اخلاق (4)

اخلاقی بیماریاں(2)
موضوعات:

۱۔تکبر و ریا کے مفاہیم کا بیان
۲۔تکبرو ریا کے مظاہر و آثار کا بیان
۳۔تکبرو ریا کے علاج کے طریقوں کا بیان

تکبرو ریاکاری:
یہ دو ایسی صفات بدہیں جو اچھے اخلاق کے منافی ہیں۔

تکبر:
تکبر یہ ہے کہ انسان اپنی کسی صفت یا عمل کی وجہ سے خود پسندی کا شکار ہوجائے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگے ، لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے کہا جسے قرآن کریم نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (لقمان۱۸)
(بیٹا) لوگوں سے (بے پروائی کرتے ہوئے )روگردانی مت کرو اور غرور و تکبر کے ساتھ زمین پر مت چلو بتحقیق خداوند کسی متکبر مغرور کو پسندنہیں فرماتا۔
جیسے نیکیوں اور اطاعت کے لئے کنجی ہوتی ہے اس طرح گناہ و کفر کی بھی کنجی ہوتی ہے جو کہ تکبر ہے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ سب سے پہلے جو گنا ہ واقع ہوا اسکی وجہ یہی تکبر ہی تھا کہ جب ابلیس نے حضرت آدم کے سجدے کے حوالے سے خداوند کے حکم سے انکار کردیا ، ارشاد ہے
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنْ الْكَافِرِينَ (ص ۷۳،۷۴)
سب ملائکہ نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اور وہ کافروں میں سے تھا۔

تکبر کے آثار:
تکبر کے آثار پر بہترین گواہ فرعون کا واقعہ ہے جو بہت بڑے گناہ کی صورت میں ظاہر ہوا ،جیسے
۱۔ربوبیت کا دعویٰ
ارشاد ہے
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ (قصص ۳۸)
فرعون نے کہا اے معززین قوم میں تمہارے لئے اپنے آپ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں جانتا پس اے ہامان میرے لئے مٹی پر آگ روشن کرو( اینٹیں بناؤ)اور ایک بلند برج تیار کرو تاکہ میں موسی کے خدا کو دیکھوں ، میں تو اسے جھوٹوں میں سے سمجھتا ہوں ۔
۲۔لوگوں پر ظلم و ستم کرنا
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا (قصص ۴)
بتحقیق فرعون نے زمین میں تکبر کیا اور اس نے زمین والوں کو فرقوں میں بانٹ دیا ۔
تکبر کا علاج:
اس اخلاقی بیماری کا علاج اس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی ذات کی طرف رجوع کرے تاکہ اسے توجہ حاصل ہو ۔
۱۔وہ کمزور و عاجز مخلوق ہے
وہ اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے ، اگر خداوند اسے کسی مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے یا خود پسندی کا باعث بننے والی صفات کو چھین لینا چاہے تو انسان اسے مانع نہیں ہوسکتا ،
۲۔خدا کی عظمت کو یا د کرے
خدا کی عظمت کو یا د کرے اور اس کے سامنے اپنے آپ کو حقیر بناکر پیش کرے ، حضرت امیرؑ ارشاد فرماتے ہیں ۔
لاینبغی لمن عرف اللہ ان یتعاظم (نہج البلاغہ)
جو خداوندکو پہچانتا ہے اسے تکبر نہیں کرنا چاہئے۔
۳۔لوگوں کے سامنے تواضع کرے
یہ اس مرض کا عملی علاج ہے ، جو شخص اپنے آپ میں تکبر کا احساس کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح زندگی گزارے جیسے وہ گزارتے ہیں اور اپنے آپ کے لئے ان پر کسی قسم کی فضیلت کا قائل نہ ہو،فقراء کے ساتھ اٹھے بیٹھے ، ان پر سلام کرے اور ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھائے ۔
۴۔خدا کے حضور نماز ، دعاء ، مناجات اور اظہار ذلت کرے
یہ چیز انسان کی اس بڑائی کو توڑ دیتی ہے جووہ اپنے اندر تکبر سے محسوس کرتا ہے ،حضرت امیر ؑ ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں
فرض اللہ الایمان تطھیراا من الشرک والصلوۃ تنزیہامن الکبر(نہج البلاغہ)
خداوند نے ایمان شرک سے پاکیزگی کے لئے اور نماز تکبر سے نجات کے لئے فرض کی۔

