باطنی بصیرت اور قلبی بینائی کے مراتب اور درجے ہیں اس کا اعلی ترین درجہ آئمہ کا ہے ۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں، لو کشف الغطاء ما ازدت یقیناً۔ اگر سارے پردے ہٹا دیئے جائیں تو میرے یقین میں کچھ اضافہ نہ ہو گا۔ اگرچہ یقین کا یہ مرتبہ معصومین (ع) سے مخصوص ہے لیکن دیگر افراد بھی بصیرت کے کئی درجے اور مرتبے حاصل کر سکتے ہیں۔ جو کوئی بھی اپنی خداداد فطرت میں سے باطنی نور تک رسائی حاصل کر لے اور اس کی قلبی نگاہ روشن ہو تو خداوند تعالی کی نشانیاں باطنی آنکھ سے دیکھ پائے گا اور کائنات ہستی کی موجودات کی تسبیح کی صدائیں سن پائے گا، جو (یسبح اللہ ما فی السموات و ما فی الارض) تمام وہ چیزیں جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کی تسبیح کر رہی ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی بصیرت کے کسی بھی درجے پر لڑکھڑا جائے اور ذرا بھر غفلت کا شکار ہو یا حاصلہ بصیرت کی حفاطت نہ کرے تو ہر درجے پر انحراف اور زوال کا احتمال ہے۔ اسی سلسلہ میں رہبر معظم کے بیانات سے ماخوذ خواص سے متعلق بےبصیرتی کے ایک واقعہ کے پس منظر کی تفصیل اور اس بحث کے نتائج پر اس موضوع کو ختم کرتا ہوں۔ کوفہ میں رہنے والے سلیمان بن صرد خزاعی توابین کے اصلی راہنما تھے۔ امام حسین علیہ السلام جب معاویہ کی موت کے بعد مدینہ سے مکہ کی طرف چلتے ہیں تو انہیں خبر مل جاتی ہے۔ لہذا یہ فوراً کوفہ کے لوگوں کو جمع کرنا شروع کرتے ہیں، کیونکہ یہ کوفہ میں امیرالمومنین (ع) کے شیعوں میں سب سے پہلے آ کر بسے تھے اس لئے اہم ترین شیعوں میں سب سے معتبر شخصیت مانے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام سے مربوط واقعات میں ان کا گھر لوگوں کی آمد و رفت کی آماجگاہ اور فکر و نظر کا مرکز بن گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے تقریر کر کے امام علیہ السلام کے بارے میں نہ صرف دوسروں کو آگاہ کیا بلکہ کوفہ دعوت کا سب سے پہلا خط بھی لکھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے ملحق نہیں ہوتے!

یہی نہیں سلیمان بن صرد خزاعی امیرالمومنین کے دوران امامت میں جنگ جمل میں حاضر نہیں ہوتے اور امام علیہ السلام انکی تردید اور شش و پنج میں پڑنے پر سرزنش کرتے ہیں (بلاذری انساب الاشرف ج2، ص273)۔ اس پر وہ امام حسن علیہ السلام سے جا کر سفارش کرواتے ہیں۔ جنگ صفین میں شریک ہوتے ہیں لیکن جنگ بندی پر راضی نہیں ہوتے۔ پھر امام حسن علیہ السلام کے ساتھ جنگ میں شریک ہوتے ہیں مگر معاویہ سے صلح پر امام علیہ السلام کو یا مذل المومنین کہہ کر صلح پر اعتراض کرتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام سے جا کر قیام کی درخواست کرتے ہیں! پھر جب 60 ہجری میں امام علیہ السلام مکہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو کوفہ میں یہ اپنے خطبوں (آج کی اصطلاح میں لیکچروں اور تقریروں) سے لوگوں کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام کی طرف خطوط کا سیلاب آ جاتا ہے ہر روز دسیوں اور سینکڑوں خطوط امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچنے لگتے ہیں۔ بیداری کی یہ موج صرف کاغذوں کے سیلاب تک محدود رہتی ہے اور عملا کوفہ کے کڑے پہروں سے صرف حبیب بن مظاھر اور مسلم بن عوسجہ کربلا پہنچتے ہیں۔ بیداری کے لیکچر دینے والے اور سننے والے سوائے کاغذی سیلاب کے اور کچھ نہیں کرتے۔ یزیدی حکومت بھی اہم افراد کو تو گرفتار کرتی ہے مگر انہیں اپنے لیکچروں اور تقریروں میں ہی مگن رہنے دیتی ہے انہیں بھی انکی زبانی بیداری اور کاغذی سیلاب کا اندازہ تھا، جیسے آج بھی کئی خواص کا یہی وطیرہ ہے بیداری کے لیکچر اور سننے والوں کے الیکڑانک خطوط اور پیغاموں کا سیلاب، جبکہ عملا نہ صرف ولی زمان کی رائے پرا پنی رائے کو اہم سجمھتے ہیں بلکہ عملی میدان میں دوسروں کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں، اور تو اور سلیمان خزاعی اور انکے سامعین قیام مختار میں بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے اور مختار بھی انہیں اپنے ساتھ ملانے سے اجتناب کرتے ہیں۔

