امریکی ھجمونی کا خاتمہ اور ایشیاء کا مستقبل

(تجزیہ)

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

اس وقت دنیا میں یک قطبی نظام زوال کا شکار ھے ( اور بظاھر ختم ھو چکا ھے ) 27 اگست 2019 ، G7 کے اجلاس کے اختتامی خطاب میں فرانس کے صدر نے کہا کہ ھم دنیا پر west کی hegemony کے خاتمے کے دور میں رہ رھے ھیں ۔اور اس کی ایک بڑی وجہ انکے بقول گزشتہ دور میں west کی اپنی غلطیاں ھیں ۔اس سے پہلے مشہور امریکی سوشیلاجسٹ immanuel  Maurice wallerstein  نے امریکہ کی hegemony کے تیزی کے ساتھ  زوال کو اپنے مختلف آرٹیکلز میں لکھا۔ اس حقیقت کے شواھد اور مثالیں اس وقت آپ کے سامنے ھیں ۔امریکہ اور یورپ(۔western powers ) اس وقت درپیش چیلنجز کے سامنے شدت کے ساتھ اندرونی اختلافات کا شکار ھے ۔ان کے اکثر و بیشتر اجلاس کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچتے ۔مثلا چین،  ایران ، روس وغیرہ کے ساتھ امریکہ کی اقتصادی جنگ میں امریکہ اور یورپ ایک پیج پر نہیں ھیں ۔ اور ان میں فیصلے کی طاقت کا شدت کے ساتھ فقدان ھے ۔

اسی طرح ابھی ایران کے ساتھ حالیہ درپیش صورتحال میں امریکہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکا اور اس کی طاقت کا پول کھل گیا، خطے میں  امریکہ کے اتحادی مایوس نظر آتے ھیں ۔امریکہ مشرق وسطی میں جو قدم بھی اٹھائے گا اس میں ناکام ھو گا ۔اس کوئی بھی طاقت اتحادی ساتھ دینے کو تیار نہیں ۔ امریکہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے لیکر دنیا کے مختلف  ریجنز میں تنہا ھو رھا ھے ۔برطانیہ نے جب ایران کے آئل ٹینکر کو پکڑا( سمندری قزاقی کی ) جوابا ایران نے  برطانیہ کے آئل ٹینکر کو پکڑ لیا( اور یوں فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم   کے قرآنی اصول پر عمل کیا۔) جس کے نتیجے میں برطانیہ کو ذلیل ھو کر ایرانی آئل ٹینکر  چھوڑنا پڑا جب کہ برطانیہ کا بحری تیل بردار جہاز ابھی تک ایران کے قبضے میں ھے ۔اور برطانیہ کے غرور و تکبر کے غبارے سے ھوا نکل چکی ھے ۔  جنوبی یمن میں اس وقت امارات اور سعودیہ دست بگریبان ھیں ۔اور اپنے حامیوں کے ذریعے آپس میں لڑ رھے ھیں ۔عبد ربہ منصور ھادی نے امارات کو یمن سے نکل جانے کا کہا ھے ، اور امارات کے خلاف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست دی ھے ۔یمن میں یہ لوگ ھار چکے ھیں، اور انصار اللہ نے اپنے انقلابی صبر اور اسقامت اور مقاومت کے ذریعے آل سعود اور امریکی سرپرستی میں  بنائے گئے الائنس کی ناک خاک میں رگڑ دی ھے ۔یمن کی دلدل سے  سعود اور زید کی اولاد صحیح و سالم نہیں نکل  سکتی ۔یہاں اب طاقت کا توازن مقاومت کے حق میں ھے ۔شام میں باقیماندہ دھشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی سراسیمگی اور مایوسی اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ سب پر عیاں ھیں ۔ایک دوسرے پر اعتماد کھو چکے ھیں جب کہ مقاومت کا ایک دوسرے پر اعتماد آسمان کی بلندیوں کو چھو رھا ھے ۔عراقی مقاومت بھی دن بدن اپنے اثر و نفوذ کے دائرے کو بڑھا رھی ھے ۔اور امریکی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف میدان میں موجود ھے ۔لبنان میں اور مقبوضہ فلسطین کے اندر بھی اس وقت مقاومت بہت طاقتور ھے ۔اسرائیل مقاومت کے محاصرے میں ھے ۔چند روز قبل اسرائیلی ڈرونز کے لبنان میں حملے کا جواب دینے کے لئے سید مقاومت سید حسن نصراللہ کے اعلان کے بعد اسرائیل میں شدید خوف و ھراس پایا جاتا ھے، جسے عرب میڈیا مسلسل بیان کر رھا ھے ۔لہذا اسرائیل اپنی تمام اسٹریٹجیز کی ناکامی کے بعد اپنے زوال کیطرف گامزن ھے، اور ان شاء اللہ رھبر انقلاب حضرت آقا کی اسرائیل کے خاتمے کے بارے خبر کو ھم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔لہذا امریکہ کہ طرف سے مقاومت اور ایران کے مقابل  نہ اپنا دفاع کر پانا اور نہ ھی اپنے اتحادیوں کا ، یہ اس بات کی دلیل ھے کہ امریکہ کی ( یعنی  سارے west کی ) hegemony کا سورج  غروب ھو چکا ھے ۔دنیا میں لاطینی امریکہ سے لیکر ایشیا تک نئی پاورز وجود میں آ چکی ھیں یا آرھی ھے ۔ ان حالات میں اگر پاکستان مقاومت کے بلاک کے ساتھ اسٹریٹجک روابط  استوار کرتا ، اور یورپ کے بجائے ایسٹرن ممالک کے ساتھ  اپنے سیاسی، اقتصادی ، سماجی ، عسکری اور کلچرل روابط پر توجہ دیجاتی ، روس چین ایران ترکی عراق کے ساتھ پاکستان کے مضبوط تعلقات قائم ھوتے تو پھر انڈیا contain ھو جاتا ، اسے کشمیر میں ظالمانہ کھیل کھیلنے کی جرآت نہ ھوتی ۔پاکستان امریکی اور یورپی دباؤ  سے نکل آتا، پاکستان کی چین ، امارات اور سعودی عرب پر dependency  ختم ھو جاتی ۔ھماری خارجہ پالیسی اس جمود ، بے تحرکی، بیچارگی اور کنفیوژن سے نجات پا جاتی، ایک آزاد خارجہ پالیسی جو ھمارے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ۔اس وقت جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ھوں کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی حمایت مقاومت کے بلاک کے اصولوں کی بنیاد پر ھوتی، اور ھم انڈیا کی سات آٹھ لاکھ فوج کو( جو اس وقت کشمیر میں ظلم ڈھا رھی ھے ) عبرت کا نشان بنا دیتے ۔لہذا پاکستان میں تیزی کے ساتھ اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کو review کرنے اور بدلنے کی ضرورت ھے ۔

ایران میں موجود حکومت کو بھی رھبر انقلاب حضرت آقا کے ویژن اور ان کی طرف سے دئے گئے رھنما اصولوں کے مطابق اپنے اقتصادی اور تجارتی روابط کو استوار کرنا چاھئے ۔چونکہ انقلابی ایران دنیا کے مظلوموں کے لئے بالعموم اور مسلمانوں کے بالخصوص ایک خاص ذمہ داری اور فریضے کا حامل ھے ۔لہذا اپنے تجارتی روابط میں اس قدر تنوع لیکر  آئے کہ مستضعفین عالم کی نسبت فرائض کی انجام دھی میں کوئی ظالم حکومت بلیک میل نہ کر سکے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here