معرفت خط امام خمینیؒ:(حصہ سوم)

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

تقریباً آج سے ساٹھ سال پہلے امام خمینیؒ نے ایک کتاب پر تقریظ لکھی ہے ، اس تقریظ میں امام خمینیؒ نے اس آیت کو بیان کیا ہے۔
قل انما اعظکم بواحدۃأن تقومو اللہ مثنی وفرادیٰ
کہہ دو کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔(سورہ سبا۔۴۶)
وہ کیا ہے؟ ہزار نصیحتیں ہونگی، ہزار نصیحتوں میں سے تمہیں اس بات کی نصیحت کرتا ہوں ’’ان تقومواللہ‘‘ تمہاراقیام اللہ کیلئے ہونا چاہیے، تمہارامبارزہ اللہ کیلئے ہونا چاہیے،تو جو لوگ آج کے زمانے میں چلنا چاہتے ہیں، امام خمینیؒ ان کے لئے ہر لحاظ سے رول ماڈل ہیں، دشمن کی شناخت، دشمن کی کمزوریوں، دشمن کے حیلے و حربے، دشمن کے مراکز، غرض ہر چیز کے اعتبار سے کیا کیا سختیاں اور مشکلات آسکتی ہیں، ان تمام مسائل میں امام خمینیؒ ہمارے پیشوا اور رہبر ہیں، وہ رہبری کرنے والے ہیں، ’’قل انما انا اعظکم بواحدۃ‘‘ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں، ’’ان تقومواللہ‘‘ ہمارا قیام کس لیے ہو؟ اللہ کیلئے، مجلس وحدت مسلمین اگر قیام اللہ کیلئے کرے گی، مبارزہ اللہ کیلئے کرے گی، رنج اور سختیاں اللہ کیلئے اُٹھائے گی تو منزل تک پہنچے گی، یہ کام آسان نہیں ہے، آگاہانہ قدم اٹھانا ہے لہٰذا امام خمینیؒ مبارز فی سبیل اللہ ہیں۔
میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کیلئے قیام کرو اس لیے کہ ابراہیمؑ خلیل نے اللہ کیلئے قیام کیا تو مقام خلَّت تک پہنچ گئے، عالم طبیعت میں رعنائیاں ہیں، جلوے ہیں، کشش ہے، حضرت ابراہیم ؑ اسی قیام اور مبارزہ فی سبیل اللہ کے ذریعے مقام خلَّت تک پہنچے اور عالم طبیعت کے جلوے اور رعنائیاں جو حقیقت میں تاریکیاں ہیں ، ان کو پشت کرکے اس تاریک زندان سے نکلے تو انہیں قرب خدا عطا ہو گیا۔
حضرت موسی ؑ کو دیکھ لیں، قیام للہ تھا توایک عصا کے ذریعے پوری فرعونیت پر غلبہ پا لیا اور فرعون کے تخت و تاج کو تباہ و برباد کر ڈالا۔
رسول اللہ ؐ نے قیام للہ کیا، مشرکین مکہ کو شکست دی اور اس قیام للہ کے نتیجے میں کس مقام و مرتبہ پر فائز ہوئے، مقام قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر پہنچے۔
قیام للہ کیلئے سیروسلوک، ریاضت، تہذیب نفس بہت ضروری ہے، خودخواہی اور خود غرضی نہ ہو، بہت سے لوگ اس مغالطے میں ہوتے ہیں کہ بغیر تہذیب نفس کے دین کا کام کیا جاسکتا ہے ۔ایسے لوگ کچھ عرصے بعد یا کام چھوڑ دیتے ہیں یا خرابیاں کرتے ہیں یا مخالف ہوجاتے ہیں، قیام فی سبیل اللہ، کیلئے تہذیب نفس کی بہت ضرورت ہے، تہذیب نفس ہو، پاکیزگی ہو، سیروسلوک کی ضرورت ہے، انسان کا رابطہ غیب کے ساتھ ہو، خدا کے ساتھ ہو۔
