اخلاق(2)
مراقبہ نفس

موضوعات:
۱۔مراقبہ کی حقیقت اور اس سے مقصد کا بیان
۲۔الٰہی مراقبہ کے انجام کی کیفیت کا بیان
۳۔ان طریقوں کی معرفت جو ہماری الٰہی نگہبانی کے احساس کی تقویت کرتے ہیں
۴۔مراقبہ (محاسبہ ) نہ کرنے کے نقصانات کا بیان
۵۔توبہ میں جلد ی کی ضرورت کا تذکرہ ۔

خدا کی رضاء خوشنودی :

انسان اس دنیا میں انتہا ئی جو چیز طلب کرتاہے وہ رضائے خدا ہے،خدا انسان کا خالق ہے اور اس کے قبضۂ قدرت میں انسان کے سارے امور ہیں، اسی کی رضاء میں کامیابی و نجات ہے اور اس کے غیظ و غضب میں ہلاکت و خسارہ ہے ۔خدا وندکی رضاء حاصل نہیں ہوتی مگر اسکی اطاعت کرنے سے ہر ا س چیز میں جس کا اس نے حکم دیا ہے یا اس سے اس نے روکا ہے۔
انسان کا نفس اسے خدا کے حکم کی مخالفت پر اکساتا رہتاہے ، اب انسان دو راستوں کے درمیان ہو جاتا ہے یا خدا کی اطاعت کرے یا خواہشات نفسانی کی پیروی کرے ،یہاں انسان کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے ۔
اس لیے حضر ت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ،
یا بنیی من یُرد رضوان اللہ یسخط نفسہ کثیراً ومن لایسخط نفسہ لایرضی ربہ( بحارج،۱۳،ص۴۳۲)
اے میرے بیٹے جو خداوند کی رضاء چاہتاہے اسے اپنے نفس کو زیادہ تر ناراض کرنا ہوگا اور جو نفس کو ناراض نہیں کر سکتا وہ اپنے رب کو راضی نہیں کرسکتا۔

الٰہی نگہبانی پیدا کرنا :

کسی قانون کی پاسداری تب ممکن ہے کہ اس پر نگہبانی کا مؤثر نظام بنایا جائے جیسا کہ حکومتیں اور ادارے اپنے قوانین کی مخالفت کرنے والوں کے لئے سخت سزائیں مقرر کرتے ہیںلیکن انسان بعض دفعہ حکومتی نگہبانی سے بچ نکلتا ہے، لیکن انسان نے کبھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ خدا کی نافرمانی کرکے کیا اس کے لئے اسکے نگہبانی کےنظام سے بچ نکلنا ممکن ہے؟بلاشک ایسا ممکن نہیں ہے ، خدا ارشاد فرماتا ہے
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (لقمان ۱۶)
(لقمان نے کہا) اے بیٹے اگر تمہارا گناہ ایک رائی کے دانے کے برابر ہو جو کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین کے کسی حصے پر ہو خداوند اسے لاحاضر کرے گاوہ لطیف و خبیر ہے۔
لہٰذا خدا وند کی نگہبانی سے بچ نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیںہے۔

ایک مفید واقعہ:

ایک استاد اپنے ایک شاگرد کو دوسروں پر زیادہ اہمیت دیتے تھے، یہ بات شاگردوں کو ناگوار گزرتی ، استاد نے ان پر اس کی وضاحت کرنا چاہی تو ہر ایک کو ایک پرندہ دیا اور کہا جاؤ اسے وہاں جاکر ذبح کرو جہاں دیکھنے والا کوئی نہ ہو، بس شاگرد اپنے اپنے پرندے ذبح کرلائے لیکن وہ شاگر دپرندے کو زندہ واپس لے آیا ،استاد نے پوچھا تم نے اپنا پرندہ کیوں ذبح نہیں کیا ؟ تو شاگرد نے کہا آپ نے فرمایا تھا کسی ایسی جگہ ذبح کروں جہاں کو ئی دیکھنے والا نہ ہو، مجھے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں وہ واحد قہار ، أحد صمد خدا وند عظیم نہ ہو،استاد نے اسے شاباش دی اور پھر دوسرے شاگردوں سے کہا یہ وجہ ہے کہ جس کی خاطر میں اسے تم پر زیادہ اہمیت دیتاہوں۔