ریاکاری:
بعض دفعہ انسان نیک کام کرتا ہے ، یا لوگوں کے ساتھ نیکی کرتا ہے یا بعض اچھی صفات سے متصف ہوتا ہے لیکن اسے وہ لوگوں کے اوپر اپنی شہرت کے لئے اظہار کرتاہے، ریاکار کی مصیبت یہ ہے کہ وہ ایک کام یہ ظاہر کرتے ہوئے کرتا ہے کہ یہ خدا کی خاطر ہے اور ثواب کے لئے کررہاہے لیکن حقیقت میں وہ کام لوگوں کی خاطر کرتاہے نہ کہ خدا کے لئے ،لہٰذا اس عمل پر نہ اسے ثواب ملے گا اور نہ جزاء ،اسی لئے رسول خداؐ سے روایت میں آیا ہے۔
ان الملک لیصعد بعمل العبد مبتہجابہ فاذا صعد بحسناتہ یقول اللہ عزوجل اجعلو ہافی سجین انہ لیس ایای ارادبہا(جوہر الکلام ج۴،ص ۹۸)
فرشتہ خوشی کے ساتھ عبد کے عمل کو اوپر لیجاتاہے، جب اسکی نیکیوں کو اوپر لیجاتا ہے توخدا کہتا ہے اسکے عمل کو سجین میں قرار دے دو اس نے یہ عمل میرے لئے انجام نہیں دیا تھا۔
آپ بعض دفعہ کسی کی خدمت کرتے ہیں اور اس کام سے جو آپ کا حقیقی مقصد ہے ممکن ہے اس سے تو چھپالیں اور وہ یہی سمجھے کہ تمہارا مقصد صرف اسکے ساتھ نیکی ہے لیکن خداوند سے آپ اپنے حقیقی مقصد کو نہیں چھپا سکتے کیونکہ وہ فرماتا ہے
يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (غافر ۱۹)
خدا وندآنکھوں کے اشاروں او ر دل کے خاطرات کو جانتاہے ۔
ریاکار کی نشانیاں:
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ریاکار کی چار علامتیں بیان کی ہیں
۱۔اگر تنہا ہو تو سستی کرتا ہے ۲۔لوگوں میں تروتازہ ہو تا ہے
۳۔اگر عمل پر اسکی تعریف کی جائے تو اور زیادہ کرتا ہے
۴۔اگر اسکی تعریف نہ کی جائے تو عمل میں کمی کردیتاہے
ریاکاری کا علاج:
ہر اخلاقی بیماری کی طرح ریاکار ی کا بھی علاج ممکن ہے اور اس کا طریقہ علاج یہ ہے
۱۔عمل کے حقیقی اجرو ثواب کو دیکھے
ریاکار عمل لوگوں کیلئے کرتاہے اور انہی سے ثواب و اجر کی امید رکھتا ہے حالانکہ عمل کی جزا ء خداوندکی طرف سے ہے اور وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے خداوند کے ثواب و اجر سے محروم ہوجاتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
من عمل للناس کان ثوابہ علی الناس ومن عمل للّہ کان ثوابہ علی اللہ وان کل ریاء شرک
جو لوگوں کے لئے عمل کرتا ہے اس کا ثواب لوگوں پر ہے اور خداکے لئے عمل کرتاہے اس کا ثواب خدا پر ہے اور ہر ریاکار ی شرک ہے۔
۲۔خداوند کی حقیقی معرفت
جب انسان خداوند کی حقیقی معرفت رکھتا ہو تو اسے پتہ چل جائے گا کہ اس کے ہر عمل کا اختیار خدا وند کے ہاتھ میں ہے اور وہ جو دوسروں سے اس کے ثواب کے و اجر کی امید یں لگائے بیٹھا ہے وہ مسّبِب حقیقی جس کے اختیار میں سب کچھ ہے اسے چھوڑ کر سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے ہم ہر روز کئی دفعہ ایاک نعبدو ایاک نستعین کہتے ہیں لیکن جب ریاکاری کرتے ہیں تو ہم سورہ الحمد کی ان آیات کی مخالفت کرتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here