میں ایک مبارز کے بارے میں پڑھ رہا تھا کہ شاہ کے زمانے میں تہران میں ایک شکنجہ گاہ تھی اور رائونڈ شکل میں تہہ خانہ تھا جہاں ان کو شکنجہ دیا کرتے تھے، آج کل اس کو میوزیم بنا دیا گیا ہے، تو ایک مبارز کو پکڑ لائے اور اس میں ڈال دیا اور بھی بہت سارے لوگ اس میں تھے اور ایک چھوٹا سا قید خانہ تھا جس میں بندہ صحیح طرح سے سو بھی نہیں سکتا تھا، اس شکنجہ گاہ کے ہیڈ نے ایک دن کہا کہ شاہ کا حکم ہے کہ کل سے نماز فجر نہیں پڑھی جائے گی، آپ لوگ نماز فجر نہیں پڑھ سکتے، اس مجاہد نے صبح اذان دی، نماز فجر پڑھی، وہ لوگ ان کو لے گئے، اور اتنا مار ا کہ وہ بے حال ہو گیا، بے حال کر کے پھینک دیا، اگلے دن پھر اس نے اذان دی اور نماز پڑھی، اگلے دن انہوں نے پھر اس کو مارا، پھر چھوڑ دیا، اس نے تیسرے دن اذان دی، نماز پڑھی پھر اسے پکڑ کر ماراکہ بدبخت ہم نے تمہیں بتایا تھاکہ شاہ نے منع کیا ہے کہ نماز نہیں پڑھنی ، وہ جواب دیتا ہے کہ شاہ کی بات مانناہوتی تو جیل میں کیوں ہوتے؟، یہ مبارزہ اللہ کیلئے ہے، اس کے لئے سیروسلوک، دینی آگاہی ، باطنی طہارت ، شرافت ، اخلاق اور ایثار و بردباری چاہیے، امام خمینیؒ کی زندگی کو دیکھیں، سید حسن نصر اللہ(حفظہ اللہ) کہتے ہیں کہ( میری یہ اپنی فہم ہے ممکن ہے غلط ہو کہ امام خمینیؒ کو عرفان کسی نے پڑھایا نہیں ہے، امام خمینیؒ نے سیروسلوک کی ریاضتوں اور عبادات کے ذریعے اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچایا کہ قلب امام خمینیؒ پر الہام ہوتا تھا، آپ اللہ کے راستے میں قیام کرنا چاہتے ہیں، آپ کا راستہ اگر اللہ سے الگ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ اللہ کے ساتھ گہرا رابطہ تھا، کثرت سے تلاوت قرآن کریم کرتے تھے، قرآن سے رابطہ اور دینی اخلاق، حیاء و شرم، یہ چیزیں ہیں، اگر ہم نے پاکستان کی سرزمین پر ان بے ادبوں، بداخلاقوں، بے دینوں کے نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں پاکیزہ بننا پڑے گا، یہ کام ایسے ہی نہیں ہوسکتا، ہماری راتیں عام لوگوں کی راتوں کی طرح نہیں ہونی چاہییں، ہماری راتیں آباد ہونی چاہییں، قرآن کی تلاوت ہماری زندگی کا حصہ ہونی چاہیے۔ میں بعض اوقات قرآن کی اس آیت کی تلاوت کر کے عجیب محسوس کرتا ہوں۔
فاقرءوا ما تیسر من القرآن(مزمل۔آیت ۲۰)
اللہ کہہ رہا ہے، جو قادر مطلق ہے، فاقرء ماتیسر، جتنا تمہارے لیے آسانی سے قرآن پڑھنا ممکن ہو پڑھو اور اسی سورہ مزمل کے آخر میں بھی ہے۔
فاقرءوا ماتیسر من القرآن
تم جتنا قرآن پڑھ سکتے ہو ،جتنا میسر ہے ،آسان ہے اتنا پڑھ لو، سیروسلوک، خدا سے رابطہ، اگر اللہ کے راستے کو معلوم کرنا ہے تو مناسبت پیدا کریں، میچنگ ہونی چاہیے، ہمارے درمیان اور ہمارے راستے کے درمیان، ہمارا اللہ سے رابطہ ہونا چاہیے، ہم نے قوم اور ملت کو خدا کی طرف لے کر چلنا ہے ، مشکلات سے مقابلہ کرناہے ،سختیوںسے مقابلہ کرنا ہے، قیام للہ کرنا ہے، ہمیں اپنے آپ کو پاکیزہ بنانا ہے۔
