معرفت خط امام خمینی
(حصہ اول)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

{قل انما اعظکم بواحدۃٍان تقوموا للہ مثنیٰ وفرادیٰ}
کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کیلئے ایک ایک دو دو کر کے قیام کرو(سورہ ٔ سباء :آیت ۴۶)

خط اور راستہ:

ہر انسان کا زندگی میں کوئی نہ کوئی خط ضرور ہوتا ہے، خط سے کوئی شخص خالی نہیں ہوتا بالخصوص وہ افراد جو ہدف اور مقصد رکھتے ہیں اور ہدف اور مقصد کو سمجھتے ہیں، اس مقصد تک پہنچنے کیلئے کوئی خط، کوئی راستہ ہونا چاہیے، کسی بھی آئیڈیالوجی میں اس مقصد کا انتخاب کیا جاتا ہے، کسی نظریے کے تحت مقصد کا انتخاب کیاجاتاہے، لہٰذا جن کی منزل دنیا ہے جن کی منزل خواہشات نفسانی کا حصول ہے، جن کی منزل دنیا میں طاقتور بننا ہے وہ بھی ایک خط اورایک راستہ رکھتے ہیں، حتیٰ مادی زندگی، کاروبار بزنس وغیرہ میں بھی خط اور راستہ مد نظر ہوتا ہے۔
اور وہ لوگ جو معنوی اور عالی ترین اہداف اورمقاصدرکھتے ہیں ان کے لیے بھی ایک خط اور راستے کا ہونا ضروری ہے، قرآن مجید میں لفظ صراط،لفظ سبیل ،لفظ طریق ،انہی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں، اہدنا الصراط المستقیم ہمیں خط مستقیم (سیدھے راستے) کی طرف رہنمائی فرما۔ سبیل اللہ ،اللہ کا راستہ ،اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ ،قرآن مجیدمیں جوالفاظ راستے کے معنی میںاستعمال ہوئے ہیں وہ طریق کے معنی میں ہی استعمال ہوئے ہیں وہ سارے کے سارے مفہوم خط میں مندرج ہیں۔

خط امام کیا ہے؟

سوال یہ ہے کہ خط امام خمینیؒ کیا ہے؟ خط امام خمینی ؒ جو کہتے ہیں، اس لفظ میں عمومیت ہے، اس میں امام خمینیؒ کے افکار ان کی آئیڈیالوجی (ideology)اور ان کے عملی طور طریقے کوزیر بحث لایا جائے گا۔ جب تک کسی چیز کا کوئی فائدہ یا نفع نہ ہو انسان اس کی طرف جذب نہیں ہوتا، اس کے پیچھے نہیں جاتا، چاہے مادی نفع ہویامعنوی۔
سوال یہ ہے کہ امام خمینیؒ کا خط ہی کیوں؟امام خمینیؒ کے افکار ہی کیوں؟ امام خمینیؒ کا طریقہ کار ہی کیوں زیربحث ہو؟کیا خصوصیت ہے امام خمینیؒ میں اور امام خمینیؒ کے افکار میں؟
امام خمینیؒ مختلف حوالوں سے ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میںگفتگو ہونی چاہیے، آج کارل مارکس (Karl Marx)کے بارے میں جبکہ کمیونزم (communism) دفن ہوچکا ہے، گفتگو ہوتی ہے ،لینن (lenin)کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے، بڑے بڑے مفکرین کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ،جنہوں نے معاشرے کی اجتماعی زندگی پر اثرات چھوڑے ہیں، سیاسی زندگی پر اثرات چھوڑے ہیں، سماجی زندگی پر اثرات مرتب کئے ہیں، معاشرے میں تبدیلیوں کاذریعہ اور سبب بنے ہیں ان کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔
کیا ہم امام خمینیؒ کو ماضی کی شخصیت کے حوالے سے مورد بحث قرار دیں کہ ایک عظیم شخصیت گزری ہے لہٰذا ان کے بارے میں گفتگو کرنی چاہیے یانہیں؟ امام خمینیؒ کی شخصیت ایسی نہیں ہے ،جو بالکل فنا ہوگئی ہو ،پرانی ہوگئی ہو اور آئوٹ آف ڈیٹ (out of date)ہوگئی ہو ،نہیں،بلکہ امام خمینیؒ جہاں ماضی کے رہنما تھے وہیں حال اور مستقبل کے بھی رہنما اور لیڈر (Leader) ہیں، بہت سی شخصیات کاتاریخی حوالے سے مطالعہ کریں، بڑی شخصیات جو گزری ہیں ان کی بائیو گرافی پڑھ لیں، ان کے افکار و نظریات پڑھ لیں اور پھر امام خمینی ؒ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو امام خمینی ؒ اور دوسروں میں فرق واضح ہو جائے گا۔

