امام خمینی کے مبارزے کےاہم اصول

۲۔ مستکبرین کو شکست دینا

امام خمینیؒ کے مبارزے کا دوسرا اصل مستکبرین کو شکست دینا ہے۔ فرماتے ہیں:

"ما اگرچنانچہ قدرت داشتہ باشیم، تمام مستکبرین را از بین خواھیم برد”۔

ہم کسی بھی مستکبر کو اس کرۂ ارض پر نہیں چھوڑیں گے انہیں ختم کر دیں گے۔ ہمارا مبارزہ ہمارا قیام اور جنگ مستکبرین کے خاتمے کی جنگ ہے جب تک مستکبر باقی ہے ان کی نابودی تک یہ قیام جاری ہے۔ قرآن مجید فرما رہا ہے:

’’فَقَاتِلُوا أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ‘‘ جو کفر کے پیشوا ہیں ان کے ساتھ قتال اور مبارزہ کرو (سورہ توبہ آیت ۱۲)

یہ مبارزہ اور قیام فقط ان کے چھوٹے چیلے اور کارندوں تک محدود نہیں رہتا ہے۔ لہٰذا جب ہم عالمی استکباری قوتوں کے خلاف اٹھتے ہیں تو ہم مردہ باد امریکا کہتے ہیں اس لئے کہ یہ قرآن کی تعلیم ہے "فقاتلوا آئمۃ الکفر” کیا امریکا کفر کا پیشوا اور لیڈرنہیں ہے؟ کیا یہ عالمی استکباری قوت نہیں ہے؟ ہمیں ان سے ٹکرانا ہے اور ان سے ٹکرانے کی تیار ی کرنی ہے۔ سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ اسی دوسرے اصل کو بنیاد بنا کر ہمیں عالمی استکباری قوتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اگر ہم ان کے آلۂ کاروں کے ساتھ مقابلہ کریں گے تو وہ محفوظ رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں پہلے ان کے سرغنوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے پاکستان کو عالمی استکباری قوتوں کے تسلط سے نکالنے کی جدوجہد کرنا ہے تو ہمیں پہلے امریکہ کے اثر کو ختم کرنا ہوگا۔جب امریکہ کا اثر اور نفوذ ختم ہو گا تو ان کے آلۂ کار اور چیلوں کا اثر خود بخود ختم ہوجائے گا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔لہٰذا ہمیں عالمی استکبار کی لیڈر شپ کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اور بھی بہت ساری آیات ہیں کہ جو بیان کرتی ہیں کہ ان عالمی استکباری طاقتوں سے مبارزہ کرتے رہناہے۔ جیسے ارشاد ہو رہا ہے:

"یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ”

اے ایمان والو! یہود اور نصاری کو اپنا دوست مت بناو یہ ایک دوسرے کے دوست تو بن سکتے ہیں لیکن تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ پس اگر تم میں سے جو بھی انہیں اپنا دوست اور سرپرست بنائے گا وہ انہیں میں سے ہو گا اور خدا ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا۔(سورہ مائدہ آیت ۵۱)

ہاں خرید و فروخت ہو سکتی ہے وہ گاڑی بیچیں تو آپ ان سے گاڑی خرید سکتے ہیں ۔لیکن ان کے لئے دل میں جگہ پیدا نہیں کرسکتے ۔

"یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ”

ولی کے معنی ممکن ہے دو ہوں ایک یہ کہ انہیں اپنا سرپرست نہ بناو دوسرا انہیں اپنا دوست مت بناو۔ یعنی تمہارے دل میں ان کے لئے محبت کے جذبات نہیں ہونے چاہیے وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں لیکن تمہارے دوست نہیں ہیں۔

"وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ”

تم میں سے جو بھی انہیں اپنا دوست بنائے گا وہ انہیں میں سے ہوگا۔ آپ بتائیں ہمارے حکمران ان سے دوستی کرتے ہیں یا ٹکراتے ہیں؟ یہ کیوں ٹکرائیں اس لئے کہ یہ انہیں کے بچے ہیں اور یہود و نصاریٰ نے پال کر ان کو ہم پر مسلط کیا ہے۔

دوسری آیت:

"ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِ” (سورہ ٔممتحنہ،آیت۱)

اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ "تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ” تم ان کی طرف Smile دے کر ہاتھ بڑھاتے ہو جب کہ انہوں نے اُس حق کا انکار کیا ہے جو تمہاری طرف آیا ہے؟ البتہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اگر کوئی یہودی یا عیسائی جو مظلوم ہے یا مشکل کاشکار ہو تو اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here