درس اخلاق، لعلکم تتقون(3)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

روزے کی اہمیت:
اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقین بن جاو۔
یعنی روزے کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان متقی ہو جائے۔ اللہ کی پرواہ کرنے والا بن جائے۔ پرہزگار بن جائے۔ اُس کا باطن پاک ہو جائے۔ اُس کا وجود پاک ہو جائے۔ اُس کے وجود پر اللہ کی حکمرانی ہو جائے۔ وہ اللہ کی ولایت میں چلا جائے۔ وہ طاغوت اور ظلمات کے چُنگل سے نکل جائے اور وادیِ نور میں آجائے۔وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ اللہ اُس کے اعمال کو اس قابل سمجھے اور اپنی بارگاہ میں قبول کرے۔
اعمال کے قبولی کا معیار:
تقویٰ وہ خصوصیت اور فضیلت ہے اگر انسان اپنے اعمال تقویٰ کی چادر میں لپیٹ کر اللہ کے ہاں لے جائے تو خدا اُس کے اعمال قبول کرتا ہے۔ خدا صرف اور صرف متقین کے عمل کو قبول کرتا ہے۔
اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں. ایک یہ کہ بندہ شرعی طور پر تو عبادت ٹھیک طرح انجام دے رہا ہو لیکن اللہ صرف اُنہیں کے اعمال کو قبول کرئے گا جو متقی ہیں اور پرہز گار ہیں۔ایک آدمی نماز پڑھتا ہے لیکن توجہ نہیں ہے اور ذہن منتشر ہے۔ ممکن ہے یہ نماز صحیح ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ اللہ اس نماز کو قبول بھی کرے۔ اللہ صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔
متقین کی صفات:
قرآن کی پہلی آیت میں بھی متقین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ متقین وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی ان کا خدا پر ایمان ہے اور غیب پر ایمان ہے۔ ملائکہ پر ایمان ہے۔ آخرت پر ایمان ہے جنت اور جہنم پر ایمان ہے۔وہ اقامہِ صلواۃ کرتے ہیں۔ نماز دین کا ستون ہے۔ دین کو فرض کریں ایک ستون ہے اور انسان کے دین کا ستون نماز ہے ۔ ستون وہ نہیں ہوتا ہے جو لیٹا ہوتا ہو۔ اگر خیمے کو فرض کریں دین کا ستوں ہے اور اس خیمے کا ستون نماز ہے اور ستون کھڑی حالت میں ہوتا ہے جو مختلف طوفان آتے ہیں لیکن وہ ستون اس دین کے خیمے کو کھڑا رکھتی ہے۔ متقین نماز قائم کرتے ہیں اور مومنین نماز کو اہمیت دیتے ہیں اور بروقت نماز ادا کرتے ہیں۔ توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ قلب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں مختلف خیالات نہیں آتے ہیں۔ مولا کے سامنے ان لوگوں کی نماز قبول ہوگی۔ متقین کی نماز قبول ہو گی۔وہ نماز قبول ہوگی جو انسان کو بُرائی سے روکے اور نیکی کی طرف دعوت دے۔ اگر ایک انسان نماز پڑھتا ہے اور پھر گناہ کرتا ہے تو یہ وہ نماز نہیں ہے جسے قائم کرنے کو کہا گیا تھا۔ کیونکہ نماز انسان کو تمام بُرائیوں سے روکتی ہے۔
نگاہوں کی حفاظت:
مولا علیؑ سے صحابی حمام نے متقین کے حوالے سے پوچھا تھا کہ مولا مجھے متقین کی ایسی صفات بتائیں کہ میں مومنین کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ سکوں۔ مولا نے ارشاد فرمایا: متقین کی آنکھیں اپنی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ آزاد نہیں ہوتی ہیں۔یعنی دیکھنے سے متقین پہچانے جائیں گے کہ یہ دیکھ کیا رہا ہے۔ ہر انسان اپنا محاسبہ خود کر سکتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ خود فیصلہ کرے کہ میں نے جو دیکھا ہے وہی میں ہوں۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ میرا شیعہ، مومن، متقی کون ہے؟ میرا شیعہ وہ ہیں جو اپنی آنکھیں اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ اے نبی مومنین سے کہہ دیں کہ اپنی آنکھوں کو جھکا لیں جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام کر دی ہیں اگر وہ چیزیں آجائیں تو اپنی نگاہیں نیچے کر دیں۔
