بصیرت کے اعلیٰ درجے تک رسائی کے لیے اہم ترین راہ اصلاح نفس اور خود سازی ہے۔ اس سلسلے میں روایات میں کئی طریقے بیان ہوئے ہیں۔ یہاں ہم امیر المومنین (ع) کے نورانی کلام سے بصیرت کے حصول کی راہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔توبہ: تہذیب نفس اور حصول بصیرت کا پہلا قدم اپنی لغزشوں اور گناہوں سےتوبہ ہے بلکہ حق الناس اور حق اللہ کے ضمن میں تمام کوتاہیوں سے توبہ کرنا ہے۔
۲۔ذکر خدا: زبانی، قلبی اور عملی ذکر بصیرت کا موجب بنتا ہے امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: من ذکر اللہ استبصر، جو بھی یاد خدا میں رہے بصیرت اور بینایی حاص کرے گا۔
(البتہ ہر پیشے اور شعبہ زندگی سے مخصوص زبانی قلبی اور عملی ذکر ہیں جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں)۔
۳۔علما کے ساتھ ہم نشینی: امام علیہ السلام فرماتے ہیں، جاور العلما مستبصر، دانا افراد کے ساتھ اٹھو بیٹھو تاکہ آگاہی حاصل کر پاؤ یعنی متدین اور اہل خبرہ (حالات سے باخبر) علماء کے ساتھ مجالست بصیرت اور اندرونی بینایی کا باعث بنتی ہے۔
۴۔تامل اور تحقیق: امام علیہ السلام فرماتے ہیں، فانما البصیر من سمع فتفکر و نظر فابصر، حتما بصیر وہ ہے کہ اگر کوئی بات سنے تو اس کے بار ے میں غور و فکر کرتا ہے اور جب کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اپنی فہم و فراست سے کام لیتا ہے یعنی مسائل کو سطحی انداز میں نہیں دیکھتا بلکہ اپنی فہم و فراست کو اپنی نگاہ میں دخیل رکھتا ہے۔
۵۔زھد: یعنی دینوی امور میں دل نہ لگانا، (نہ یہ کہ دنیا سے لاتعلق ہونا) خطبہ ۸۲۔ نہج البلاغہ میں امام (ع) فرماتے ہیں، من ابصر بھا بصرتہ و من البصر الیھا اعمتہ، دنیا ایک وسیلہ ہے اور اگر کوئی دنیا کے ذریعے بطور وسیلہ حقایق تک پہنچا چاہے تو دنیا خود اسے آگاہی اور فہم فراہم کرتی ہے۔ لیکن اگر کسی کا ہدف دنیا کا حصول ہو تو دنیا اس کی قلبی آنکھ کو اندھا کر دیتی ہے، کیونکہ دنیا ہدف قرار نہیں پا سکتی۔
۶۔خدا سے رابطہ: خداوند سے متعلق معرفت میں اضافہ کرنا، قرآن اس کے معانی اور اس کے معارف سے انہیں آئمہ (ع) سے توسل اور خدا تعالی سے مناجات مخصوصاً نماز شب ایسے امور ہیں جو بصیرت اور بینایی اور غیبی الھام کا سبب بنتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here