امام خمینیؒ ایک آفاقی شخصیت:

امام خمینیؒ کی شخصیت میں کچھ خصوصیات ہیں، وہ ہمیں آفاقی بنا دیتے ہیں، ان کے افکار آفاقی، ان کے نظریات آفاقی، ان کا طریقہ کار آفاقی، ان کے اہداف آفاقی، یہ افکار،یہ آئیڈیالوجی (ideology)، یہ نظریات، یہ اجزاء ،یہ سیرو سلوک ،یہ عملی سیرت،یہ سب امام خمینیؒ کو زمان و مکان کی قید سے آزاد کرتے ہیں، یہ ایرانی شخصیت ہے؛ ایسا نہیں ،وہ ایک آفاقی شخصیت ہے،ایک ایسی شخصیت نہیں ہے جو ایک محدود وقت کیلئے ہو یا کسی خاص جگہ کیلئے ہو۔

شرق و غرب میں دنیا کی تقسیم اور امام خمینیؒ کا قیام:

امام خمینیؒ نے اس وقت قیام کیا جب پوری دنیا پر روس اور امریکہ کا قبضہ تھا، دنیا دو قطبی تھی، تقریباً یہ تسلیم کرلیا گیا تھاکہ اگر ایسٹرن(Eastern Bloc)بلاک میں رہناہے تو (Russia) کے ساتھ رہناہوگا اور اگرویسٹرن بلاک(Western Bloc) میں جانا ہے تو امریکہ کے ساتھ رہناہوگا،اگرچہ اس دوران غیروابستہ ممالک کی کانفرنس وجود میں آئی لیکن وہ بھی کسی نہ کسی طرح سے انہی بلاکوں کے اندرمنقسم تھی، دونوں بلاکوں کی خصوصیت کیا تھی؟
ایک بلاک کی قیادت کمیونزم (Communism)کے ہاتھ میں تھی اور دوسرے بلاک کو لبرل ازم(Liberalism) لیڈ کر رہا تھا، دونوں بلاکوں اوردونوں نظاموں کی خصوصیات کیا تھیں؟ دونوں نظاموں میں نہ دین تھا اور نہ خدا ،نہ سسٹم کے اندر نہ سوسائٹی کے اندر. کمیونزم (Communism) بھی ضد دین تھا اور ضد خدا اسی طرح لبرل ازم (Liberalism) بھی ضد دین اور ضد خدا تھا۔ لبرل پولیٹیکل سائنس (Liberal Political Science)، لبرل سوشیالوجی(Liberal Sociology)، لبرل لاء(Liberal Law)، لبرل مورلز(liberal Morals)اور لبرل ایجوکیشن پریفرنس (Liberal Education Preference) جس میں خدا بھی نہیں تھااور دین بھی نہیں تھا۔ البتہ دونوں میں ایک چیز مشترک تھی، کمیونزم (Communism)بھی ضد دین تھا اور ضد خدا تھا لبرل ازم (Liberalism)بھی ضد دین اور ضد خدا تھا. پوری دنیا ضد دین اور ضد خدا قوتوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ پوری دنیا اپنے آپ کو خدا کا بندہ نہیں کہتی تھی حقیقت میں وہ انہی کے بندے تھے۔ ان حالات میں بشریت اور انسانیت کو اس کی فطرت کے خلاف ہانکا جا رہا تھا اور امام خمینیؒ چاہتے تھے کہ انسان کا رُخ فطرت کی طرف ہو، یعنی توحید اور خدا کی طرف ہو جائے۔ وہ نظام ان کو خدا اور دین سے دور لے گئے تھے، ان کا تشخص، ان کی شناخت ِتوحیداور فطرت ،ان سے چھین لی گئی تھی لہٰذاان حالات میں امام خمینیؒ کیا کرتے ہیں؟امام نے فقط شاہ کے خلاف نہیں ،بلکہ اس سسٹم کے خلاف قیام کیا جو ضدِ دین اور ضدِ خدا تھا۔ اس کے مقابلے میں پرچم توحید بلند کیا،دین اور خدا کے نام پر قیام کیاتاکہ بشریت کو دین، خدا، قرآن، اسلام اور فطرت کی طرف پلٹایا جا سکے۔