امام خمینیؒ نے سفر طے کیا ہے، کتنا سفر طے کیا ؟ ان کی زندگی اُٹھا کے دیکھیں،تلاوت قرآن،رات کی بندگی،فرائض کی ادائیگی ہر لحاظ سے امام خمینیؒ ایک قابل شخصیت ہیں، اگر ہم مجلس وحدت کے لوگ خدا کیلئے قیام کرنا چاہتے ہیں ،قرآن ہی نہ پڑھیں،قرآن کا مطالعہ نہ کریں، قرآن کی تلاوت ہی نہ کریں، یہ کیسا آگے بڑھنا ہے ، خدا کے راستے میں، قرآن سے دوری خدا سے دوری ہے ، عبادات ، واجبات ،فرائض کی ادائیگی یہ سب چیزیں شامل ہونی چاہیں،ہماری شخصیت کے اندر توازن ہونا چاہیے ،عدم توازن نہ ہو ،اللہ کے راستہ میں مبارزہ کرنا ہے، معاشرے کو اس کا توازن لوٹانا ہے، اس کو بیلنس کرنا ہے،(Unbalance) لوگ کبھی سوسائٹی کو بیلنس نہیں کرسکتے،اپنے غیض وغضب کو مارناہے ،اپنی خواہشات کو مارنا ہے ،انہیں دفن کردینا،یہ جہاد اکبر ہے۔
یا ایھا الانسان انک کادح الیٰ ربک کدحاً
یہ مبارزہ اور قیام فی سبیل اللہ ،تہذیب نفس سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے پر ختم ہوتا ہے، اپنے اندر سے ہی مبارزہ اور قیام شروع ہوتا ہے ،جسے جہاد اکبر کہتے ہیں اور سوسائٹی اور معاشرے تک جاتا ہے جسے جہاد اصغرکہتے ہیں، شروع اندر سے ہونا چاہیے،لہٰذا ضروری ہے کہ ہم امام خمینیؒ کو اس حوالے سے سمجھیں ،مبارزہ اللہ کے راستے میں اندر سے شروع ہوا، جہاد بالنفس سے شرو ع ہوا، مبارزہ بالنفس سے شروع ہوا اور کہاں ختم ہوا؟ طاغوتوں پہ، استعماری قوتوں اور فرعونوں پہ،اگر اندر سے شکست کھا گئے تو باہر بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
جہاد اکبر
رسول اللہ ؐ سے ایک عجیب روایت نقل ہوئی ہے، بعض نے لکھا کہ اللہ کے نبی نے جنگ سے واپس آنے والے اصحاب سے فرمایا۔
مرحبابقوم قضوا الجھاد الا صغر و بقی علیھم الجھاد الاکبرقیل واماالجہاد الاکبر،قال ؐالجہادبالنفس۔
مرحبا جنہوں نے جہاد اصغر کو کامیابی سے گزارا ہے، اب جہاد اکبر انہیں درپیش ہوگاپوچھا گیا جہاد اکبر کیا ہے فرمایا:ؐنفس کے ساتھ جہاد ۔(اُصول کافی ۔ج۵ص۱۳)
یعنی جہاد اکبر ختم ہونے والا نہیں ہے، جاری ہے، جہاد اکبر مسلسل ہے، مبارزہ فی سبیل اللہ شروع ہی ہمارے اندر سے ہورہا ہے ،شروع ہورہا ہے ختم نہیں ہوگا۔
توبہ کرنا بھی لوٹنا ہے۔ ’’تاَبَ‘‘ اَی ْ رَجعَ‘‘ ، لوٹ آیا، واپسی ہے خدا کی طرف۔ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ اپنے نفس سے، لوٹنا ہے، واپس آنا ہے اللہ کی طرف، اللہ کے راستے کی طرف بڑھنا ہے، اس لیے واجبات کی ادائیگی، حرام سے اجتناب، مراقب رہنا، متوجہ رہنا، جھوٹ نہ بولنا، آنکھوں کی حفاظت، زبان کی حفاظت، ہاتھوں کی حفاظت، شکم کی حفاظت،اپنے وجود کی حفاظت کرتی ہے، اپنے دل کی اور اپنے باطن کی حفاظت تاکہ یہ آنکھیں شیطانی نہ ہو جائیں، یہ زبان شیطانی نہ ہو جائے، یہ کان شیطانی نہ ہو جائیں، یہ دل شیطانی نہ ہوجائے،یہ ہاتھ شیطانی نہ ہو جائیں، یہ شکم شیطانی نہ ہو جائے، یہ پائوں شیطانی نہ ہو جائیں، ہمیں یہ کام کرنا پڑے گا، کیا ہم ان شرپسندوں کو دیکھیںان غاصبوں کو دیکھیں ؟ہم سیروسلوک والے ہیں، امام خمینیؒ نے سیروسلوک کیا، وہ خود بھی آزاد ہوئے اوراپنی قوم وملت کو بھی آزاد کیا، اس کیلئے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی، ہمیںاپنی محفلوںاور اپنے دلوں کو اللہ کی یاد سے آباد کرنا ہے، اللہ کو حاضر و ناظر جانیں، اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر سمجھیں۔
