ہمارے عقائد(3)

عدل الٰہی

موضوعات:
۱۔عدل کے معنی کی پہچان
۲۔ عدل و مساوات میں فرق کا بیان
۳۔ظلم کے معنی اور اس کے اسباب کا بیان

عدل کے معنی:
عدل کالفظ دو معنو ں میں استعمال ہوتا ہے۔
۱۔ عدل یعنی ہر صاحب حق کو اس کا حق دینا،کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں ہر مخلوق کے خاص حقوق ہیں، اور لوگوں میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں کے حقوق چھینے یا انہیں ان کے حقوق تک پہنچنے سے روکے،اور عادل وہ ہے جو ہر صا حب حق کو اس کا حق عطا کرے،عادل کے مقابل ظالم ہے پس ظالم وہ ہوگا جو دوسروں کو ان کے حقوق تک پہنچنے سے روکے یا ان کے حقوق چھین لے۔
۲۔ عدل یعنی ہر چیز کو اسکی مناسب جگہ پر قرار دینا ، پس عادل وہ ہے جو ہر شے کو اس کے مناسب مکان و زمان میں قرار دے، اور یہاں ظلم کے معنی کسی شے کو اس کی نامناسب جگہ پر قرار دینا ہوگا رسول خدا ؐ سے ایک روایت میں آیا ہے۔
’’بالعدل قامت السماوات والارض‘‘
یعنی زمین و آسمان عدل کے ساتھ قائم ہیں۔
اگر ہم عدل کی تعریف میں اس معنی کے لحاظ سے غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہاں عدل حکمت کے معنی میں ہے کیونکہ حکیم وہ ہوتا ہے جو اشیاء کو ان کی جگہ پر قرار دیتا ہے۔

۱۔ عدل اور مساوات میں فرق
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عدل یہ ہے کہ جو ایک کو دیا ہے وہی دوسرے کو بھی دیا جائے اور سب کے حصے برابر ہوں کسی کو کسی پر فضیلت نہ ہو اور کسی کو دوسرے سے زیادہ نہ دیا جائے۔لیکن عدل کے بارے یہ غلط تصور ہے یہ مساوات کے معنی ہیںنہ کے عدل کے۔
ان دونوں میں فرق جاننے کے لئے یہ ملاحظہ کریں کہ لوگوں میں استحقاق کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے استحقاق کے لحاظ سے سب لوگ برابر نہیں ہیں، ایک شخص نے پڑھائی میں بہت محنت کی ہے جو اس کا استحقاق ہے وہ اس کا نہیں جس نے سستی و کوتاہی کی اور بے کا ر وقت ضائع کر دیا، اب اگر استاد دونوں کو ایک جیسے نمبر ز دے گا اور دونوں کے ساتھ برابر کا معاملہ کرے گا تو یہ عدل نہیں ہے ان دونوں کو برابر دینا مساوات ہے لیکن یہ عدل و انصاف نہیں ہوگا کیونکہ محنت کرنے والا سستی کرنے والے سے زیادہ کا مستحق ہے۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہو سکتاہے کسی مورد میں عدل و مساوات جمع ہو جائیں جیسے چند اشخاص برابر حقوق رکھتے ہوں تو یہاں سب کو ان کا حق دیا جائے گا اور سب اس میں برابر ہونگے یہاں عدل بھی ہے اور مساوات بھی،لیکن کہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عدل و انصاف ہو لیکن مساوات نہ ہو جیسا کہ اشخاص کے حقوق ایک دوسرے کے مساوی نہ ہوں یہاں ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق دیا جائے گا یہ عدل و انصاف ہے لیکن مساوات نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہیں پر مساوات ہو لیکن عدل نہ ہو جیسے سب کو برابر دیا جائے جبکہ ان کے حقوق استحقاق کے لحاظ سے برابر نہ ہوں۔