امام خمینیؒ نے اس وقت قیام کیا جب عالمی استکباری قوتیں اپنی پوری گزشتہ تاریخ کے حوالے سے اپنی طاقت کے عروج پر تھیں، امکانات، وسائل، ہر لحاظ سے ان کا نظام بہت مضبوط تھا، ان کے پاس اسلحہ بہت زیادہ تھا، ذرائع ابلاغ کے وسائل وافر تھے، ان کا نفوذ بہت زیادہ تھا، کسی چیزکی ان کے پاس کمی نہیں تھی ،وہ دنیا کے کاروبار کے مالک تھے ، ہر لحاظ سے قوی اور طاقتور تھے، انرجی کے تمام ذخائر پر یا تو روس کا قبضہ تھا یا امریکہ کا، ذرائع ابلاغ ان کے کنٹرول میں تھے، تحریکیں چل رہی تھیں، بعض اوقات ان حالات سے نکلنے کیلئے بھی کوششیں ہوئیں ہیں لیکن وہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں، ان کا اثر ایک علاقے تک محدود تھا، وہ ختم ہوگیاان کی کوششیں بھی ختم ہو گئیں، مختلف کوششیں ہوتی رہیں، کبھی بایاں بازو(Left Wing) وجود میں آیا کبھی دایاں بازو(Right Wing) وجود میں آیا، کبھی علماء نے کوششیں کیں، کبھی قوم پرستوں نے کوششیں کیں، بالآخر کوششیں ہوتی رہیں لیکن ان میں ایسی کوشش نہیں کی گئی کہ عالمی استکباری نظام سے بشریت کو نجات دلانے میں کامیابی ہو۔ کبھی وہ مصرجاتے ہیں اور اپنی مشکلات کے حل کے لئے پان عریبک (Ban Arabic)، عرب نیشنلزم (Arab Nationalism)کے اوپر جمال عبد الناصر کے ساتھ لوگ جمع ہو گئے لیکن وہ ان مشکلات کو حل نہ کر سکے. فلسطین کی جدوجہد کو عرب قوم پرستوں پر ڈال دیا گیا جو ٹوٹ گئے اورراستے سے منحرف ہوگئے. قوم پرستوں کی تحریکیں چلتی رہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہو ئے جن کے سیاسی اہداف کچھ اور تھے، یہ بہت ہی خطرناک چیزتھی، جب بھی کوئی ایسی تحریک چلی جو معاشرے میں تبدیلیاں لانا چاہ رہی ہوتو اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے تھے جن کے سیاسی مفادات اورمقاصد تھے وہ لوگ اس تحریک کو جذب کر کے اس کو منحرف اور ہائی جیک کر نے کی کوشش کرتے تھے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں کتنی ایسی تحریکیں چلی ہیں جو شروع میں پاکباز اور مقدس تھیں لیکن بعد میں منحرف ہوگئیں، اس میں ایسے لوگ گھس آئے جو ان افکار و نظریات کے مالک نہیں تھے، ہمارے ہی زمانے میں دیکھیں لبنان میں ’’تحریک‘‘ سرگرم عمل تھی، آیۃ اللہ موسیٰ صدرؓ کو جب اغوا کرلیا گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے منحرف ہو گئی جس کے نتیجے میں وہاں کے لوگ مجبور ہوئے اور حزب اللہ کی شکل میں دوبارہ تحریک بنائی گئی۔
پاکستان میں آپ دیکھیں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی تحریک کن مشکلات اور مصائب سے دو چار ہوئی ،ایران کے اندر مشروطہ (مشروطیت) ایک تحریک تھی جس کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور آیت اللہ فضل اللہ کو پھانسی پہ چڑھا دیا گیا، عراق میں آیت اللہ شیرازی کی تحریک تھی۔ ایران میں آیت اللہ کاشانی اور ڈاکٹر مصدق نے تحریک شروع کی، بعد میں آیت اللہ کاشانی کو علیحدہ کردیا گیا اور ڈاکٹر مصدق تحریک پر قابض ہو گیا اور وہ شاہ کو دوبارہ اقتدار میں لے آیا، جب مختلف تنظیمیں میدان عمل میں آتی ہیں تو پھر کسی کو راستے میں کچل دیا جاتاہے،کسی کو منحرف کر دیا جاتا ہے لیکن امام خمینیؒ کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے جوہمارے لئے کامل نمونۂ عمل ہے، یہ تحریک ایک