ھو یعلم خائنۃ الاعین وماتخفی الصدور
وہ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور سینوں میں چھپے ہوئے (راز) کو بھی جانتا ہے۔(سورہ غافر۔۱۹)
اس کا طریقہ کار کیا ہے؟واپسی کیسے ہے؟ آج کی رات ہم عہد کریں، اے میرے مالک و خالق ہم تیری طرف، تیری بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں، ہم تیرے ساتھ عہد کرتے ہیں، کل سارا دن تیری بارگاہ میں گزاریں گے، تیری بندگی میں گزاریں گے، فرائض کو انجام دیں گے، حرام سے بچیں گے، اے میرے رب میرے وجود پر تیری حکومت ہے ۔ یہ وعدہ کرتے ہیں اپنے اللہ سے، اے اللہ توفیق دے ہمیں کہ تیری عبادت کریں تیرے ساتھ رازونیاز کریں مناجات کریں۔
اللہ مجھے توفیق دے تیری بارگاہ میں لوٹ آئوں، اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ صبح اٹھنا ہے، اگر ہوسکے تو، میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے ہی مرحلہ میں مشکل اور وزنی پلان بنالیں، جو ہو سکے وہ کریں، پہلے مرحلہ میں وعدہ کریںکہ آنکھوں کی حفاظت کرنی ہے،وعدہ کرنے کے بعد وعدہ نبھانا ہے، جیسے ہم پرائم منسٹر یا پریذیڈنٹ سے کوئی وعدہ کرتے ہیں تو نبھانے کیلئے ادھر ادھر بھاگ دوڑ اور کوشش کریں گے کہ میں نے ایک بڑے آدمی سے وعدہ کیا ہے، یاد رکھئے اللہ سب سے بڑا ہے اور ہم نے یہ وعدہ اس سے کیاہے، جو سب سے بڑاہے، جو ہمارے وجود کامالک ہے، جو ہمارا خالق اور کریم رب ہے، ہماری تمام تر خیانتوںکے باوجود اس کا رحم وکرم ہمارے لئے جاری وساری ہے،اس کی رحمت کے فرشتے گنہگاروں کو دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید اللہ کی طرف واپس پلٹ آئیں۔
راوی کہتا ہے کہ میں ایک دن مکہ میں خانہ خدا میں تھا کہ مجھے ایک شخص کی آواز سنائی دی جو غلاف کعبہ سے لپٹ کر کہہ رہا تھا۔
اِلٰہی سَائِلُکَ بِبَابِکَ،فَقِیرُکَ بِبَابِکَ
خدایا تیرا سوالی تیرے دروازے پر ہے تیراغلام تیرے دروازے پر ہے
اَغلَقَتِ المَلوَکُ اَبوَابِھَا قَامَت عَلَیھَا حَرَاسَھَا
دنیاکے بادشاہوں نے اپنے دروازے بند کرلئے ہیں اوران پر پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں
راوی کہتاہے کہ میں اس آواز کی سمت متوجہ ہوا کہ دیکھوں یہ کون ہے؟ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ علی ابن الحسین علیہماالسلام ہیں۔
خداوندا، تیرا دروازہ توہروقت کھلا ہوا ہے، ہم سب تیرے بندے ہیں، تیرے گناہگار بندے ہیں، ہم تیری طرف لوٹنا چاہتے ہیں، بارالٰہا ہمیں توفیق دے ہم کمزور ہیں۔
