_*درس دوم*_ ولایت قرآن کی نظر میں۔
آیت اللہ جوادی آملی کے دروس سے اقتباسات
مدرس: ڈاکٹر محمد یونس حیدری

*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*فاللہ ھو الولی و ھو یحی الموتی و ھو علی کل شیء قدیر*
ارشاد رب العزت ہے تمہارا سرپرست اور ولی صرف اللہ ہے۔ ولایت پر دلیل اور نشانی یہ ہے کہ وہ مردوں کو حیات دیتا ہے اور ہر شی پر قدرت رکھتا ہے۔
در واقع برھان کے حد وسط کو بیان کیا جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے جہاں کہیں بھی یہ حد وسط موجود ہو گا اس پر ولایت کا عنوان صادق آئے گا اور مذکورہ آثار اس سے ظاہر ہونگے۔
خداوند تبارک و تعالی نے رسول خدا اور علی مرتضی کی ولایت کو اپنی ولایت کے ساتھ ذکر کیا ہے *انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلواۃ و یوتون الزکواۃ وھم راکعون* جو ان کے صاحب قدرت ہونے اور ولایت تکوینی رکھنے کی واضح دلیل ہے۔ انشاء اللہ چوتھا اور پانچواں محور *الولایۃ کم ھی؟؟* اور *الولی من ھو؟ ولی کون ہے؟* میں اس کا تفصیلی ذکر آئے گا۔
ایام عزاء میں اگر خداوند تبارک و تعالی نے توفیق دی تو منطقی ترتیب سے بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ جس میں سر فہرست حقیقت ولایت کا بیان ہے۔ یعنی *الولایۃ ما ھی؟* ولایت کسے کہتے ہیں؟ ولایت کی حقیقت کیا ہے؟
ولایت، قرب اور نزدیکی کے معنی میں ہے۔ یعنی ایک چیز کا اس طرح دوسری چیز کے بعد قرار پانا کہ ان کے درمیان کسی تیسری چیز کا فاصلہ نہ ہو۔
ولایت کی بحث میں ہر طرح کا قرب مراد نہیں ہے بلکہ قرآن کی رو سے خاص قسم کا قرب مراد ہے۔ امور دو طرح کے ہیں مادی اور معنوی دونوں میں قرب کا معنی فرق کرتا ہے۔
مادی امور میں قرب دو طرفہ ہوتا ہے مثلا دروازہ دیوار کے قریب ہے اس کا مطلب ہے دیوار بھی دروازے کے قریب ہے۔ ممکن نہیں ہے دروازہ دیوار کے قریب ہو اور دیوار دروازہ کے قریب نہ ہو یعنی قرب کی نسبت دروازہ اور دیوار دونوں کی طرف ایک جیسی ہے۔
جبکہ امور معنوی میں ممکن ہے ایک طرف سے قرب اور نزدیکی ہو تو دوسری طرف ہے بعد اور دوری..
خداوند کافر اور مومن دونوں کے نزدیک ہے لیکن کافر خدا سے دور اور مومن خدا کے نزدیک ہے۔ اس کا مطلب ہے امور معنوی میں قرب اور نزدیکی کی نسبت دونوں کی طرف ایک جیسی نہیں ہے۔ بطور مثال خدائے سبحان ہر چیز کے نزدیک ہے۔ *نحن اقرب الیہ من حبل الورید* انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ انسان بھی خدا کے قریب ہوں بلکہ عین ممکن ہے انسان خدا سے دور ہوں۔ بنا بر این امور مادی میں قرب اور نزدیکی دو طرفہ ہوتی ہے جبکہ امور معنوی میں قرب اور نزدیکی ضروری نہیں ہے کہ ہر مورد میں دوطرفہ ہو۔
جب ہم کہتے ہیں خدا تمہارا ولی ہے تو اس سے مراد کیا ہے؟ لغوی معنی کے اعتبار سے دیکھیں تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ خدا تمہارے نزدیک ہے۔ یہ نزدیکی مادی امور میں قرب کا جو معنی ہوتا ہے اس طرح کی نہیں ہے یعنی نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم انسان بھی خدا کے قریب اور نزدیک ہیں۔ انسان اور خدا کے درمیان قرب اور نزدیکی دروازہ اور دیوار کا ایک دوسرے کے قریب ہونے کی طرح نہیں ہے۔
