درس اخلاق، لعلکم تتقون(2)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

فلسفہ روزہ:
خدا نے قرآن مجید میں روزےکا فلسفہ بیان کیا ہے کہ روزے کس لئے فرض کئے گئے؟ ان روزوں کا کیا مقصد ہے؟ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہزگار بن جاو۔ پس اللہ نے ہم پر روزے اس لئے فرض کئے ہیں کہ ہم باتقویٰ ہو جائیں۔متقی بن جائیں۔
کرامت انسانی کا معیار:
قرآن مجید نے انسان کی تمام فضیلتیں اور خصوصیات کو تقویٰ کے معیار میں بیا ن کیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی رستگاری کا تعلق تقویٰ کے ساتھ ہے۔ انسان کا مرتبہ اللہ کے سامنے بلند ہو جائے تو وہی لوگ کریم اور صاحبِ شرف بنتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ تم میں سے خدا کی بارگاہ میں بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ کے لحاظ سے بڑا ہو۔
دنیا میں اور عام معاشرے میں بڑا آدمی اُسے سمجھا جاتا ہے جو مال و دولت اور بڑا منصب رکھتا ہو۔ جسکی جائداد زیادہ ہوگی وہ دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں بڑا آدمی ہے۔ لیکن خد ا کی نگاہ میں ایسے لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بڑا آدمی وہی ہے جو تقویٰ کے لحاظ سے بڑا ہو۔ جتنا تقویٰ بڑھتا جائے گا اُسی حساب سے اُس آدمی کا مرتبہ بھی اللہ کے سامنے بڑھتا چلا جائے گا۔ مولا علیؑ سے روایت ہے جو اپنے رب کی پرواہ کرے اور پرہیزگار ہو وہ کریم بن جائے گا۔
متقین کی صفات:
تقویٰ کے ذریعے دنیا میں انسان کو شرافت ملتی ہے۔ دنیا میں اُسے خدا بڑائی دے دیتا ہے اور صاحبِ شرف بنا دیتا ہے اور آخرت میں بھی اُسے بڑا مقام دے دیتا ہے۔ خدا کی نگاہ میں بڑا ہوتا ہے اور خدا کے قریت ہوتا ہے۔
حضرت نوحؑ کا واقعہ اللہ تعالی ٰ بیان کرتے ہوئے اپنے حبیب سے کہتا ہےکہ ہم نے نوحؑ سے کہا کشتی روک لو اور تم سب سلامتی کے ساتھ اُتر جاو۔ ہماری طرف سے دنیا میں تیرے لئے برکتیں ہی برکتیں ہیں ۔اے حبیب تُو صبر کر جس طرح نوحؑ اپنے ساتھ متقین کو لیکر گئے تھے اور آخرکار وہ دنیا سے رستگار ہو گئے اور دنیا میں کامیاب ہو گئے۔
ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں قیامت کا گھر اُن لوگوں کے لئے میں نے قرار دیا ہے جو زمین پر اپنی بڑائی نہیں مانگتے۔ فرعون نہیں بنتے۔ زمین پر فساد نہیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگ متقین ہیں اور ان جیسوں کے لئے اللہ کے ہاں دنیا اور آخرت دونوں میں بلند مقام ہے۔
مولا علیؑ اپنے صحابی حضرت حمام کو مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں متقین جو گفتگو کرتے ہیں وہ درست اور صیح گفتگو ہوتی ہے۔ اُس میں سچائی ہوتی ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بولتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کی خاطر گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ بے وجہ گفتگو بھی نہیں کرتے ہیں۔ متقین میانہ رو ہوتے ہیں۔متقین کی رفتار متواضع ہوتی ہے یعنی اُن کے اندر عاجزی پائی جاتی ہے غرور و تکبر نہیں پایا جاتا ہے۔
روایات میں ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میں ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہوں۔ اے خدا میں پناہ مانگتا ہوں ایسے دل سے جس میں خضوع و خشوع نہ ہو جس کے اندر تیرا خوف نہ ہو۔خدا کہتا ہے کہ جب تک کسی کا دل نہ ٹوٹے، جب تک اُس میں عجز و انکساری نہ آئے میں اُس میں نہیں آتا۔ اولیاء اور انبیاء اور اللہ کے سامنے تواضع کے ساتھ پیش آنے والا شخص متقین کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر کوئی کسی کے مال ودولت پیسہ اور مکان کہ خاطر عاجزی اور انکساری اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور اُس کے آگے جھک جائے ۔ایسے لوگ متقین شمار نہیں ہوتے ہیں۔
مزید متقین کی صفات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ متقین جب اللہ نے کسی چیز کو حرام قرار دیا ہے تو یہ اپنی آنکھ بند کر لیتے ہیں اُس طرف نہیں دیکھتے ہیں اور اپنےکانوں کو وقف کر دیتے ہیں اُس علم کے لئے جو علمِ نافع ہے۔ جو علم اُسے نفع دے ایسے علم کے لئے یہ اپنے کانوں کو وقف کر دیتے ہیں۔ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اُس چیز سے جو چیز اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