رہبر معظم انہی کے بارے میں لشکر 27 محمد رسول اللہ (ص) کے کمانڈروں سے خطاب (2/3/85) میں فرماتے ہیں، "وہ خواص جو کربلا نہیں گئے، نہیں جا سکے، توفیق حاصل نہیں کر پائے اور پھر مجبور ہوئے کہ توابین کے لشکر کا حصہ بنیں اس کا کیا فائدہ؟ جب امام حسین علیہ السلام مارے گئے جب فرزند پیغمبر ہاتھ سے نکل گئے جب ایک بڑا حادثہ رونما ہو چکا، جب تاریخ کا زوال شروع ہو گیا تب اس کا کیا فائدہ؟ اسی وجہ تاریخ میں کچھ توابین جو کئی گناہ تھے شہدا کربلا سے، شہدائے کربلا ایک دن میں مارے گئے، توابین بھی سب کے سب ایک ہی دن مارے گئے، لیکن جو اثر توابین نے تاریخ میں چھوڑا ہے وہ شہدائے کربلا کے اثر کا ہزارواں حصہ بھی نہیں، اس لیے کہ یہ اپنے وقت پر نہیں آئے، کام کو اس کے اصلی لمحے میں انجام نہیں دیا، دیر سے فیصلہ کیا اور دیر سے تشخیص دی۔ ۔۔۔دیکھیں جہاں سے بھی شروع کریں، خواص تک جا پہنچیں گے، خواص کا بروقت فیصلہ خواص کی بروقت تشخیص، خواص کا دنیا سے بروقت گذرنا (ناطہ توڑنا)، خدا کے لیے خواص کا بر وقت اقدام، یہ چیزیں ہیں جو تاریخ اور اقدار کو نجات دیتی ہیں اور انکی حفاظت کرتی ہیں! صحیح وقت پر صحیح کام کرنا چاہیئے، اگر سوچ میں پڑے رہے اور وقت گذر گیا تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔”

خلاصہ یہ کہ بر وقت فیصلہ، بر وقت تشخیص، بر وقت دنیا سے گذرنا (ناطہ توڑنا)، بروقت اقدام اور عمل بصیرت کے مرہون منت ہے۔ انسان کو حقیقی بصیرت تک رسائی اور اس کی بقاء کی خاطر ہر لمحے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے۔ بصیرت کے حصول اور اسکی بقا کا یہی تنہا راستہ ہے کہ انسان ہمیشہ نفسانی برائیوں سے چھٹکارے اور فطری تقوی اور پرہیز گاری میں کوشاں رہے۔ دوسری طرف یہی بصیرت نہ صرف انسان کو اپنے مزید محاسبے اور خود سازی میں مدد فراہم کرتی ہے بلکہ زندگی کے ہر ہر مرحلے میں انسان کی معاون ثابت ہوتی ہے مخصوصا آزمایشوں اور زمانے کے فتنوں میں ہر خاص و عام کو قرآنی اور دینی اصولوں اور معیاروں پر نجات کا راستہ اور خواص اور بےخواص، حق و باطل، خالص اور ناخالص کا فرق دکھاتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here