علماء نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں ایک جوان تھا اور اُس نے گلی میں جاتے ہوئے ایک خوبصورت خاتون کو دیکھ لیا جب اُس پر نظر پڑی تو جوان اس قدر محو ہو گیا کہ وہ ہوش میں نہیں رہا اور چلتے چلتے گلی تنگ ہو گئی اور دیوار میں سے ایک نوکیلی چیز اُس پر لگ گئی لیکن اُسے پتہ نہیں چلا کہ میں زخمی ہو گیا ہوں۔ جب وہ خاتون آنکھوں سے اوجھل ہو گئ تب اُس نے خود پر نگاہ کیا تو پتہ چلا کہ بُری طرح زخمی ہو گیا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی کسی سے عشق کرے تو وہ اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔
اولیاء اور انبیاء جب اللہ کی بارگاہ میں جمع ہوتے تھے اور خدا کی عبادت میں مصروف ہوتے تو اُنہیں پتہ نہیں چلتا تھا۔ یعنی اس قدر اللہ کی محبت میں مشغول ہو جاتے تھے۔اُنہیں تیر لگتے تھے، جسم ذخمی ہوتا تھا لیکن اُنہیں احساس ہی نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ اللہ کی محبت میں اس قدر مشغول ہو جاتے تھےکہ اُنہیں پتہ نہیں چلتا تھا۔ کربلا کے شہیدوں کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ امام حسینؑ سے روایت پر مبنی ایک شعر جس کی تشریح کچھ اس طرح سے ہے کہ اے خدا اس پوری کائنات کو میں نے تیری خاطر تیری عشق اور تیری محبت کی خاطر ترک کر دیا ہے۔ میں نے بچوں کی یتیمی کو قبول کیا ہے تاکہ تجھے دیکھ سکوں۔ اگر میں تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاوں میرا دل تیرے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں جائے گا۔بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کسی سے محبت کرے اُس میں محو ہو جاتا ہے۔
جب وہ جوان رسول اللہ کے پاس آجاتا ہے اور اپنا واقعہ بیان کرتا ہے پھر اللہ کے بنی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی مومنین سے کہہ دے کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھیں اور مومنات سے کہہ دے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچے کر دیں۔ لہذٰا مرد اور خواتین دونوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچے کر کے چلیں۔ اگر اپنی نگاہوں میں کنٹرول نہیں کریں گے تو سخت عذاب اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے۔
بعض عارف علماء سے نقل ہے کہ اگر کسی مرد یا عورت کی نگاہیں کنٹرول سے باہر ہیں اور وہ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو سورہِ نور کی تلاوت کیا کریں۔اور خدا سے مدد مانگیں کہ اے خدا میری آنکھوں کو کنٹرول عطاء فرما تاکہ میں اس ذلت و رسوائی سے بچ سکوں۔
روایات ہیں کہ اگر انسان اپنی آنکھوں کو کنٹرول میں نہیں رکھے گا اس کا نتیجہ ایسی لذت ہے جو ذلت اور رسوائی لیکر آئے گی۔ ویسے بھی ایک غیرت مند آدمی کسی کی ناموس کی طرف نگاہِ بد نہیں رکھتا ہے۔دوسروں کی ناموس پر نگاہیں رکھنا یہ اصل میں بے غیرت اور بے حیا لوگوں کا کام ہے۔
چھٹے امامؑ سے روایت ہے کہ جس آدمی کی نگاہ نا محرم عورت پر پڑے تو اپنا سر زمین کی طرف یا آسمان کی طرح کیا کریں۔اس کے نتیجے میں خدا حور کے ساتھ اس کی شادی کر دے گا۔ حدیث ہے کہ ایسی عورت جو نگاہِ حرام سے نامحرم مرد کو دیکھے اُس وقت اللہ کا غضب شدید ہو جاتا ہے۔ خواہ مرد کی نگاہ حرام ہو یا عورت کی۔ اللہ اس کو پسند نہیں کرتا ہے۔ لہذٰا پنی آنکھوں کو کنٹرول میں رکھ لیا جائے۔