یہ تو لغت کے اعتبار سے ولایت کا معنی ہوا لیکن حقیقت ولایت کیا ہے؟
حقیقت میں ولایت ایک اشراق اور تجلی ہے جس کے ذریعہ کائنات خلق ہوتی ہے، دوام پاتی ہے اور باقی رہتی ہے۔ خالقیت اور ربوبیت کی باہمی ترکیب کا نام ولایت ہے۔ اسی لئے ولایت کے معانی میں سے ایک تدبیر اور سرپرستی ہے۔ جس کی وضاحت بعد کے دروس میں آئے گی۔
جب ولایت عبارت ہو اشراق اور تجلی سے اس کا مطلب یہ ہے کہ مولی سے فیض جاری ہوتا ہے اور موالی اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ مولا اثر ڈالتا ہے موالی اثر کو قبول کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ موالی سے بھی فیض جاری ہوتا ہو اور مولی اس سے فیضیاب ہوتا ہو۔
علم عرفان میں اس اشراق اور تجلی کو *اضافہ اشراقی* سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں خدا تمہارا ولی ہے *انما ولیکم اللہ* اس سے مراد یہ ہے کہ اصل خدا کی ذات ہے اور ولایت وہ تجلی ہے جس کے سائے میں انسان خلق ہوتے ہیں اور ماسوی اللہ کی تدبیر اور سرپرستی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پوری کائنات وجود اور بقاء میں خدا کی ولایت اور سرپرستی کی طرف محتاج ہے۔ ماسوی اللہ محتاج محض ہیں اور کسی قسم کا اثرِ متقابل خداوند کی ذات پر نہیں ڈال سکتے۔
بنا بر این ولایت اضافہ مقولی کی سنخ میں سے نہیں ہے۔ جس میں نسبت کے دونوں اطراف ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں اور جب تک دونوں اطراف نہیں ہونگے نسبت وجود میں ہی نہیں آتی ہے۔ جبکہ ولایت میں دونوں اطراف میں سے ایک ولایت کے سائے میں معرض وجود میں آتا ہے۔
پس زمام ولایت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مطالب کو ذھن کے قریب کرنے کے لئے ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں۔
خداوند تبارک و تعالی کے خطابات دو طرح کے ہیں۔ ایک خطاب۔ اعتباری اور تشریعی ہے دوسرا خطاب۔ حقیقی اور تکوینی ہے۔ خطاب تشریعی یعنی:
*کتب علیکم الصیام*
*اقیموا الصلواۃ*
*للہ علی الناس حج البیت*
ان آیات میں جو خطاب ہے اس کا تعلق مقام اعتبار اور تشریع سے ہے یعنی مخاطب اور متکلم دونوں کا وجود ضروری ہے۔ جب تک طرفین موجود نہیں ہونگے خطاب بے معنی ہے۔
جبکہ خطاب تکوینی میں مخاطب کا وجود ضروری نہیں ہے۔ متکلم اپنے خطاب کے ذریعے مخاطب کو وجود عطا کرتا ہے۔ یعنی مخاطب، خطاب کے ذریعے خلق ہوتا ہے۔ *انما امرہ اذا اراد شیئا فیقول لہ کن فیکون*
ولایت بھی خطاب تکوینی کی طرح ہے۔ یعنی ماسوی اللہ ولایت کے سائے میں خلق ہوتے ہیں اور ان کی تدبیر سرپرسی دوام اور بقاء اللہ کےہاتھ میں ہے۔
پس لغت کے اعتبار سے ولایت، قرب اور نزدیکی کے معنی میں ہے اور حقیقت میں ولایت ایسی تجلی ہے جس کے سائے میں کائنات خلق ہوتی ہے اور اس کی تدبیر و سرہرستی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بنا بر این جو ولی ہو گا وہ قادر مطلق بھی ہو گا۔
انشاء اللہ اگلے درس میں کچھ اور جہات سے اس موضوع کو مزید کھولنے کی کوشش کریں گے۔ خدا سے دعا ہے کہ خداوند ہمیں صحیح معنوں میں ولایت کو سمجھنے اور پیرو ولایت بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here