ہمارے عقائد (1)

عقیدہ اور اس کا انسانی زندگی میں کردار

مضامین :

۱۔عقیدہ کا کیا مطلب ہے
۲۔انسانی زندگی میں عقیدہ کی دخالت کا بیان
۳۔ معرفتِ خدا کے طریقے کون کون سے ہیں

ابتدائی سوالات:

۱۔حقیقت عقیدہ کیا ہے؟
۲۔ عقیدہ کے بارے میں ہم کس لیے گفتگو کرتے ہیں؟
۳۔ معرفت کے طریقے کیا ہیں؟
۴۔ ہم وجود خدا کے بارے میں کیسے معرفت حاصل کر سکتے ہیں؟

لفظ عقیدہ کے معنی:

انسان اس کائنات میں اس حال میں زندگی گزارتا ہے کہ بہت سے ان افکار اورنظریات کا حامل ہوتا ہے جن کا وہ معتقد ہوتا ہے اور ان پر ایمان رکھتا ہے،وہ انہیں صحیح و ناقابل تشکیک سمجھتاہے۔ان افکار و نظریات کو عقیدہ کہا جاتا ہے۔(عقیدہ لغت کے لحاظ سے گرہ لگانے اور باندھنے کے معنی میں ہے)
یہ افکار و نظریات چونکہ انسان پر غالب ہوتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ باندھ کے رکھتے ہیں اور انسان اپنے افعال و سوچ میں انہی نظریات کا پابند ہوتا اس لئے انہیں عقیدہ کہا جاتا ہے ۔ اسلام میں عقیدہ اصول دین کے نا م معروف ہے جو کہ توحید ، عدل، نبوت، امامت اور قیامت ہیں۔
عقیدہ کا انسانی زندگی سے دو طرفہ تعلق و ارتباط
۱۔عقل انسان:انسان جو عقیدہ رکھتاہے وہ انسان کے دینا و زندگی کے بارےمیں نظریات پر اور اس کے تمام افکار پر حاکم ہوتا ہے اور انسان کے ہر کام اور قول و قرار میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔
۲۔قلب انسان:انسان کا باقی موجودا ت سے امتیاز یہ ہے کہ وہ حب، بغض اور تعجب جیسی صفات کا شعور رکھتا ہے اور یہ سب خصوصیات بھی اس کے عقیدہ ہی کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ خداوند ارشاد فرماتا ہے۔
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اَیْمَانًا۔ وَقَالُوْا حَسْبُنَااللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (آ ل عمران ۱۷۳)
یہ وہ لوگ تھے جنہیں جب بعض لوگوں نے کہا لوگ (لشکر دشمن ) تم پر حملے کے لیے جمع ہو چکے ہیں ان سے ڈرو تواس بات نے ان کے ایمان میںاور اضافہ کردیا اور انہوں نے کہا خدا وندہمیں کافی ہے اور وہ بہترین حامی ہے (ہمارے لئے)
پس جس کا عقیدہ مضبوط ہے وہ ڈرتا نہیں ہے بلکہ ایسے حالات میں اس کے ایمان و صبر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔

عمل کا عقیدہ سے تعلق:

اب سوال یہ ہے کہ آیا عمل اہم ہے یا عقیدہ ؟انسان جو عمل انجام دیتاہے اگر وہ صحیح اور نیک ہوتو اس میں عقیدہ کا کیا کردار ہے؟
اسلام کی نظر میں عقیدہ ہی عمل کی مقبولیت کی اساس و بنیاد ہے لہٰذا کسی عمل کے مطلوبہ آثار و نتائج پانے کے لئے صرف اس عمل کا صحیح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ وہ صحیح عقیدہ کی بنیاد پر صادر ہوا ہو، امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ:
لاینفع مع الشک و الجحود عمل(اُصول الکافی ،الشیخ کلینی ،ج۲،ص ۴۰۰)
شک و انکار کے ساتھ عمل کا کوئی فائدہ نہیں
اور قرآن کریم میں تسلسل کے ساتھ عمل صالح کو ایمان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔
الذین آمنو ا وعملوالصالح (۲)
وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالحہ انجام دیئے۔
مذکورہ بالا روایت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو عمل انجام دیتا ہے اسکے فائدے کی مقدار بھی اتنی ہوگی کہ وہ کسی حد تک انسان کے تکامل میں مؤثر ہے اور جب تک عقیدہ عمل کے محرک کے طور پر موجود نہ ہوتو وہ عمل اسے کیسے کمال تک پہچانے میں اثر انداز ہو سکتا ہے ، لہٰذا جو انسان حق کا منکر ہو یا اس میں شک رکھتا ہو اس کا عمل کیسے بارگاہ خدا میں مقبول ہو کر اس کے لئے اجرو ثواب کا باعث بن سکتا ہے جبکہ وہ خدا وند کے وجود پر بالکل ایمان ہی نہیں رکھتا۔
اور جو انسان حقیقی ایمان کا مالک ہے اس کے اثرات اسکی پوری زندگی میں نظرآتے ہیں اور یہ ایمان اسکی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں قرار دے دیتاہے،یہی وجہ ہے کہ اس انسان کی موت کے بعد اس سے پہلا سوال ہی منکر و نکیر یہ کرتے ہیں کہ تمہارا رب کون ہے؟تمہارا دین کیا ہے؟اور تمہارانبی (وامام) کون ہے؟یعنی عقیدہ کیا ہے اور تمہارے نظریات کیا ہیں جو تمہیں دنیا میںکسی عمل کے انجام دینے کا سبب بنتے ہیں۔

 معرفت کے طریقے:

خداوند نے انسان سے معرفت طلب نہیں کی مگر یہ کہ اسے پانے کے طریقے اس کی پہنچ میں قرار دیئے، یہ مختلف اور آسان طریقے ہیں جو کہ سب کی دسترس میں ہیں،اسی وجہ سے خداوند نے انسان کوصحیح معرفت حاصل کرنے کے تمام اعضاء و وسائل عطا کر دیئے۔

۱۔ حواس
وہ پہلا ذریعہ کے جس کے ساتھ انسان اس کائنات کی معرفت حاصل کرتاہے اس کے پانچ حواس ہیں(سننا ، دیکھنا، چکھنا، سونگھنا اور چھونا) اگر انسان ان پانچ حواس میں سے کسی ایک سے محروم ہوجائے تو وہ بہت سے معارف و علوم سے محروم رہ جاتا ہے۔

۲۔عقل
یہ وہ عطیہ خداوندی ہے جو اس نے صرف انسان کو دیا ہے اور کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کیا اور انسان اس عطیہ الٰہی کا مالک ہونے کی وجہ سے ایسی اشیاء کو بھی ادراک کر سکتا ہے کہ دوسری مخلوقات اس کے ادراک سے قاصر ہیں اور اس کی مثال ذیل کے دوسرے سوال میں پائی جاتی ہے۔

سوال:

کیا آپ نے بجلی کو دیکھا ہے؟آپ اس کے وجود کا یقین رکھتے ہیں جبکہ آپ اس کی حقیقت نہیں جانتے۔

جواب:

یہ عقل ہی ہے جس نے بجلی کی طرف آپ کی رہنمائی کی ، آپ جب روشنی دیکھتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ یہاں وہ طاقت موجود ہے جو اس روشنی کو پیدا کر رہی ہے، یہ ایمان و یقین عقل کے ذریعےہی ہے نہ کہ حسّ کے ذریعے کیونکہ آپ نے ایک شے کے وجود کا یقین و ایمان حاصل کیا ہے جبکہ آپ نے اس شےکو اپنے پانچ حواس میں سے کسی ایک سے بھی محسوس نہیں کیا،قرآن کریم اسے یوں بیان فرماتا ہے۔
وَاللہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْمبُطُوْنِ اُمَّھٰٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(نحل۷۸)
خداوند نے تمہیں ماؤں کے پیـٹ سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے قرار دیئے تمہارے لیے کان ، آنکھ اور دل شاید تم شکر کرو۔

خداوندمتعال کی معرفت:

خداوند نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (فصلت۵۳)
ہم انہیں آفاق میںاور ان کی جانوں میں نشانیاں اپنی دکھلائیں گے یہاں تک کہ ان کے لئے روشن ہوجائے گا کہ صرف حق وہی ہے ، کیا تیرا رب کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔
اس آیت میں معرفت خدا وند کے دو طریقے بیان ہوئے ہیں کہ جن کے ذریعے انسان خداوند کے وجود کا یقین و ایمان حاصل کرتا ہے،اس کے پا س معرفت کے جو دو وسیلے ہیں یعنی حس اور عقل، ان دو کو استعمال کر کے انسان خداوند کے وجود کا یقین حاصل کر سکتا ہے۔

پہلا طریقہ:

آفاق میں غور و فکر:

اگر آپ اپنے اطراف میں موجود بڑی چھوٹی مخلوق کو غور سے دیکھیںجیسے سورج، ستارے ، سیارے ، رات ، دن ، بادل اور بارش وغیرہ تو آپ پائیں گے کہ یہ سب انتہائی دقیق نظام کے مطابق چل رہے ہیں،آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا مگر یہ کہ آپ ایک عالم قادر اورقاہر قدرت کا اعتقاد پیدا کرلیں جو ان سب کو چلا رہی ہے یہ قوت خداوند ہے ایک دوسری آیت میں اس طریقے کی وضاحت و تفصیل ذکر ہوئی ہے،ارشاد ہے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(بقرہ۱۶۴)
زمین و آسمان کی خلقت میں ، رات اور دن کی رفت و آمدمیں، اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کے لیے دریاؤں میں متحرک ہیں، اورجو آسمان سے خداوند پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونےکے بعد زندہ کرتا ہے اور اس زمین میں جو اسکی متحرک مخلوقات ہیں اور اسی طرح ہواؤں کے چپیڑوں میں اور زمین و آسمان کے درمیان مسخرّ بادلوں میں صاحبان عقل و فکر کے لئے(ذات پاک خداوند پر) نشانیاں ہیں ۔

دوسرا طریقہ:

نفس و روح میں غورو فکر:

جب انسان اپنے نفس پر نظرکرتا ہے تو اسے مکمل یقین ہو جاتا ہے کہ اس کاخلق کرنے والا موجود ہے جس نے اسے وجود عطا کیا ہے،انسان علم وجدانی رکھتاہے کہ نفس پہلے نہیں تھا اور پھر موجود ہوا، اب یا تو وہ بغیر کسی علت و سبب کے موجود ہوا ہے لیکن اس بات کی تصدیق عقل نہیں کرتی یا خود اس نفس نے اپنے آپ کو وجود عطا کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نفس اپنے موجود ہونے سے پہلے موجودہوتاکہ اپنے آپ کو خلق کر سکے جو کہ محال ہے، یا پھر یہ ایک عظیم ترین خالق کی مخلوق ہے جو مخلوقات کے تمام نقائص سے پاک و منزّہ ہے وہ خالق حییّ ہے،علیم ہے اور قدیرہے ، یہ خداوند متعال ہے اور یہی صورت صحیح ہے۔
وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (طور ۲۵،۲۶)
کیا وہ بغیر کسی شےسے خلق ہوئے یا انہو ں نے آسمان و زمین کو خلق کیا، بلکہ وہ یقین نہیں کریں گے ۔

مطالعہ کے لئے:

