظہورِ امام زمانہ اور نہضت جہانی
(حصہ اول)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

احادیث اور روایات میں اپنے زمانے کی شناخت اور پہچان کو بہت اہم قرار دیا ہےکہ انسان اپنے زمانے کو پہچانیں۔ پہچاننے کے لئے ایک چیز کو مختلف زاویہِ نگاہ سے دیکھا جا سکتا تھا۔ جس زمانےمیں ہم رہتے ہیں اس کی شناخت کے لئے زمانے کو مختلف پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زاویے سے زمانے کو دیکھا جائے تو یہ غیبتِ کبریٰ کا زمانہ ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کو غیبتِ کبریٰ میں جا کر گیارہ سوسال سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے۔ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کےغیبت میں جانے سے پہلے گیارہ اماموں کو شہید کر دیا گیا۔ اُن پر اس قدر مظالم اور سختیاں کی گئی کہ 25 اور 28 سال کا امام کو بھی شہید کر دیا گیا۔ بنو عباس پڑھے لکھے لوگ تھے یہ جانتے تھے اور علم رکھتے تھے انہیں پتہ تھا کہ بارہواں امامؑ آئے گا جو اُن کے ظلم کے نظام کو ختم کرے گا۔ جیسے پہلے گیارہ کو شہید کر دیا ہے اسے بھی مار دینا چاہئے۔ حالات اتنے ناساز گار تھے کہ امام علیہ السلام کو کمسنی میں پردہ غیب پر جانا پڑھا۔ ورنہ یہ لوگ امام عالی مقام کو شہید کر دیتے۔ ایک مدت غیبتِ صغری کا ہے اور پھر غیبتِ کبریٰ میں چلےگئے۔ لوگ تیار نہیں تھے۔ حالات سازگار نہیں تھے۔ اس لئے امام علیہ السلام کو پردہِ غیب میں جانا پڑھا۔ پھر ہماری ذمہ داری یہ ٹہری کہ ہم امام علیہ کا انتظار کریں۔ بافضیلت عبادت امامؑ کےظہور میں انتظار کرنا ہے۔ یہ ہمارا فریضہ ٹہرا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حالات کو سازگار اور بہتر بنانے کے لئےکوشش کریں تاکہ امام علیہ السلام ظہور کرے۔ اللہ کے حکم سے ظُلمتوں کو مٹائے اور انصاف قائم کرے۔ لوگ یوں محسوس کریں جیسے خدا خود نظام چلا رہا ہے۔ انسانِ کامل کی حکومت ہو کہ زمین اپنے سارے خزانے اُگل دے۔
ایک طرف ظہور امامؑ کے لئے زمینہ سازی کرنے والی مظلوم قوتیں جدوجہد کرتی رہیں اور شہید ہوتے رہے۔ ہزاروں علماء شہید ہیں۔ تاریخی ہجرتیں اور جلاوطنیاں ہیں۔ اسی طرح ظہور کی مخالف قوتیں بھی اپنی پوری کوشش کرتی رہی ہیں اور یہ ٹکراو جاری رہا۔امام کے حامیوں اور مخالفین میں یہ ٹکراو چلتا رہا ہے۔ جب انقلاب آیا۔ امام خمینی نے فرمایا کہ ہمارا انقلات مقدمہ ہے ظہور امام زمانہؑ کا۔ یہ ظہور امامؑ کی طرف ایک قدم ہے۔ یہ امام زمانہؑ کے ظہور کے لئے زمینہ سازی کا ایک قدم ہے۔ جس طرح اُس زمانےمیں بنو امیہ اور بنو عباس اور دیگر لوگ امام کے دشمن تھے اسی طرح آج بھی دنیا میں ظہور امام زمانہ علیہ السلام کے خلاف بلاک موجود ہیں۔ مہدویت کا اینٹی نظام اس وقت حاکم ہے۔ جو اس وقت لیبرل والڈ آڈر کی شکل میں موجود ہے۔ یہ ضدِ ظہور امام علیہ السلام ہے۔ ان کی پولیٹکل سائنس، ایکنامیکس، سوشیالوجی، انکا مورل اور مورل ویلیوز، تعلیم و تربیت کا نظام ضدِ ظہور امام زمانہ علیہ السلام ہے۔ اور یہ ایک شیطانی نظام ہے۔ امام آئے تھے اس شیطانی نظام کو ختم کرنے اور فرماتے تھے ہم اللہ کے نظام کو حاکم کریں گے۔ جس میں دین اور سیاست اکھٹے ہونگے۔ سیکولریزم نہیں ہوگا اور دنیا کے فاسق سماجی اصول نہیں ہونگے۔ فاسق اقدار نہیں ہونگی۔ تعلیم و تربیت ایسی ہے ہوگی کہ لوگ اللہ کے قریب ہونگے۔ انسانوں کی ہدایت ہوگی۔ گمراہی نہیں ہوگی۔
اس وقت مدِمقابل بلاک جو ضدِ ظہور ہے اُس کو امریکہ لیڈ کر رہا ہے۔ قرآن کہتا ہے صاحبان ایمان کے سب سے بڑے دشمن یہود و نصریٰ ہیں۔ اور معلوم نہیں لوگ کیسے ان یہود نصریٰ سے دوستی کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے اے ایمان والو یہود و نصریٰ کو دوست نہ بناو۔ اُن کو دل نہ دو۔ اُن سے محبت نہ کرو۔ اپنے دل کو یہود و نصریٰ کی بیماری سے بچاو۔ یہ دل کی بیماری خطرناک ہے۔ وہ ایک دوسرے سےمحبت کرتے ہیں اور تم میں سے جو بھی اُن سے محبت کرے گا اُن سے دوستی، محبت، اور دلگی کرئے گا وہ اُن میں سے ہوگا۔ اگر وہ ظالم ہیں یہ بھی ظالم ہو جائے گا بے شک عدل کا پرچم اُٹھائے ہوئے ہو۔ بے شک اللہ اکبر کا نعرہ لگا رہا ہو۔ عبادت اور قرآن کی تلاوت کر رہا ہو۔ یہ بھی اُن ظالموں میں سے ہوگا اور اللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
ان کےدلوں میں بیماری لگ چُکی ہو گی۔ کیسی بیماری؟ یعنی یہودو نصریٰ کی محبت کی بیماری۔ یورپ کی محبت کی بیماری لگ چُکی ہوگی۔ اور یہ تیزی سے اُن کے منصوبوں پر عمل کرنے نکل جائیں گے اور کہیں گے مصلحت ہے، مشکلات اور خطرے ہیں، کہیں مشکل میں پھنس نہ جائیں، لہذٰا ان کے ساتھ لگ جائیں اچھی بات ہے اپنی دل کی بیماری پر یہ پردہ ڈالیں گے۔ امریکہ، اسرائیل ان سے دشمنی کریں گے تو برباد ہو جائیں گے اور ملک بھی تباہ و برباد ہو جائے گا۔ پابندیاں لگ جائیں گی۔ یہ سب اُن کے بہانے ہیں اور درحقیقت یہ لوگ یہود و نصری کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور یہ یہودو نصریٰ امام کے دشمنوں کا بلاک ہے۔ جس کو برطانیہ امریکہ اور اسرائیل لیڈ کر رہے ہیں۔ اور اُس بلاک میں الِ سعود اور تکفریت بھی شامل ہیں۔ دوسرے بلاک میں ہم ہیں۔ جو امام زمانہؑ کے ظہور کا حامی بلاک ہے۔ جس کی قیادت امام خمینی کرتے تھے اور آج رہبر معظم کر رہے ہیں۔ ٹکراو شدید ہے۔
اس وقت ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔ آج گیارہ سو سال بعد ظہور امام علیہ السلام کی حامی قوتوں کے پاس سیاسی طاقت ہے۔ حکومت ہے۔ نظام ہے اور پراپر ایک سسٹم ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ پہلے ہم گلیوں، شہروں، اور صحراوں میں دھکے کھاتے تھے اور مارے جاتے تھے۔ پہاڑوں میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے تھے۔ انقلاب اسلامی نے ظہور امام علیہ السلام کی قوتوں کو ایک عظیم طاقت سے نوازا ہے۔ جو گیارہ سو سالہ تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ عظیم اجتماعی، سیاسی، سماجی ، معاشی، اقتصادی اور عظیم دینی طاقت سے نوازا ہے۔ لیکن اب نظر آتا ہے کہ انقلاب کو روکنے کے لئےکہ یہ آواز دب جائے ہر طرف سے حملے کئے جاتے ہیں اور اقتصادی محاصرے میں رکھا جاتا ہے اور پوری دنیا مل کر حملہ کرتی ہے تا کہ یہ آواز دب جائے۔