اس الٰہی نگہبانی کے بارے اپنے احساس کی کیسے تقویت کریں؟

اپنے نفوس کی مراقبت اور بالآ خر خدا وند کے محضر میں حضور کے مرحلہ کو پانے کے لئے اور اپنے نفوس و اعمال سے غفلت سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفوس کو مسلسل ریاضت کروائیں اور اس کے لئے ہر روز مراقبت و نگہبانی کا نظام بنائیں ، صبح سے شام تک اور رات کے دوران انسان اپنے دن میں انجام پانے والے کاموں کا محاسبہ کرے، اگر تو یہ دیکھے کہ اس نے اپنے افعال میں خدا کے واجبات پر عمل کیا اور اسکے محرمات سے اجتناب کیا تو اس پر خدا کی حمدو ثنا ء کرے اور اس پر باقی رہنے کی اس سے توفیق طلب کرے ،اور اگر اس پر نفس امارہ نے غلبہ کر لیا ہو تو اسکی سخت سرزنش کرے اور بارگاہ خداوند میں استغفار کرے، خداوند کی اطاعت کا عہد کرے اور رحمت خداسے مایوس نہ ہو ، بلاشک خداوند اس پر اپنے امر کے ساتھ نظر فرمائے گا اور اسے اپنی رضاء حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گاوہ ارشاد فرماتا ہے،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ(حشر ۱۸)
اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو اور نفس کو دیکھنا چاہیے کہ کل آئندہ کے لئے اس نے کیا آگے بھیجا ہے۔
انسان کے اوپر خداوند کے مقرر کردہ گواہ:
جب کسی شخص کو جرم کے ارتکاب کرنے پر کسی عدالت میںپیش کیا جاتاہے تاکہ اس کے خلاف فیصلہ ہو تو سب سے پہلے قاضی اسکے جرم پر گواہ طلب کرتاہے ، اگر گواہ موجود نہ ہو ں تو ملزم دلیل نہ ہو نے کی وجہ سے سزا سے بچ جائے گا۔
لیکن خداوند کی نگہبانی کے نظام کا معاملہ مختلف ہے انسانی اگر مجرم ہے تو پھر اخروی عذاب سے بچ نہیں سکتا اس بہانے کے ساتھ کہ گواہ نہیں ہیں، کیونکہ خدا وند انسان کے اعمال پر شاہد اور نگہبان ہے اور اس کے علاوہ خداوند نے اس پر نگہبانی کے لئے بہت گواہ سے بھی مقرر کر رکھے ہیں وہ اس کے ہر اچھے برے فعل کو لکھ لیتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے۔
مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق ۱۸)
انسان کچھ نہیں بولتا مگر یہ کہ اس پر تیار نگہبان موجود ہوتے ہیں ۔
نیزارشاد فرمایا:
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (زلزلہ ۷،۸)
جو ذرہ برابر اچھائی کریگا اس کو پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کریگا وہ اسے بھگتے گا،خداوند انسان کے خیالا ت پر بھی اطلاع رکھتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد ہے
وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق ۱۶)
ہم وہ بھی جانتے ہیں جو وسوسے اس کے دل میں ہیں اور ہم اس کے اسکی رگ ِ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔

خداوند کا عذاب:

جس نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے کیا اس کے لئے عذاب الہٰی سے بچنا ممکن ہے؟کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں انسان عذاب الٰہی سے بچ سکے ؟
آیات میں تاکید کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے ،ارشاد ہے
كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا وَجَاء رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (فجر ۲۱ تا ۲۶)
ہرگز نہیں! جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کی جائے گی، اور آپ کے پروردگار (کا حکم) اور فرشتے صف در صف حاضر ہوں گے اور جس دن جہنم حاضر کی جائے گی، اس دن انسان متوجہ ہو گا، لیکن اب متوجہ ہونے کا کیا فائدہ ہو گا؟ کہے گا: کاش! میں نے اپنی اس زندگی کے لیے آگے کچھ بھیجا ہوتا ، پس اس دن اللہ کے عذاب کی طرح عذاب دینے والا کوئی نہ ہو گا اور اللہ کی طرح جکڑنے والا کوئی نہ ہو گا ۔
یہ الٰہی عذاب اس کے گناہوں کا نتیجہ ہے، اس عذاب سے نہیں بچ سکیں گے مگر وہ افراد جو نفوس مطمئنہ رکھتے ہونگے جن کے ساتھ خداوند نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (فجر ۲۷ تا ۳۰)
اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔

توبہ کا دروازہ:

خداوند انسان کو اس دنیا میںمہلت دیتاہے لیکن اسے مہمل نہیں چھوڑتا، خداوند اسے فرصت پہ فرصت دیتا ہے اور اس پر اپنی طرف واپسی کا دروازہ کھولتا ہے اور اسے پکارتاہے کہ میرے بندے میری رحمت و معرفت سے مایوس مت ہو ، کیونکہ خداوندنے انسان کے اند ر گناہوں کو چھوڑنے کی قدرت رکھی ہے چاہے گناہ کتنے بڑے ہوں اور اس کے نفس میں جڑ پکڑ چکے ہوں ، خداوند ارشاد فرماتا ہے ،
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (زمر ۵۳)
کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنے آپ پر زیادتی کی، رحمت خدا سے مایوس مت ہو، بتحقیق خدا وند تمام گناہوں کو معاف کردیتاہے بتحقیق وہی غفورورحیم ہے۔
لیکن وہ چیزجس سے بچنا چاہیے توبہ میں دیر کرنا اور اطاعت خدا میں داخل ہونے سے دیر ہے، اکثر لوگ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ ابھی دیر تک زندہ رہیں گے بعد میں تو بہ کرلیں گے،جیسا کہ اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ بڑھاپے میں پہنچ کر اپنے جوانی کے گناہوں کی اصلاح کرے،لیکن اسے کیا پتہ کہ وہ زندہ رہے گا اور بڑھاپے کی عمر کو پہنچے گا،کیا توبہ میں دیر کرنے والا یہ ضمانت دے سکتاہے کہ وہ کل تک زندہ رہے گا،
فتدارک مابقی من عمرک ولا تقل غداً وبعد غد فانماہلک من کان من قبلک باقامتھم علی الامانی والتسویف حتی اتاھم امراللّٰہ بغتۃ وھم غافلون(کافی ج۲،ص ۱۳۶)
جو تمہاری عمر باقی ہے اس میں سابقہ اعمال کا ازالہ کرو اور کل کروں گا یا پرسوں یہ مت کہو، کتنے تم سے پہلے ایسی دیر کرتے ہوئے مر گئے اور موت نے انہیں اچانک آلیا جبکہ وہ غافل تھے۔