۲۔ خدا وند تمام معنوں کے لحاظ سے عادل ہے
جب ہم خدا وند کی صفت عادل کے طور پر ذکر کرتے ہیں تو وہ عدل کے دونوں معنوں کے لحاظ سے عادل ہے ،خداوند عادل ہے یعنی وہ ہر شیٔ کو اسکی مناسب جگہ پر قرار دیتاہے کیونکہ وہ حکیم و خبیر ہے اور حکیم کسی شیٔ کو اسکی نامناسب جگہ پر قرار نہیں دیتا۔
اور خدا وند عادل ہے یعنی وہ ہر صاحب حق کو اس کا حق دیتاہے وہ سب کو برابر نہیں سمجھتا کیونکہ سب کو برابر دینا بعض دفعہ ظلم ہوتاہے ، بلکہ خداوند ہر کسی کو اس کے استحقاق کے مطابق کم و زیادہ دیتاہے قرآن میں ارشاد ہے’’ إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ (نساء۴۰) ‘‘خدا وند کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، یا فرمایا
إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا(یونس ۴۴)
خد ا لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا
۳۔ عدل الٰہی پر دلیل
جب ہم عدلِ الٰہی کے اثبات کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ خداوند ظلم نہیں کرتا، اور عدل الٰہی کے اثبات کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان اسباب کو دیکھیں جو ظلم کا باعث بنتے ہیں جب یہ اسباب خداوند میں نہ پائے جائیں بلکہ ان کا خداوند میں تصور ہی محال ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس سے ظلم کا صدور ممکن ہی نہیں ہے۔ ظلم کرنے کا درج ذیل اسباب میں سے کوئی ایک سبب ہو گا۔
۱۔ جہالت: جب کوئی شخص یہ نہ سمجھتا ہو کہ عدل کیسے ہو سکتا ہے تو وہ بعض دفعہ ظلم میں واقع ہو سکتاہے اگر قاضی حکم کو نہ جانتا ہو تو وہ اپنی جہالت کی وجہ سے لوگوں پر ظلم کر سکتا ہے۔
۲۔ ظلم کرنے کی ضرورت پیش آ جائے: جب ایک شخص کسی شے کا ضرورت مند ہو اور اس شے تک پہنچنے کا اس کے پاس شرعی ذریعہ نہ ہو تو وہ اس کے حصول کے لئے ظلم کا مرتکب ہو گا۔
۳۔حکمت کا نہ ہونا: ایک شخص ایک کام کرتا ہے اوراسے پروا ہ نہیں ہے کہ یہ ظلم ہے یا ظلم نہیںہے
اور خدا وند کے بارے ظلم کے یہ تینوں سبب قابل تصور نہیں ہیں۔
پہلا سبب:
جہالت ہے جبکہ خداوند بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ہے وہ ہر شیٔ کا علم رکھتاہے اور اسکے علم کی دلیل اس کائنات کے نظام میں غور و فکرہے کہ جس خدا وند نے اس کائنات کا یہ عظیم و دقیق نظام خلق کیا ہے ضروری ہے کہ وہ ہر شے کا علم رکھتاہو ، اس دلیل کی طرف اللہ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (بقرہ ۲۹)
اس کائنات کی کوئی شے خداوند سے غائب نہیں ہے وہ ہر مکان اور زمان میں حاضر ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔
وَلِلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ إِنَّ اللّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(بقرہ۱۱۰)
مشرق و مغرب خداوند کے ملک ہیں، تم جہاں بھی جاؤ وہاں خداوند موجود ہے،بتحقیق خداوند وسیع علیم والا ہے۔

دوسرا سبب
حاجت و ضرورت ہے یہ سبب ظلم بھی خداوند میں ناقابل تصور ہے کیونکہ یہ حاجت یا اپنے جیسے خالق کی طرف ہوگی یا مخلوق کی طرف،پہلی صورت ناممکن ہے کیونکہ باب التوحید میں ثابت ہوچکا ہے کہ خداوند کے لئے شریک فرض کرنا ہی ناممکن ہے۔
اور دوسری صورت نا ممکن ہے کیونکہ خداوند خالق ہے جو مخلوق سے مستغنی ہے اس لئے کہ جو کچھ مخلوق کے پاس ہے وہ اسی خالق کا دیاہوا ہے پس وہ کیسے مخلوق کا محتاج ہو سکتا ہے۔

تیسرا سبب
حکمت کا نہ ہونا ،خداوند حکیم ہے اور اس کی گواہی ا س کائنات کا انتہائی دقیق نظام دیتاہے ، یہ فعل خداوند ہے کہ جو کہ اپنے فاعل کی انتہاء کی حکمت پر دلالت کرتاہے اور قرآن کریم میں بہت دفعہ خداوند کی صفت حکیم علیم کے عنوان سے ذکر ہوئی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے۔
يُرِيدُ اللّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(نساء۲۶)
خداوند چاہتاہے کہ تمہارے لئے کھول کر بیان کرے اور تمہیں ہدایت کرے ان لوگوں کی سنت کی طرف جو تم سے پہلے تھے اور وہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے خداوند علیم و حکیم ہے۔

(مزید مطالعے کے لئے)

خدا کی قضاء پر راضی ہونا
رسول خداؐ کے زمانے میں ایک آدمی جس کا نام’’ذوالنمرہ‘‘ تھا ، شکل کے لحاظ سے وہ خاصا بدصورت تھا اسی وجہ سے اسے ذوالنمرہ کا نام دیا گیا تھا، وہ ایک دن حضور پاکؐ کی خدمت حاضر ہو ا اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھ بتلائیے خداوند نے مجھ پر کیا فرض کیا ہے؟حضور پا کؐ نے اسے فرمایا خدا نے تجھ پر سترہ(۱۷)رکعت نماز دن رات میں فرض کی ہے اور اگر ماہ رمضان کو پالو تو اس کے روزے فرض کیئے ہیںاور اگر حج کی استطاعت پید ا کرلو تو حج فرض کیا ہے اور زکوۃ فرض کی ہے تو اس نے کہا مجھے اس کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا میں بھی فریضہ سے بڑھ کر کچھ نہیں کروں گا۔حضور نے پوچھا وہ کس لئے؟تو اس نے کہا چونکہ خدانے مجھے بد صورت پیداکیا ہے اسی وقت جبریئل نازل ہوئے اور کہا یا رسول اللہ خداوند حکم دیتا ہے کہ آپ ذوالنمرہ کو خدا کا سلام پہنچائیں اور اسے کہیں کہ تیر ا ربّ تجھے کہہ رہا ہے کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن جبریئل کے حسن و جمال کے ساتھ محشور کروں، جب حضور نے اسے یہ بات بتلائی تو اس نے کہا اے ربّ میں راضی ہوں ،تیری عزت کی قسم اب میں تیری عبادت اتنی زیادہ کروں گا کہ تو راضی ہو جائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here