اخلاق (6)

زبان کی بیماریاں(2)
موضوعات:

۱۔ غیبت کے معنی کا بیان
۲۔ ان اسباب کا بیان جن کی وجہ انسان غیبت کرتا ہے
۳۔ غیبت کے علاج کے طریقے
۴۔ بدزبانی اور اسکے الفاظ
۵۔ زبان کی بیماریوں کا علاج

غیبت بدزبانی:
زبان کی دیگر بیماریوں کے علاوہ جس بیماری سے بچنے اور دور رہنے کی اسلام نے تاکید فرمائی ہے’’ غیبت اور بدزبانی‘‘ ہے۔
انسان جن گناہو ں میں زبان کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے ان میں سے ایک گناہ غیبت ہے،غیبت یعنی انسان اپنے بھائی کے ایسے عیب کا اظہار کرے جس کے اظہار کو وہ ناپسندکرتا ہو،خداوندارشاد فرماتاہے۔
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ(حجرات۱۲)
تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ۔پس تم اسے نا پسند کرتے ہو۔
اس آیت نے ہمیں غیبت کی حقیقی صورت دکھائی ہے جو کہ مردہ کی صورت میں ہے، جو خو د اپنے آپ سے کسی شے کو دور نہیں کر سکتا، دوسرا انسان آتا ہے اس کا گوشت کھانے کے لئے ،جسکی غیبت کی جاتی ہے وہ اس طرح ہے وہ غائب ہے وہ خود اپنا دفاع کرنے کے لئے موجود نہیں ہے اور آپ اس کے عیب کو لوگو ں پر ظاہر کر رہے ہیں ۔
انسان غیبت میںکا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟
ہر اخلاقی بیماری کے اسباب ہوتے ہیں غیبت بھی اسی طرح ہے ، اس کے اسباب درج ذیل ہیں۔
۱۔مزاح
انسان دوسروں کو ہنسانے کے لئے اپنے کسی بھائی کے بارے باتیں کرتا ہے اور اس کی کوئی ایسی بات ذکر کرے جس سے لوگوں کو ہنسی آئے اس طرح سے اس کی غیبت کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
۲۔فخرو مباہات
انسان تکبر کی وجہ سے کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کی برائی ظاہر کرے تاکہ اپنی اچھائی کا اظہار کر سکے ۔
۳۔دوستوں کا ساتھ دینا
انسان اکثر دوستوں کا ساتھ نبھانے کی خاطر غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے،جب کرنے کی بات نہ ہو تو دوسروں کی غیبت شروع کرلی جاتی ہے، یوں اپنی دوستی کی محفل جاری رکھنے کی خاطر غیبت کو موضوع گفتگو بنا لیتے ہیں۔
غیبت کا کیسے علاج کریں؟
سب سے پہلے اس اخلاقی بیماری کے علاج کا پختہ ارادہ کر لینا چاہیے خصوصاً جب دوست ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد باندھیں کہ غیبت سے دور رہیں گے اور جب کوئی غیبت میں مبتلا ہو تو دوسرا اسے متوجہ کرے اسی طرح انسان کو چاہیےکہ غیبت کی جو حقیقی صورت قرآن نے پیش کی ہے اسے بھی ہمیشہ ذہن میں رکھے اور اپنے آپ کو اس کی جگہ پر رکھے جس کی غیبت کی جارہی ہے کیا وہ اس بات پر راضی ہو گا کہ وہ میت کی طرح ہو جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا اور اس کا بھائی اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھارہاہو۔
۴۔بدزبانی
دیگرگناہوں کے علاوہ زبان کا ایک اور گناہ بدزبانی ، گالم گلوچ اور تہمت بازی ہے، فحش گوئی یعنی وہ برے الفاظ بولنا جو لوگوں کی نظروں میں قبیح شمار ہوں جیسے شرم گاہ کے نام وغیرہ ، گالی دینا یعنی غیر پر کوئی لفظ جیسے حیوانات کے نام بولنا توہین وتحقیر کے قصد سے ۔
اور قذف (بہتان تراشی ) یعنی غیر کو زنا کا ر کہنا یا زنا زادہ و حرام زادہ کہنا ۔
رسول خدا ﷺنے فرمایا:
ان اللہ حرم الجنۃ علی کلّ فحاشٍ بذیئٍ قلیل الحیاء لایبالی ما قال دما قیل فیہ(بحار الانوار ۶۰،ص۲۰۷)