سوچ اور فکر ہے، آپ دیکھیں گزشتہ تیس بتیس سال کے اندر دشمن نے کتنی کوشش کی کہ اس تحریک کو کچل دیا جائے، اندر سے کھوکھلا کیا جائے، بیرونی دبائو ڈالا جائے لیکن وہ اس تحریک کو ختم نہیں کرسکے، اس کا راستہ نہیں روک سکے لہٰذا امام خمینیؒ نے اس وقت قیام کیا جب دنیا میں مایوسی تھی، نا اُمیدی تھی، لوگ آواز نہیں اٹھاتے تھے، اگر کوئی بولتا بھی تھا تو نقارخانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتاتھا، لوگ ساتھ نہیں دیتے تھے، علماء کرام گھروں میں بیٹھے رہتے تھے، شخصیات جیلوں میں چلی جاتی تھیں یا مار دی جاتی تھیں، لوگ بیدار نہیں ہوتے تھے، بالآخر امام خمینیؒ نے ان حالات میں پرچم اسلام بلند کیا تاکہ لوگوں کو دوبارہ دین کی طرف لایا جائے، خدا کی طرف لایا جائے، میں یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں، امام خمینیؒ خود ارشاد فرماتے ہیں ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ شاہ کی حکومت کو ختم کریں اور اس کی جگہ اپنی حکومت لے آئیں بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ دین کا احیاء کیا جائے، اسلام کو زندہ کیا جائے، دین کے قانون کو نافذ کیا جائے، اسلام کو نافذ کیا جائے، معاشرے میں خدا کو واپس لایا جائے، ان حالات میں امامؒ نے پرچم اُٹھایا، مختلف نشیب و فراز سے گزرے، سختیوں سے گزرے اور ایک عظیم انقلاب وجود میں آیا، جس میں جلاوطنی ، جس میں جیلیں ، جن میں ہجرت ، مشکلات ہیں، سختیاں بھی ہیں، اپنوں کی طرف سے بھی مشکلات ہیں، غیروں کی طرف سے بھی مشکلات ہیں، ہر طرح کی مشکلات سے امام خمینیؒ گزرے اور ایک عظیم انقلاب کو وجود بخشا، جس نے پوری دنیا کے اندر اور تبدیلیوں کی بنیاد رکھ دی، جس کے نتیجے میں یہ فرضیہ غلط ثابت ہو گیا کہ دین افیون ہے، دین سُلا دیتا ہے ، دین گھروں میں بٹھا دیتا ہے ، نہیں دین سب سے زیادہ متحرک کرنے والا، میدان میں لے آنے والا، میدان میں ثابت قدم رکھنے والا دین ہے لہٰذا آپ نے دیکھا اس تحریک کے نتیجے میں شرق و غرب دونوں اس کے مقابلے میں آگئے، روس بھی اس کے مقابلے میں آگیا اور امریکہ بھی اس کے مقابلے میں آگیا، کیونکہ دونوں کے بنائے ہوئے نظاموں کو اس انقلاب نے چیلنج کیا اور پوری دنیا میں اس کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا، انٹرنیشنل ریلیشن(International Relation) کے حوالے سے ایک نیا طرز تفکر لا شرقیہ و لاغربیہ وجود میں آیا، انٹر نیشنل ریلیشن کے حوالے سے دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی، کچھ ملک روس کے ساتھ تھے ،کچھ امریکہ کے ساتھ تھے، یہ دونوں نظام درست نہیں تھے،اس لئے کہ دونوں جہان خوار، دونوں ظالم، استعمار ،استحصالی طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے، دونوں بے کار، دونوں ضد دین تھے، اس وقت اس عظیم انسان نے دنیا میں ان شیطانی قوتوں کے ساتھ مزاحمت اور مقاومت شروع کی اور ان کے بنائے ہوئے استکباری نظام کو شکست سے دو چار کر دیا ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here