چھٹے امامؑ سے روایت ہے کہ انسان کے ہر اعضاء سے سوال کیا جائے گا۔ کانوں سے جو کچھ اُسنے سُنا، اُس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ متقین ان چیزوں سے اپنی آنکھیں بند کر دیتے ہیں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کر دیا ہے اور متقین ایسی چیزوں کے بلکل قریت تک بھی نہیں جاتے ہیں۔باللہ کی حدود سےتجاویز نہیں کرتے ہیں۔ اللہ نے ایک حد مقرر کر دیا ہے کہ یہاں تک تم دیکھ سکتے ہو اور یہاں سے آگے نہیں دیکھ سکتے ہو۔ انسان کے لئے دنیا میں بہت سے گناہ ایسے ہیں جو آنکھوں سے شروع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انسان کی ایک غلط نگاہ اُسکی پوی زندگی برباد کر دیتی ہے۔ شرم و حیا مٹ جاتا ہے بربادیاں لیکر آتی ہیں۔ اگر حرام سے انسان نے ڈر کر اپنی آنکھیں بند کر دیا ہے، اللہ سے حیا کرتے ہوئے اُس نے حرام کو چھوڑ دیا، تیرا حکم ہے اے اللہ اس لئے رک رہا ہوں تو خداوند متعال اُسے ایسا ایمان عطا کرے گا کہ جس کی شیرینی وہ محسوس کرے گا۔
حرام نگاہ کے اثرات:
بعض روایات میں حرام نگاہ کو آنکھوں کا زنا کہا ہے۔ رسول پاک نے مولا علیؑ سے ارشاد فرمایا اے علی قیامت کے دن ہر آنکھ گریہ کر رہی ہوگی سوائے تین آنکھوں کے۔ وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہی۔ ایسا کام کرتا رہا جو خدا کے لئےتھا، وہ آنکھ قیامت کے دن نہیں روئے گی۔ وہ آنکھ جو اس دنیا میں اللہ کی راہ میں بیدار رہی ہو۔
زید بن حارث سے نبی پاک نے پوچھا زید رات کیسے گزاری تو زید نے کہا کہ حالتِ یقین میں رات گزر گئ ہے۔ تمہارے یقین کی کیا نشانی ہے؟ تو زید نے کہا یا رسول اللہ میں تیری بارگاہ میں ہوں، جنت کو دیکھ رہا ہو اور جنت کے رہنے والوں کو دیکھ رہا ہوں اور جہنم کو دیکھ رہا ہوں اور جہنم میں موجود جہنمیوں کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ اللہ کے نبی نےکہا یہ اللہ کا وہ بندہ ہے جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے نور سے منور کر دیا ہے۔ اللہ کے نبی نے پوچھا کوئی خواہش ہے تیر ی تو بتادیں؟ تو زید کہنے لگے کہ میری خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاوں۔اور اللہ کے نبی نے دعا کی اور وہ شہید ہو گیا۔ یہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے یہ قیامت کے دن نہیں روئے گی۔
اور وہ آنکھ نہیں روئےگی جو حرام سامنے آئے تو اُس کی آنکھ بند ہو جائے۔ جو آنکھ حرام سے محفوظ رہی ہو۔
اور وہ آنکھ جو خوفِ خدا میں اشک بہاتی رہی ہو۔ یہ آنکھ بھی قیامت کے دن نہیں روئے گی۔
توبہ کا معنی:
انسان کو جب بھی فرصت ملے اللہ کی طرف لوٹ آجائے۔ توبہ کا معنیٰ ہے لوٹنا یعنی واپس آجانا ہے۔ لہذٰا ہمیں چاہئے کہ اپنے گناہوں سے معافی مانگیں اور واپس اللہ کی طرف آنا چاہئے۔
خدا وند متعالیٰ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے کہ جب کوئی توبہ کر کے واپسی کا ارادہ کرتا ہے تو میں اُٹھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔ جب وہ چلتا ہے میری طرف میں اپنی باہیں کھولے اس کی طرف دوڑ پڑھتا ہوں۔
ذکر مصیبتِ مولا عباس:
کربلا میں امام حسینؑ کا سارا بدن ذخمی تھا لیکن آنکھوں کی عجیب حالت تھی۔ مولا عباسؑ کوجس زخم نے زیادہ تکلیف دی ہے یہ وہ تیر تھا جو عباسؑ کی آنکھ پرلگا تھا۔ جب آنکھ پر تیر لگا تو عباس ؑ نے اپنے سر کو جھٹکا دیا کہ تیر آنکھ سے نکل جائے جب نہیں نکلا تو اپنا سر جھکایا اور اپنے دونوں گھٹنے بلند کئے اور تیر نکلانے کی کوشش کیا۔پھر ایک ظالم نے جب گرز مارا تو عباسؑ زین سے زمین پر گرے۔ آنکھوں میں خون تھا۔جب مولا امام حسینؑ حضرت عباسؑ کی لاش پر پہنچے تو مولا حسینؑ نے بھی عباسؑ سے کہا تھا کہ تیری آخری خواہش کیا ہے تو عباسؑ نے کہا کہ میری آنکھوں سے خون صاف کر دے تاکہ میں آپ کی زیارت کر سکوں۔ آرزو تھی کہ اپنے مولا حسینؑ کی آخری زیارت کر کے اس دنیا سے چلا جاوں۔ مولا امام حسین علیہ السلام نے آنکھوں سے خون صاف کیا۔ لیکن مولا امام حسینؑ کی خود ایسی حالت تھی کہ آنکھوں میں اتنا خون تھا، اتنا خون تھا کہ آنکھیں کھلتی نہیں تھی۔ ایک دفعہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے سینے میں وزن محسوس کیا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کیا لیکن آنکھیں نہیں کھول سکے تو کہا اے ظالم تُو نے وہاں پاوں رکھا ہے جہاں جسے اللہ کے بنی دیر تک بوسے دیا کرتے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here