ہمارے عقائد(4)

انبیاء کی نبوت

موضوعات:
۱۔نبوت کے معنی
۲۔ معاشروں میں انبیا ء کا کردار
۳۔ نبوت کی ضرورت پر استدلال
۴۔ نبیّ کے اوصاف اور شرائط نبوت

نبوت کے معنی:
عربی میں ایک کلمہ انباء استعمال ہوتاہے جس کے معنی اخبار (خبروں ) کے ہیں، جب نشرۃ الانباء کہتے ہیں تو اس کے معنی خبروں کا بلٹن ہے جن کے ذریعے انسان اپنے اطراف میں ہونے والے واقعات کے بارے جان پاتا ہے، پس نباء کے معنی خبر کے ہیں۔نباء سے صفت مشبھہ نبی استعمال ہوتی ہے جس کے معنی خبردینے والے کے ہیں، لیکن نبی جو خبر دیتاہے وہ عام خبر کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ آسمانی خبر ہے یا کہہ لیں خداوند عظیم کے بارے خبر ہے ۔ کیونکہ انسان کو کسی ایسے فرد کی ضرورت ہے جو اسے رب تک پہنچنے کے لیے راستہ بتلائے اس لیے کہ خود انسان اس راستے کے بارے جاننے سے قاصر ہے،اسی طرح وہ خدا وند سے اتصال و ربط حاصل کرنے سے عاجز ہے،اس کے لئے کسی ایسے واسطہ کی ضرورت ہے جو اس اتصال و ربط کا امکان پیداکرے، اس واسطے کو نبی کہتے ہیں، اور نبی کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوںکو یہ بتلائے کہ خداوند ان سے کیا چاہتا ہے ان کےبارے میں ا س کے امرونہی کیا ہیں اور لوگوں کو وہ معرفت خدا پرتلقین کرے۔
نبوت عامہّ:
اگر انبیاء کے کردار کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء کا کام لوگوں کی حقیقی سعادت اور انسانی کمال کی طرف رہنمائی ہے ،اور یہ سعاد ت دنیا و آخرت دونوں کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا لوگوں کو ان کے روحانی و معنوی کمال کی طرف رہنمائی اہداف انبیاءمیں سے ایک ہدف ہے، اسی طرح دنیاوی زندگی کے منظم قوانین کی طرف ان کی رہنمائی کرنا بھی ایک ہدف ہے۔ انبیاء اس ہدف کو درج ذیل طریقوں سے پورا کرتے ہیں۔
۱۔ خدا کی توحید کی دعوت دینا اور لوگوں کے اندر اسکی تقویت کرنا، خداوند ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ(نحل۳۶)
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
اور امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے۔
لیعلم العباد ربھمّ اذجھلوہ ولیقرّوابہ بعد اذ جحدوہ ولیشبقوہ بعد اذ انکروہ(۱) نہج البلاغہ خطبہ/۱۴۷
تاکہ لوگ اپنے رب کے بارے جان لیں اس کے بارے جہالت کے بعد، اس کا اقرار کرلیں اس کے انکار کے بعد اور اس پر ثابت ہو جائیں اس کے انکار کے بعد۔
۲۔ لوگوں کو الٰہی مصارف کی تعلیم دینا اور ان کے نفوس کا تزکیہ و تربیت کرنا۔
خداوند کا ارشاد ہے۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ(سورہ جمعہ۲)
وہ وہ خداہے جس نے ان پڑھوں میں رسول بھیجا ان میں سے ، جو (رسول) ان پر خداکی آیات کی تلاوت کرتاہے، ان کے (نفوس) کا تزکیہ کرتاہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
۳۔ انسانی معاشرے میں عدالت کا قیام، خداوند فرماتا ہے۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (حدید؍۲۵)۔
بے شک ہم نے اپنے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی اورمیزان نازل کی تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔
عدالت کا قیام جیسے عدالت کی معرفت پر موقوف ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان اسے برپا کرنے پر بھی موقوف ہے اور انبیاء یہ دونوں کام انجام دیتے ہیں ، جیسے وہ لوگوں عدالت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اسی طرح وہ حکومت عادل کے قیام کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
۴۔ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا
ارشاد خداوندی ہے۔
كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝۰ۭ(بقرہ؍۲۱۳)
لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔
جب لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو تو نبیؐ کا فرمان قول فیصل ہوگا، چاہے خاص معاملات میں ہو یا عمومی معاملات سے مربوط ہو جیسے سیاست اور اجتماعی مسائل وغیرہ۔
۵۔ لوگوں پر حجت تمام کرنا
خداوند کا ارشاد ہے۔
رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (نساء۱۶۵)
خدا کے رسول اس حا ل میں کہ وہ بشارت دینے اور ڈرانے والے ہیں تاکہ لوگوں کے لئے خدا کے اوپر حجت نہ ہو رسولو ں کے بعد اور خداوند ہمیشہ سے عزت و غلبے اور حکمت والا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے اعمال کا قیامت کے دن حساب دینا ہے اور جو شخص جاہل ہے کسی خدا کو جانتا نہیں اس کا محاسبہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہا ں رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں پر حجت تمام ہو جاتی ہے ، اور حساب خداوند نہیں ہوتا مگر لوگوںکو حق بیان کردینے کے بعد۔

