سم اللہ الرحمن الرحیم
کسی قوم کی حقیقی اور مکمل بیداری تب ہے جب وہ قوم اس امر کو طلب کرتی ہے کہ ملک بھر میں دین اسلام کے احکام اور تعلیمات کے مطابق ذمہ داریاں، اختیارات اور عہدے تقسیم ہونے چاہئیں، جس میں ولی فقیہ جو حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کا نائبِ عام ہے، حکومت کی باگ ڈور اور تمام اختیارات اس کے حوالے کردیئے جائیں۔
پھر وہ قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کی روشنی میں جسے اپنا نمائندہ بنائے، جو منصب جسے سونپے وہ شخص دین اسلام کے فروغ کے لئے اپنی ذمہ داری کو اچھے طریقے سے ادا کرے۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الدّینُ یَعْصِمُ”، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے”۔ [غررالحکم، ح۱]
اگر حکمران ایسا شخص ہو جو نہ دین اسلام کو گہرائی سے جانتا ہو اور نہ اس پر عمل کرتا ہو تو ملک کیسے محفوظ رہے گا۔ کیا بے دینی کے ذریعے ملک محفوظ رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں!
دنیا بھر میں جتنے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہورہے ہیں، سب بے دینی کی وجہ سے ہیں۔ اگر کوئی قوم بیدار ہوجائے تو وہ سمجھ جائے گی کہ صرف دین اسلام، انسان کی حفاظت کرسکتا ہے، لوگوں کی جان، مال اور عزت و ناموس، دنیا اور آخرت کی حفاظت صرف اسلام کی تعلیمات کی فرمانبرداری کرنے میں ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دین اسلام کی تعلیمات کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے منتخب حکمرانوں کے ماتحت زندگی بسر کرنے میں لوگوں کی حفاظت اور امان ہے، جبکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ جو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے بروئے کار آیا ہے، اس نے پہلے اپنی خواہشات کو پورا کرنا ہے نہ کہ لوگوں کی ضروریات کو، لیکن جو "ولی فقیہ”، منصبِ حکومت پر رونق افروز ہوگا تو وہ دین اسلام کی روشنی میں پہلے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرے گا، اور اس نے اپنی ساری خواہشات کو دین اسلام کے احکام کے مطابق ڈھال دیا ہوتا ہے، یعنی اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ دین اسلام ملک بھر اور دنیا بھر میں قائم ہوجائے۔ اگر لوگ اس بصیرت تک پہنچ جائیں تو بیدار ہوئے ہیں، ورنہ غفلت کی نیند سورہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[غررالحکم و دررالحکم، آمدی]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here