امام حسین ؑ اور ایک جوان کا واقعہ:

ایک نوجوان بہت گناہ گار تھا ہر بار توبہ کرنا چاہتا لیکن نفس اس پر غلبہ کرلیتا اور وہ توبہ نہ کرپاتا،وہ سخت مریض ہو گیا ،طبیب کو تلاش کیا گیا کہ کون اسکے مرض کا علاج کرسکتاہے ، اسکی بیماری کا علاج امام حسین علیہ السلام کے پاس تھا،وہ جوان حضرت کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عرض کیا یا بن رسول اللہ میں نے اپنے نفس پر بہت زیادہ روی کی ہے آپ مجھے اس چیز کی طرف رہنمائی فرمائیںجو مجھے روک سکے یابچا سکے،امامؑ نے فرمایا اگر تم مجھ سے پانچ چیزیں قبول کرکے ان پر غلبہ پالو تو کوئی گناہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا ، اس شخص نے کہا پھر میں بچ گیا،مولاؑ نے فرمایا اگر تم خدا کی نافرمانی کرنا چاہتے ہو تو پھر اس کا رزق مت کھاؤ ، اس نے عرض کیا تو پھر میں کہاں سے کھاؤں زمین پر جو کچھ ہے اس کا رزق ہے ،تو مولاؑ نے فرمایا تو پھر کیا یہ مناسب ہے کہ تم اس کا رزق کھا کر اسکی نافرمانی کرو، اس نے کہا درست ہے، دوسری ارشاد فرمائیں ، ہوسکتاہے مجھے چھٹکارا مل جائے اور میری مشکل حل ہو جائے ،مولاؑ نے فرمایا جب گناہ کرنا چاہو تو خدا کے شہروں میں نہ رہو،اس نے عرض کیا مولا یہ تو اور مشکل ہے پھر میںکہا ںہوں مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب خدا کی ملک ہیں ، تو آپ نے فرمایا یہ کیا تمہیں زیب دیتا ہے کہ اس کا رزق کھاؤ،اس کے شہروں میں رہو اور پھر اسکی نافرمانی کرو،اس مرد نے کہا لاحول ولا قوۃ الاباللہ تیسری چیز ارشاد فرمائیں ، ہوسکتاہے یہ پہلی دو سے آسان ہو ، تو آپ نے فرمایا جب تم گناہ کرنا چاہو تو ایسی جگہ تلاش کرو جہاں وہ نہ دیکھے وہاں جا کر جو مرضی ہے وہ کرو،اس شخص نے کہا آپ کیا کہتے ہیں خدا پر تو کچھ بھی مخفی نہیں ہے ،مولا نے کہا تم اس کا رزق کھاتے ہو،اس کے شہروں میں رہتے ہو اور تم ہر وقت اس کے حضور میں ہو پھر کیسے اسکی نافرمانی کرتے ہو،اس مرد نے کہا آپ چوتھی چیز ارشاد فرمائیں خدا ہی کی طرف شکایت کی جاسکتی ہے ،مولا نے فرمایا جب ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے آئے تو اسے کہہ دینا ابھی میری روح مت قبض کرو مجھے توبہ کرنے دو،اس مرد نے کہا وہ مجھ سے ایسی با ت قبول نہیں کرے گا ،مولانے فرمایا اسے مجبور کرنا، اس شخص نے کہا ایسا نہیںہوسکتا میں اس کے مقابل کسی چیز کا اختیا ر نہیں رکھتا ، تو مولا نے فرمایا جب تم ملک الموت کو اپنے سے دور کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تو فرصت کے ختم ہونے سے پہلے توبہ کرلو، اس نے کہا مولا پانچویں چیز ابھی رہتی ہے وہ فرمائیں ،تو آپ نے فرمایا قیامت کے دن جب جہنم کے نگہبان فرشتے تمہیں جہنم لیجانے کے لئے آئیں تو ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دینا ، اس شخص نے کہا حسبی حسبی مجھے کافی ہے میںاپنے گناہوں سے ابھی توبہ کرتا ہوں اور پھر کبھی اس کا ارتکاب نہیں کروں گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here