اس طرح پاکستان کے اندر اہل تشیع کی مظلومیت کا دور شروع ہو گیا۔ کچھ امریکہ کے اسٹریٹجک پارٹنر بن گئے، کچھ سعودیہ کے اسٹریٹجک پارٹنر بن گئے، بعض فوج کے جرنیلوں کے اسٹریٹجک پارٹنر بن گئے اور دہشتگرد ان کے اسٹریٹجک ایسسٹ بن گئے۔ ان کے ذریعے انہوں نے کشمیر میں سات لاکھ فوج کو اینگیج رکھا گیا۔ افغانستان کے اندر اپنا اثررسوخ بڑھایا اور پاکستان کے اندر اپنی گرفت کو مضبوط کیا اور ہمیں نشانہ بنایا کیونکہ ہم امریکہ کے لئے خطرہ تھے۔ ہم اس خطے کے اندر ہونے والے تحولات میں مرکزی رول پلے کر سکتے تھے اس لئے ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور مختلف حوالوں سے ہمیں کمزور کیا گیا۔ پھر ہمیں مارنا شروع کیا گیا اور ڈیموگریفک چینجنگ لائی گئی۔ گلگت کا علاقوں جرنیلوں کے انڈر میں ہے وہ شیعوں کے ساتھ کمفرٹ نہیں تھے۔ فوج کے اندر شدت پسند مولویوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ پاک فوج پاک فوج نہ رہے ایک مسلک کی فوج بن جائے۔ یا علی کا نعرہ فوج کو ختم کیا گیا۔ یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ہے بلکہ یہ تبدیلی ایک پورے مائنڈ سیٹ کی عکاس ہے ۔ ہم صرف دیکھتے رہے اور خاموش تماشائی بنے رہے اور اسی دھن میں خوش رہے اور ان ملعونوں کو حوصلہ ملا تاکہ اس ملک کے اندر جو چاہے کر سکے۔ انہوں نے پہلے اس ملک کو توڑا اور باقی ماندہ ملک کو اپنی مجرمانہ خیانت کی وجہ سے تباہی کی طرف لے گئے۔ گلگت کے اندر انہوں نے سب سے پہلے آبادی کی تبدیلی لائی باہر کے لوگوں کو لا کے آباد کیا وہ بھی ایکٹریمسٹ اور تکفیریوں کو۔ شیعوں کے قدرت کے جو مراکز تھے انہیں کمزور کیا گیا اور ایسی منحوسانہ پالیسی اپنائی گئی تا کہ ان کا رابطہ ان کے نظام کے ساتھ توڑ دیا جائے۔ ہماری قدرت کا مرکز نائب امام تھا اور ولی فقیہ سے ہمارا رابطہ توڑنے کے لئے شہید عارف الحسینی کو مارا گیا۔ اس طرح ہمارا ملک نفرت کے جہنم میں جلنے لگا۔ ناامنی اور تفرقہ پھیلانے کی کوششیں کی گئیں۔ قوم کے نام پر، لسان کے نام پر علاقے کے نام پر تقسیم در تقسیم کیا گیا۔ اتنے ٹکروں میں بانٹ دو کہ کبھی اکھٹے نہ ہوسکے تا کہ ان پر آسانی اور مرضی کی حکومت کی جاسکے۔ یہ امریکہ بھی چاہتا تھا اور جرنیل بھی چاہتا تھا۔ اس ملک کے اندر ایک کمزور نظام حکومت رہے کیونکہ یہ امریکہ کو بھی سوٹ کرتا تھا، جرنیلوں کو بھی اور دہشتگردوں کو بھی سوٹ کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کے ریاستی اداروں نے قاتل پالے ہیں۔ دہشتگردوں کی پرورش کی کئی ان کے ناز اٹھائے گئے انہیں اپنا لاڈلا بنایا گیا۔

9/11 کے بعد یہاں اور تبدیلیاں آگئی۔ وہ تھریڈ جو باڈر کے اوپر تھا وہ ہمارے وطن کے اندر آگیا۔ جن کو یہ استعمال کرتے تھے انہیں اب دشمن بھی استعمال کرنے لگا۔مہران بیس پر حملہ ہوا اس سے انڈیا کے علاوہ کس کو فائدہ ہوا ہے؟ کیا یہ حملہ شیعوں نے کیا تھا یا سنیوں نے کیا تھا بلکہ انہوں نے کیا تھا جن کو انہوں نے پالا تھا۔ کامرا بیس پر کس نے حملہ کیا ؟ جی ایچ کیو پر کس نے قبضہ کیا تھا؟ ان بدبختوں کو چلو میں پانی لیکر ڈوب مرنا چاہیے۔ انہوں نے ملک کو کس تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے جس میں نہ شیعہ محفوظ ہیں نہ سنی محفوظ ہیں نہ ہندو عیسائی اور سکھ محفوظ ہیں۔ ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ تھریڈ باڈر سے اندر نہ آئے جب باڈر سے اندر آگیا تو انہیں چاہئے تھا کہ کورٹ مارشل کرلے لیکن کسی کا بھی محاکمہ نہیں ہوا ۔ کیا ان سے پوچھا گیا کہ ہم نے اربوں روپے تم پر خرچ کئے تاکہ یہ تھریڈ باڈر سے اندر نہ آئے اور یہ تھریڈ کیسے باڈر سے اندر آگیا؟!!جس طرح بھٹیر کو شکار کرنے کے لئے جال بچھایا جاتا ہے اسی طرح ہمیں شکار کرنے کے لئے مختلف امریکہ اور سعودی نوازجماعتوں کا جال بچھایا گیا اور وہ آئے دن ہم پر حملہ کر رہے ہیں اور ہم بھی ان لوگوں کی پناہ تلاش کر نے لگے جو خود امریکہ اور برطانیہ کے کے اسٹریٹجک پارٹنر ہیں نتیجہ وہاں بھی ہمارا خون بہا اور ہماری نسل کشی کی گئی۔

ایک ملاقات میں سید حسن نصراللہ نے ایک جملہ کہا تھا: ’’اپنے دشمن کو درست پہچانو تا کہ صحیح تیاری کر سکو۔ اگرد دشمن کی صحیح شناخت نہ ہوسکی تو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی‘‘۔ انہوںنے مزید کہا :
’’ہمارے ساتھ فلسطینی لڑکے اور دوسرے مسلمان بھائی لڑتے تھے، لیکن ہم نے کبھی انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھا، بلکہ دشمن کا آلہ کار سمجھا۔ہمارا اصل دشمن اسرائیل تھا۔ جب ہم نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر لی جو بھی آلہ کار تھا وہ ہمیں اچھی طرح سمجھ گیا اوران میں ہمارے ساتھ مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رہی‘‘۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here