گناہ کو عملی انجام دینے میں نگاہوں کا بڑا اثر ہوتا ہے جب ایک انسان کی نگاہ پڑتی ہے پھر اُس گناہ کے پیچھے اُس کا دل جارہا ہوتا ہے۔ گناہوں کی شروعات نگاہوں سے ہوتی ہے۔لہذٰا انسان اگر اپنی آنکھ کو کنٹرول نہ رکھے تو بہت سے گناہوں سے نہیں بچ سکتا ہے۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ متقین وہ ہیں جو اپنی نگاہوں کو حرام چیزوں سے بچا لیتے ہیں۔ چھٹے امامؑ سے ایک حدیث روایت میں ہے کہ نگاہِ بد ایک تیر کی مانند ہے۔ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے اور یہ تیر جا کر اپنے ہی دل کو لگ جاتا ہے۔ یہ نگاہِ بد والا تیر اسلام کو، قرآن کو اور ایمان کو مارتا ہے۔ اس عمل سے قرآن نے منع کیا ہے۔ حکم خدا ہے کہ کہہ دے مومنین سےکہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچے رکھیں۔
آیت اللہ ناصری نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نجف میں کچھ زائرین آئے ہوئے تھے۔ ایک دن حرم جانے سے پہلے ناشتے کے دوران ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے آپ کے بارے میں۔ آپ مجھ سے بعد میں پوچھ لینا لیکن اُس آدمی نے کہا کہ مجھے ابھی بتا دیں۔ پھر اس نے کہا میں خواب میں دیکھا ہے کہ ہم حرم میں ہیں۔ امام حسینؑ سورای پر تشریف فرما ہیں اور تم امامؑ کو تیر مار رہے ہو۔ کبھی سامنے سے اور کبھی پاوں کی طرف تیر مارتے ہو۔ جب اس نے یہ کہا اُس نے رونا شروع کر دیا اور باقیوں نے کہا جب تم نے ایسا خواب دیکھا تو اسے کیوں بتایا۔ اس نے کہا کہ اس نے خود مجھے مجبور کر دیا کہ خواب مجھے بتا دوں۔ وہ روتا رہا اور حرم میں بھی روتا رہا اور امامؑ سے معافی مانگتا رہا اور جب واپس آگئے تو اُس شخص نے کہا کہ مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوا تھا۔ ایک دفعہ حرم میں گیا۔ جب حرم کی زیارت کر رہا تھا تو میری نگاہ ایک عورت پر پڑی جو بہت خوبصورت تھی اور میں حرم کو بوسہ دینے کے بحانے اُس عورت کے قریب جاتا تھا۔ یہ نگاہِ بد تھی۔ اسی لئے بُری نگاہ ابلیس اور شیطان کی جانب سے ایک تیر ہے۔ لہذٰا ہمیں ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔
بُری نگاہوں کا نتیجہ شہوت ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ شہوت کا نتیجہ فساد اور بربادی ہے۔ لہذٰا متقین وہ ہیں جن کی نگاہیں پاک اور آنکھیں اپنی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔ معصوم فرماتے ہیں کہ خبردار! اپنی آنکھوں کو کنٹرول کرو۔ حرام سے بچاو۔ بُری نگاہ کرنا ایسا ہے جیسے اپنے دل میں بیج بو دینا اور اُس بیچ کا نتیجہ شہوت فساد اوربربادی ہے۔جب آپ نے بُری نگاہ ڈالی سمجھو کہ آپ نے شہوت کا بیج دل میں بو دیا۔ پھر یہی بیج ایک دن درخت بن جائے گا اُس کے بعد یہ درخت خود سمیت پورے معاشرے کو برباد کر دے گا۔
قرآن میں ہے کہ خدا پوچھے گا کہ آنکھ کہاں استعمال کی ہے۔ انسان کے تمام اعضاء خدا کے جوابدہ ہیں۔ روایات میں ہے کہ انسان کی جلد بھی اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گی۔ جس زمین میں انسان نے گناہ کیا وہ زمین گواہی دے گی۔
لیکن ایک بار انسان خدا کی بارگاہ میں واپس آجائے اور کہہ دے کہ اے خدا مجھے بخش دے۔ وہ سارے گناہ بخش دیتا ہے۔ کیونکہ وہ کریم رب ہے۔ نہ صرف گناہوں کو بخش دیتا ہے بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔بعض روایات میں ہے کہ انسان گناہ کرے اور 6 سے 7 گھنٹوں میں اگر وہ انسان نماز پڑھتا ہے تو اُس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
پس انسان کو اپنی نگاہ حرام چیزوں سے پاک رکھنی چاہئے تاکہ دنیا اور آخرت میں عزت کی زندگی گزار سکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here