شیطان کے نمائندے آپ کو ورغلانے کی کوشش کریں گے،کہیں گے چھوڑو یار آج گانا سنتے ہیں، آج ڈرامہ دیکھتے ہیں، بڑی عمر پڑی ہے، چھوڑو ان کو یہ شیطان کے نمائندے ہیں، ان سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور الگ تھلگ کسی جگہ پربیٹھ کر محاسبہ کرناچاہیے کہ کیا اللہ نے جو حکم دیا ہے وہ میں نے انجام دیا ہے یا نہیں؟ اگر انجام دیا ہے تو دورکعت نماز شکرانہ پڑھیں کہ خداوندا تیرا شکر ہے کہ تو نے توفیق دی ہے کہ آج میں سارا دن تیری راہ میں رہا، سارا دن آج میں گناہوں سے محفوظ رہا، اے میرے کریم رب تیرا شکر ہے، اگر کوئی لغزش یا غلطی ہوئی ہے تو میں شرمندہ ہوں۔
دوستو! اس راستے پر چلنا آسان نہیں ہے۔
کربلا کا درد:
کربلا میں مختلف قسم کے درد اور غم ہیں، کونسا درد اور غم ہے جو کربلا میں نہیں ہے۔جتنی مشکل کربلا میں تھی وہ پیاس کی تھی۔ اس پیاس کا سب پر اتنا احساس تھا کہ میں اکثر یہی ؎مصائب پڑھتا ہوں، امام حسین ؑ کے یتیم بچوں کی پیاس، کہ جب بچوں سے پانی کا پوچھا جاتا تو بچے تڑپ کے کہتے
کیف نشرب الماء وقد قتل الحسین ؑ عطشاناً
ہم کیسے پانی پییئیں جبکہ ہمارے مولا حسین ؑ پیاسے شہید کئے گئے
یہی وجہ تھی کہ اللہ کے نبی ؐ جام کوثر لے کر کربلا میں آگئے تھے تاکہ پیاسوں کو جام کوثر پلائیں، امام حسین ؑ کو علی اصغرؑ کی پیاس کا بڑا درد تھا، امام حسین ؑ کے کٹے ہوئے گلے سے آواز آتی ہے، حضرت سکینہ بنت الحسین ؑ نے روایت کیا ہے اور یہ عجیب روایت ہے کہ امام ؑ فرماتے ہیں
شیعتی ماان شربتم ماء عذب فاذکرونی
اے میرے شیعو! جب بھی میٹھا پانی پینا مجھے ضرور یادکرنا،جب کسی غریب کاتذکرہ سننا مجھے ضرور یاد کرنا
کاش تم کربلا میں ہوتے تو دیکھتے کہ
کیف استسقی لطفل فأبوا ان یرحمونی
کیسے میں اپنے معصوم بچے کے لئے پانی مانگ رہا ہوںلیکن ظالموں کو رحم نہ آیا
تیر سہ شعبہ سے میرے بچے کو پانی پلایا، پیاس کی شدت کا احساس سب کو ہے لہٰذا آپ ؑ کے نانا جان جام کوثر لے کے آگئے تھے لہٰذا جب علی اکبرؑ گھوڑے سے گرے تو اپنے بابا کو سلام کرکے کہا بابا مجھے جام کوثر مل گیا، بابا میری فکر نہ کریں میں پیاسا تھا، مجھے اللہ کے نبی نے جام کوثر دیا، دادا علی ؑ بھی ہیں دادی فاطمہ الزہراؑ بھی ہیں۔
ہر ایک کو پیاس کا احساس ہے، حسین ؑ کو بھی اپنے بچوں کی پیاس کا احساس ہے لہٰذا جب ابوالفضل العباس ؑ جو پیاسوں کے سقاء ہیں، علماء کہتے ہیں کہ حضرت عباس علمدار ؑ وہ واحد شخصیت ہیں کہ جو کربلا میں دنیا سے پیاسے رخصت ہوئے، کیا اللہ کے نبی ؐ حضرت عباس ؑ کے لئے جام کوثر نہیں لاسکتے تھے؟ علماء بیان کرتے ہیں،کہ عباس ؑکے لئے بھی جام کوثر لے آئے تھے، جب جام حضرت عباس ؑ کو پیش کیا گیا تو عباس ؑ نے کہااے اللہ کے نبی معاف کرنامیں پانی نہیں پیوں گا، فرمایا عباسؑ پانی کیوں نہیں پیو گے؟عرض کیا حسینؑ کے بچے پیاسے ہیں میرا امام پیاسا ہے۔ الالعنۃ اللہ علیٰ القوم الظالمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here