ظہور کے لئے حساس مقامات کون سے ہیں؟ مکہ اور مدینہ بہت اہم ہے. وہاں پر قبضہ الِ سعود کا ہے۔ یمن بہت اہم ہے لیکن وہاں بھی الِ سعود کا قبضہ ہے۔ فلسطین بہت اہم ہے اور وہاں پر اسرئیل کا قبضہ ہے۔ عراق اہم ہے کس پر صدام کو مسلط کیا گیا تھا۔ ایران اہم ہے لیکن وہاں شاہ اور امریکہ کے حکمرانوں کا قبضہ تھا۔ ان تمام حساس مقامات پر دشمن قوتوں کا قبضہ تھا۔ امام خمینی نے اس مگرمچھ کے منہ میں ہاتھ اڈال کر اس پاک سر زمین کو چھینا۔ اُس ظالم نظام کو چھینا اور انقلاب لایا۔ 65 ہزار لوگ شہید ہوئے۔ شاید امام خمینی ایک کے جنازے میں بھی نہیں جاسکا۔ بہت سے شہدا کی نمازِ جنازہ بھی نہیں ہوئی۔ امامِ خمینی ترکی یا عراق میں جلاوطن ہوگئے۔ کسی نے بھی امام خمینی سے شکایت نہیں کی۔ کسی نے بھی نہیں کہا کہ کیوں ہمارا نہیں پوچھتے ہیں۔ کیوں ہمارے جوانوں کی ضمانتیں نہیں کرواتے ہیں۔ تمام لوگوں نے عظیم صبر و تحمل کیا۔ ڈتے رہے۔ ہمت نہیں ہاری۔ 65 ہزار شہیدوں کے خون نے شاہ کے ظالمانہ سسٹم کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھنک دیا اور انقلاب لایا۔انقلاب کے بعد پھر سے سختیاں شروع کیں۔ لاکھوں شہید اور بہت سے لوگ زخمی حالت میں اس کا دفاع کرتے رہے۔ عالمی قوتوں کا دباو تھا تاکہ یہ حق کی آواز دب جائے اور ظہور امام زمان علیہ السلام کا پرچم سرنگوں ہو جائے اور یہ طاقت ٹوٹ جائے۔ لیکن اُنھوں نے مقاومت کی۔ اس مقاومت کے ذریعے اس دنیا میں یہ باور پیدا ہونا شروع ہوا کہ امریکہ کھوکھلہ ہے اور کاغذی شیر ہے۔ ان کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ملتوں میں بیداری اور دلوں میں بیداری اور یہ سلسلہ چلتے چلتے آج اس منزل تک پہنچا ہے۔ آج یمن جو کہ امام کے ظہور کے لئے ایک اہم مقام تھا اب ان ظالموں کے ہاتھ سے نکل چُکا ہے۔ آج امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ آج امام زمانہ علیہ السلام کے حامیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس کی قربانی دے رہے ہیں۔ اس کی قیمت دے رہے ہیں۔ کئی سالوں سے وہاں کے بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورت سب قربانیاں دے رہیں ہیں۔ اُن کے سکولوں، ہسپتالوں پر حملہ ہو رہا ہے اور یہ صبر اور تحمل سے ڈٹے ہوئے ہیں اور قیمت دے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران کے انقلاب کے بعد یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ مزید بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یمن کے لوگوں کا پرچم بلند ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here