میر انیس اور رثائی ادب
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

کربلا چند پہلو رکھتی ھے۔
1۔ عاطفی پہلو ۔
2۔ عقلی اور عقلانی پہلو ۔
3۔ عرفانی پہلو ۔لوگوں کی اکثریت عاطفی حوالوں سے امام حسین علیہ السلام اور کربلا کی طرف جذب ھوتی ھے ۔اور عالی ترین احساسات یا احساسات بریں اس غم کے نتیجے میں وجود پاتے ھیں، اور عالی ترین اشک جو انسان کے دل کی گہرائیوں سے نکلتے ھیں وہ انسان کی آنکھوں سے سرازیر ھوتے ھیں ۔اور انسان کے دل کو پتھر بننے سے بچاتے ھیں ۔یہ آنسو ایک مظلوم کی حمایت ٹھہرتے ھیں، ایک ظالم کے مقابلے میں۔ استاد تقی جعفری کہتے ہیں کہ انسانوں کی کشتی نجات کے چلنے کے لئے پانی( نہر یا دریا ) کی ضرورت نہیں بلکہ یہ اشکوں کے اس مقدس قطرے پر چلتی ھے جو دل کی گہرائیوں سے غم حسین میں آنکھوں سے بہتا ھے۔
لہذا رثائی ادب کا تعلق انسان کے عواطف سے ھے ۔ اور رثائی ادب نے کربلا کے درد و غم کے پہلو کو زندہ رکھا، وگرنہ اگر صرف حماسی ادب ھوتا،اور یا صرف عقلانی پہلو کو مدنظر رکھا جاتا تو، شاید آھستہ آھستہ انسانوں کے وجود کی زمین کا عاطفہ بےجان ھو کر مر جاتا اور کربلا ایک خشک اور بنجر زمین پر کاشت ھوتی ۔اس رثائی ادب نے مسلم اور غیر مسلم دونوں کو کربلا کی طرف جذب کیا ھے، چونکہ ان کے عواطف کے ساز کو چھیڑا جو کہ کربلا کو سنتے بھی ھیں اور لمس بھی کرتے ھیں ۔اسی طرح میر انیس کے اشعار میں حماسہ بھی بہت ھے ۔حماسہ کے چند ایک پہلو ھیں ۔لہذا میر انیس کا حماسی پہلو بھی بہت عالی ھے ۔اس کے علاوہ قرآن خود بلاغت کی معراج ھے ۔حتی قرآن کا آھنگ ایک معجزہ ھے ۔اسی طرح میر انیس کا رثائی ادب واقعا اردو ادب کا معجزہ ھے، اور کربلا کے اس رثائی ادب نے اردو کے رثائی ادب پر گہرا اثر ڈالا اور اسے کربلا اور امام حسین علیہ السلام کے سائے تلے لے آیا ۔آپ اہل سنت شعرا اور غیر مسلم اردو شعرا کا رثائی ادب دیکھیں، اس پر کس قدر میر انیس کے رثائی اشعار کا اثر ھے ۔انسانی معاشرے کی تہذیب و تمدن اور اس کے رشد میں ادب کا گہرا اثر ھوتا ھے ۔لہذا اگر مراد انقلابی حماسی ادب ھے ، جو اکثر و بیشتر شعراء نے روس کے کیمونسٹ انقلاب سے متآثر ھو کر لکھا ۔اور اس میں کربلا کو بھی لے آئے ۔ممکن ھے یہ پہلو نہ ھو ۔البتہ میر انیس کے رثائی ادب میں تمام عالی ترین انسانی فضیلتوں( شجاعت، جرآت، بلند ھمتی، ایثار، فداکاری، وفا وغیرہ ) کو عالی ترین انداز میں بیان کیا ھے ۔میرے خیال میں اگر آپ حقائق کو صرف تاریخ میں تلاش کریں گے، اور اس دور کے شعر کو ایک طرف رکھ دیں گے، تو آپ شاید حقائق تک نہ پہنچ سکیں، یہی وجہ کہ صاحب الغدیر نے غدیر پر شعر کہنے والے شعرا کا کلام بھی اپنی تحقیق میں شامل کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here