امام خمینیؒ کے مبارزے کے اہم اصول

۱۔ استکبارستیزی

امام خمینیؒ کے ہاں مبارزے کا پہلا اصل استکبار ستیزی ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ مستکبرین ختم نہیں ہوتے، اس وقت تک مظلوم اپنے حق تک نہیں پہنچ سکتے۔ عالمی اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ، اسرائیل اور دیگر استعماری قوتیں مستکبر ہیں اور پاکستان کے اندر یہ ہمارے حکمران مستکبر، ظالم اور طاغوت ہیں اس لیے کہ یہ استحصالی طبقہ ہے جو عوام کا استحصال کر رہے ہیں اور جب تک مظلوم اور محروم عوام ان کے خلاف اُٹھیں گے نہیں اس وقت تک یہ مسلط رہیں گے، لہٰذا پاکستان کے اندر ہمیں مظلوم اور محروموں کو بیدار کرنا چاہیے۔ اس کمزور، پسے ہوئے اور کچلے ہوئے طبقہ کو ان ظالموں کے خلاف بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں کمزور اور محروم طبقہ کے ساتھ کس طرح ظلم ہو رہا ہے۔ آپ نے تھر کا واقعہ سن لیا کہ تھر کے اندر لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور ہسپتالوں میں دوائیں موجود نہیں لیکن ساتھ ہی مو ہنجوڑو میں ثقافتی شو اور میلے کے نام پر ساڑھے پانچ ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ ثقافت اور کلچر کے نام پر رقص اور سرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں وہاں پر عیاشی اور فحاشی کے مظاہرے ہوتے ہیں اور ساتھ میں غریب لوگ مر رہے ہوتے ہیں جب کہ یہ محروم لوگ یہ کچلا ہوا طبقہ یہ اللہ کی زمین کے وارث ہیں۔ اللہ نے خود فرمایا ہے:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ (سورہ القصص۔آیت۵)
آپ ملاحظہ فرمائیں کہ عالمی استکباری قوتیں بھی ان کی سرپرست ہیں ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں۔ یہاں سے لے کر افریقہ تک اور وہاں سے لے کر امریکہ تک تمام استکباری قوتوں کے لوکل سطح پر عوام کے اوپر جو مسلط فورسز ہیں ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں۔ لہٰذا امام خمینیؒ فرماتے ہیں : ہر چہ فریاد دارید برسر امر یکا بکشید۔ تم جتنا ظلم کے خلاف فریاد بلند کرسکتے ہو امریکہ کے خلاف فریاد بلند کرو اس لیے کہ ان تمام شیطانی قوتوں کا رأس اور سر ا امریکہ ہے۔ اگر یہ کچل دیا جائے تو باقی بھی کچلے جائیں گے۔
پس اللہ نے اعلان کردیا کہ ہم مظلوموں اور محروموں کو زمین کے وارث بنائیں گے لیکن ایک شرط کے ساتھ و ہ شرط یہ ہے کہ:
اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (سورہ الرعد۔آیت۱۱)
جب تک لوگ خود اُٹھ کھڑے نہیں ہونگے اس وقت تک یہ حق ان کو نہیں ملے گا۔
جیسے ایک بلڈنگ کے اوپر کوئی چیز رکھ دی جائے اور آپ سے کہا جائے کہ یہ آپ کی ہے تو آپ کیسے اسے پائیں گے؟ اس کو پانے کے لیے آپ کو اٹھنا ہوگا اور حرکت کرنی ہوگی۔ اگر آپ اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے تو وہ آپ تک نہیں پہنچے گی۔ جی ہاں زمین مظلوموں اور محروموں کی وراثت ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ اپنے اندر سے تبدیلی شروع کرنی پڑے گی۔ اپنی فکر کو تبدیل کرنا ہوگا، بے تفاوتی، بے حسی، سستی ،بزدلی اور خوف و ڈر کو ختم کرنا ہوگا۔ پہلے جب اپنے اندر تبدیلی لائیں گے تو باہر تبدیلی آئے گی اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ یہ اللہ کی سنت اور قانون ہے حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ جب تک وہ اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے خدا کی طرف سے ان کے لیے تبدیلی نہیں آئے گی۔اس تبدیلی کے لیے کوشش کرنی پڑے گی، محروموں کو حوصلہ دینا ہوگا اور مظلوموں کو خوف سے نکالنا ہوگا، انہیں نا اُمیدی سے نکال کر امید دلانی ہوگی، انہیں شعور اور بصیرت دینا ہوگی، انہیں ان منظم طاغوتوں اور مستکبروں کے مقابلے میں منظم اور اکٹھے کرنا ہوگا۔
ایک مسلسل تلاش اور جدوجہد کی ضرورت ہے اس میں آرام نہیں ہے، اس میں رنج اور تکلیف و درد ہے، مشکلات ہیں۔’’مااذی نبی قط بمثل ما اذیت‘‘ ہمارے آخری نبی فرماتے ہیں :جتنی مجھے اذیتیں دی گئیں، کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔
مظلوموں اور محروموں کوبیدار کرنا اور انہیں منظم کرکے طاقتور بنانا یہ فقط مسلسل تلاش اور جدوجہد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ ان عالمی استکباری قوتوں کو شکست دینے کے لیے مسلسل کوشش کرنی پڑے گی۔
اللہ کے وعدہ کے مطابق یہ زمین ہماری ہے، یہ اللہ کی سنت اور قانون ہے لیکن شرط یہ ہے اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔

اب دیکھتے ہیں کہ قرآن ان لوگوں کے بارے میں کیا بیان فرماتا ہے جو ظالموں کے مقابلے میں نہیں اُٹھتے اور خاموش گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں؟ ان کے بارے میں قرآن کا بیان یہ ہے :
الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًا(سورہ نساء۔آیت۹۷ )
جب موت کے فرشتے ان کی روح کو قبض کریں گے تو وہ اپنے آپ کو ظالم پائیں گے۔ ان سے سوال کیا جائےگا کہ تم کس حال میں رہے ہو؟ کیسے تم نے اپنی عمر گذاری ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کہ جس جگہ ہم رہتے تھے وہاں ہم کمزور اور مستضعف تھے کچھ نہیں کر سکتے تھے تو پوچھا جائے گا: اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم ہجرت کرجاتے۔ اب جہنم میں جاو یہی تمہارا ٹھکانہ ہے۔ پس وہ مظلوم جو ظالموں کے مقابلے میں قیام نہ کریں اور بے چارے بن کر رہیں تو وہ خدا کی بارگاہ میں مجرم ہیں ہر حال میں قیام کرنا ہو گا۔ آپ لبنان کو دیکھیں جہاں بارہ لاکھ شیعوں نے قیام کیا ایک زمانے میں وہ بھی مظلوم اور مستضعف تھے لیکن جب انہیں شعور دلایا گیا، احساس مسئولیت دلائی گئی اور ان کے دلوں میں امید ڈالی گئی تو وہ بیدار ہوئے اورجب عالمی استکباری قوتوں کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے تو انہوں نے اسسرائیل کو بھی شکست دی اور شام میں تراسی (۸۳) ملکوں کے اڑھائی لاکھ دہشت گردوں کو بھی شکست سے دوچار کر دیا اور عالمی استکباری قوتوں کی ناک میں دم کر کے رکھ دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here