۲۔ نبوت کی دلیل
بعثت انبیاء کی ضرورت ثابت کرنے کے لئے درج ذیل امور پر توجہ ضروری ہے ۔
الف: خداوند کی صفات میں سے ایک صفت ’’حکیم ہے‘‘ اور حکیم وہ ہوتا ہے جو لغو و عبث کا م نہ کرے، وہ جو کام بھی کرتا ہے وہ بامقصد ہوتا ہے ، ان کاموں میں سےایک کام انسان کی خلقت ہے۔
ب۔ انسان کی خلقت کا مقصد اس کے لئے قرار دیے گئے کمال تک اس کا پہنچنا ہے۔
ج۔ انسان خود تنہا اس کمال تک پہنچنے سے عاجز ہے کیونکہ اس کے لئے ضروری وسائل اس کے پاس موجود نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کمال کو پانے کے طریقوں میں لوگوں کے درمیان سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔
د۔ لہٰذا انسان کے لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت ہے جو اسے اس کے نفع و نقصان والے امور کی طرف رہنمائی کرے اور کمال کے طریقے اسے بتلائے۔

۳۔ وہ صفات جن کا نبی میں ہونا ضروری ہے
ہر شخص منصب نبوت کو نہیں پا سکتا ، بلکہ اس منصب کو صرف وہی شخص پا سکتا ہے جس میں درج ذیل صفات پائی جائیں۔
۱۔ عقلی کمال: ضروری ہے کہ نبی اپنی قوم میں عقل کے لحاظ سے کامل ترین ہو ۔
۲۔ تبلغ اور لوگوں کی ہدایت کے لئے ضروری صفات ۔
ہر وہ صفت جو تبلیغ و ہدایت کے لئے ضروری ہے وہ اس میں مکمل طور پر موجود ہو جیسے حسن تدبیر ، عزم و ارادہ ، شجاعت اور صبر وغیرہ۔
۳۔ گناہوں کے ارتکاب سے معصوم ہونا
اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس شخص پر اعتماد نہیں کرتے جو گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اس لئے کہ جو شخص گناہوں کا ارتکاب کر سکتا ہے وہ معارف الٰہی کے بیان میں بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔

۴۔ خطاء و نسیان سے معصوم ہونا
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص بھول سکتا ہے یا غلطی کر سکتاہے ہو سکتا ہے وہ معارف الٰہیہ کے بیان میں بھی بھول جائے یا غلطی کا مرتکب ہوجائے تو لوگوں کو اس کی بات پر اعتماد نہیں رہے گا،اسی وجہ سے خداوند نے انبیا ء کو ’’مصطفَون‘‘ کی صفت سے متصف فرمایا ہے۔
إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (آ ل عمران۲۲۔۲۴)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here