انماّ یخشی اللہ من عبادہ العلماء
ڈاکٹر عنایت اللہ المشرقی ہندوستانی عالم اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۰۹ء؁ میں اتوار کا دن تھا اور موسلا دھا ر بارش ہو رہی تھی،میں اپنے گھر سے کسی کام کے سلسلے میں نکلا میں نے علم ہیئت کے ماہر مسٹر جیمس جونز کو دیکھا (کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر) جوکہ وہ چرچ جا رہے تھے انکی بغل میں انجیل مقدس تھی اور ہاتھ میں چھتری تھی ،میں ان کے قریب پہنچا تو ان پر سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا، میں نے دوبارہ سلام کیا تو انہو ں نے کہا تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟میں نے کہا حضور دو باتیں ہیں،پہلی یہ کہ اس تیز بارش میں آپ نے چھتری کھولی ہوئی نہیں ہے،انہوں نے فوراً چھتری کھولی اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے آپ جیسے مشہور آدمی کو اس وقت چرچ جانے پر مجبور کیا ہے؟میرا یہ سوال سن کر مسٹرجونز ایک لحظے کے لئے رکے اور پھر مجھے کہا آج آپ چائے کے لئے شام کو میرے ہاں تشریف لایئے ،میں جب ان کے گھر شام کو پہنچا،چار بجے کا وقت تھا،دروازے پر مسز جونز آئیں اور مجھے کہا کہ مسٹر جونز اوپر آپ کے منتظر ہیں،میں جب اوپر ان کے کمرے میں پہنچا تو میں نے دیکھا ان کے آگے چھوٹا سی میز رکھی ہے جس پر چائے تیار رکھی ہے،انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا آپ کا سوال کیا ہے؟پھر میرے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ بولنا شروع ہوئے اور آسمانی سیاروںکی تشکیل ،ان کا حیران کن نظام ، ان کے تمام پہلو، آپس میں بے پناہ فاصلے ،راستے ، مداراور جاذبیت اور ان کے حیرت ناک الجھنے والے نورانی طوفان انہوں نے اس انداز سے بیان کئے کہ عظمت و جلال خداوند سے میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور مسٹر جونز کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور خوف خدا سے ان کے ہاتھ کانپنے لگے،وہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوئے اور پھر کہا اے عنایت اللہ جب میں خدا وند کی اس اچھوتی خلقت پر نظر ڈالتا ہوں تو جلال خداوندی سے میرا وجود کانپ اٹھتاہے اور جب میں اس خداوند عظیم کے سا منے سر تسلیم خم کر کے کہتا ہوںـ’’تو بہت عظیم ہے ،تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے وجود کا ہر ہر جزء اس بات پر لبیک کہہ رہا ہے اور پھر میں اپنے اندر انتہا ء کاسکون اور سعادت محسوس کرتا ہوں اور یہ سعادت وسکون دوسری چیزوںکی سعادت و خوشبختی کے مقا بل ہزاروں گنا بڑھ کر ہے،اے عنایت اللہ اب آپ کو سمجھ میں آیا کہ میں کیوں چرچ جاتا ہوں۔
علامہ عنایت اللہ المشرقی کہتے ہیں میں نے ان سے کہا آپ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں انہوں نے میرے اندر ایک بہت بڑا انقلاب برپا کردیا ہے ،سر آپ نے جو فرمایا اس نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے اور اس سے میرے ذہن میں قرآن کریم کی کچھ آیات آرہی ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے سامنے ان کی تلاوت کروں،انہوں نے کہا ہاں سنائیں تو میںنے یہ آیات تلاوت کیں۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء(سورہ فاطر ۲۷،۲۸)
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ خداوند نے آسمان سے پانی نازل کیا جس کے ذریعے ہم نے زمین سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے اور پہاڑوں سے مختلف رنگوں کے سفید و سرخ راستے نکالے اور کچھ مکمل سیاہ رنگ اور انسانوں ، حیوانوں اور جانوروں سے مختلف رنگو ں کے ، حقیقت یہی ہے صرف اور ـصرف اہل علم ہی خداوند سے ڈرتے ہیں۔
جب مسڑ جونز نے یہ سنا تو یہ کہتے ہوئے پکار اٹھے تم نے کیا کہا
انمايَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء
بہت زبردست، بہت عجیب، جو آپ نے کہا یہ وہ چیز ہے جو میری پچاس سال کی محنت کا نچوڑ ہے ،محمد ؐ کو اس کی خبر کس نے دی، جو تم نے سنایا ہے کیا یہ حقیقت میں قرآن ہے، اگر ایسا ہے تو میری طرف سے لکھ لو کہ قرآن خداوند عظیم کی ہی وحی ہے، پھر مسڑ جونز کہنے لگے محمدؐ تو امیّ تھے وہ خود اس راز سے پردہ نہیں اٹھا سکتے تھے یقیناخدا ہی نے انہیں اس راز کی خبر دی، بہت عجیب ہے، بہت حیرت ناک ہے۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here