خداوند نے ہر گالی دینے والے ، بدزبان بے حیاو شخص پر جنت حرام کردی ہے جو پروانہیں کرتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا اس کے بارے میں کیا کہا جارہا ہے ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ اسلام سے روایت واردہے کہ جو دوفرد ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں ان میں سے جس نے ابتداء کی ہے وہ زیادہ ظالم ہے ، اس کا اپنا اور دوسرے کا گناہ اس کے اوپر ہے جب تک مظلوم سے معافی نہ مانگ لے۔(اُصول کافی ج۲،ص ۳۲۲)
روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے ساتھ ایک شخص ہوتا تھا آپ جہاں بھی جاتے وہ ساتھ ہوتا ایک دن وہ حضرت کے ساتھ موچیوں کے بازار میں جارہا تھا اور اس کا ایک سند ھی غلام بھی اس کے پیچھے آرہا تھا،اس شخص نے اپنے غلام کو بلانا چاہا تین دفعہ پیچھے دیکھا اور وہ نظر نہ آیا تو چوتھی مرتبہ اسے دیکھ کر کہایابن الفاعلۃ این کنت،اوزانیہ کے بیٹے تم کہاں تھے؟امام صادقؑ نے جب یہ سنا تو اپنا ہا تھ اپنی پیشانی پر مارا اور فرمایا تم نے اس کی ماں پر زنا کی تہمت لگائی حالانکہ میں تمہیں نیک شخص سمجھتا تھا۔لیکن اب پتہ چلاہے کہ تم میں تو کوئی تقویٰ نہیں ہے ، اس نے عرض کیا میری جان آپ پر قربان ہو اس کی ماں غیرمسلم عورت ہے ، تو آپ نے فرمایا کیا :
تمہیں پتہ نہیں کہ ہر قوم میں نکاح ہوتا ہے ، تم اسی وقت مجھ سے دور ہو جاؤ،راوی کہتا ہے پھر اس کے بعد میں نے مرتے دم تک اس شخص کو کبھی حضر ت کے ساتھ نہیں دیکھا اور دوسری روایت میں جملہ یوں ہے کہ ہر قوم کے لئے نکاح ہوتا ہے جسکے ذریعے وہ زنا سے بچتے ہیں۔ (اُصول کافی ج۲،ص ۳۲۲)
زبان کی بیماریوں کا علاج:
جیسا کہ بیان ہو چکا ہے زبان کی آفات بہت زیادہ ہیں ، اسی طرح زبان کے فضائل و محاسن بھی ان اہل ایمان و فضیلت کے ہاں بہت زیادہ ہیں جو زندگی میں راہ رسالت پر گامزن رہتے ہیں اور ایسے اسوہ ہیں کہ لوگ جنکی پیروی کرتے ہیں،اس طرح کہ ان کے منہ سے جو بات بھی نکلتی ہے وہ پاکیزہ ذکر ہوتا ہے ، اپنی باتوں سے وہ فضائل اور اعلیٰ قدروں کے گلاستے پیش کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان بہتر ین تعلقات قائم کرتے ہیں اور اپنے اچھے اخلاق کے ذریعے خداوند کی قربت حاصل کرتے ہیں ،اس واسطے انسان پر لازم ہے کہ ان صفات سے اپنے آپ کو متصف کرے جو زبان کی لغزش سے دور ہیں جیسے ہمیشہ سچ بولنا، اچھی بات کہنا اور بولنے میں اسلامی آداب کی پاسداری کرنا۔
اسلامی آداب اختیار کرنا:
مومن انسان پر ضروری ہے کہ کلام کرنے میں اسلامی آداب کا خاص خیال رکھے تاکہ حرام اور ممنوع چیزوں میں واقع نہ ہوجائے ، اس واسطے کہا گیا ہے کہ بولنے سے پہلے سوچنا بہت ضروری ہے کیونکہ ’’زبان کی لغزش سخت ترین ہلاکت ہے‘‘ (اصول کافی) یہ امیر المومنین ؑ کا فرمان ہے،اور وہ چیزیں جن کا بولتے ہوئے مومن کو خیال رکھنا چاہئے بیہودہ گوئی سے پرہیز ہے ، خدا وند ارشاد فرماتا ہے،
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (مومنون ۳)
جو بیہودہ باتو ں سے پرہیز کرتے ہیں۔
آواز دھیمی رکھنا:
انسان کو چاہیے کہ بولتے ہوئے جھگڑا کرنے، چیخ کر بولنے سے پرہیز کرے کیونکہ چیخ کر بولنا خصوصاً دوسروں سے بحث کرتے ہوئے بولنے والے کی شان وحیثیت کو کم کر دیتاہے اور اس کے وقار و حیاء کے لئے سخت نقصان دہ ہے ، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو وصیت کی قرآن اسے یوں بیان فرماتاہے،
وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ (لقمان ۱۹)
اپنی آواز پر سکون رکھو
قرآن نے آداب گفتگو سمجھاتے ہوئے صرف اس پر بس نہیں کی بلکہ کسی سے بحث کا طریقہ بھی بتلا یا ہے، وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ،(نحل ۱۲۵)
اور ’’ هِيَ أَحْسَنُ‘‘ کے معانی میں فرمایا گیا ہے کہ بولتے ہوئے آواز آہستہ و پرسکون ہو کہ اس سے خود اعتمادی و سوچنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
مزاح کم کرنا:
دوستوں کے درمیان مزاح کرنا چونکہ خوشی و سرور کا باعث ہے بری چیز نہیںہے لیکن مزاح کی زیادتی برے اثرات رکھتی ہے ، اسی وجہ سے حضرت امیر ؑ نے ارشاد فرمایا
مزاح کی زیادتی انسان کے چہرے کی رونق اڑادیتی ہے اور ایمان کو تباہ کر دیتی ہے۔(کافی ج۲،۶۶۴)
اور بالاخر جب انسان جانتا ہے کہ قیامت کے دن حساب بہت باریک بینی سے ہو گا ایک ذرہ برابر قول یا فعل کا بھی حساب ہو گا اور خداوند کی طرف سے لکھنے والے اس کے تمام سانسوں ،حرکا ت وسکنات کو لکھ رہے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے،
مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق۱۸)
وہ کچھ نہیں بولتا مگر یہ کہ اس کے پاس تیار لکھنے والے نگہبان ہیں ۔
تو ایسی صورت میں انسان پر ضروری ہے کہ اپنے کلام میں جو کمی و نقص ہے اسے دور کر ے، جیسا کہ خداوند کا حکم ہے،
فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا (نساء۹)
خدا سے ڈریں اور درست بات کہیں ۔

زبا ن کے گناہوں کے برے ا ثرات
جھوٹ نفاق کا و سبب ہے۔ کیو نکہ سچائی یعنی زبان کا دل کے موافق ہونا، جبکہ جھوٹ یعنی زبان کادل کے موفق نہ ہونا، اور نفا ق کا بھی مطلب یہی ہے کہ ظاہر و باطن میں اختلاف ہو ، سورہ توبہ کی آیت۷۷ میں ہمارے لئے اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔
فاعقبھم نفاقاً فی قلوبھم الی یوم یلقو نہ بما اخلفوااللہ ما وعدوہ وبماکا نوایکذبون۔
ان کے دلوں میں قیامت تک کے لئے نفاق چھوڑ دیا، ان کی اس وعدہ خلافی نے جو انہو ں نے خدا سے وعدہ کیا اور جو وہ جھو ٹ بولتے ہیں ۔
جھوٹ اور ایمان میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہے ،اس آیت کے علاوہ بہت سی روایات میں اس حقیقت کو ہمارے لئے بیان کیا گیا ہے، روایت میں آیا ہے کہ رسول خداؐ سے سوال کیا گیا کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟فرمایا ہاں ہو سکتا ہے، پھر سوال ہوا کیا مومن بخیل ہو سکتاہے ؟ فرمائےہاں ہو سکتا ہے، پھر سوال کیا گیا کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟فرمایا نہ یہ نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ جھوٹ نفا ق کی علامت ہے اور نفا ق ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا ۔
جھوٹ اطمینا ن کو ختم کر دیتا ہے۔ لوگوں کے درمیا ن ایک دوسرے پر اعتماد و بھروسہ اہم ترین رابطہ ہے اور جھوٹ وہ چیز ہے وہ اس رابطہ کو توڑنے میں بہت موثر ہے کیونکہ جھوٹ کے نتیجہ میں خیا نت و دھوکہ دہی پیدا ہوتی ہے اسی وجہ سے اسلام سچائی اور جھوٹ نہ بولنے پر بہت زور دیتا ہے ، احادیث مبارکہ میں ہمیں یہ حقیقت بہت صاف و واضح نظر آتی ہے کہ آئمہ علیہم السلام نے کچھ خاص لوگوں سے اٹھنے بیٹھنے سے منع فر مایا ہے ۔ ان میں سے جھوٹے لوگ ہیں کیونکہ وہ قا بل بھروسہ نہیں ہوتے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here