شرعی ذمہ داری کی ادائیگی

موضوعات:

۱۔ کیسے خود سپردگی حاصل ہو

۲۔ اسلام کے معنی

۳۔ واجب الاطاعۃ ولی کی صفات

۴۔ کیسے اطاعت حاصل ہو

۵۔ ولی فقیہ کی اہمیت

۶۔ سعادت اور نجات کے اسباب

خود سپردگی کی اہمیت :

اداء تکلیف: رسول خدا ﷺ اس لیے لائے کہ بشر کو جاھلیت کے تالابوں سے نکال عزت اور طہارت الٰہیہ کے سر چشموں تک پہنچا دیں اور انہیں نورالہٰی و صراط مستقیم کی ہدایت کریں۔ اس کاروان میں نبی اکرم ؐ میں بہت سے سلیم الفطرت افراد شامل ہو گئے اور نسیم حق نے ان کے قلوب سے غفلت کے غبار اور گناھوں کی میل کچیل دھو ڈالی ۔اس وقت کوئی بھی صرف کلمہ طیبہ پڑھ کر بد بختی و خسرا ن سے نکل کر اس جدید معاشرے میں داخل ہو سکتا تھا جسے خداوند نے رفعت و بلندی عطاء کی اور اسے اسلام کا نام عطا کیا اور فرمایا: ’’ان الدین عند اللہ الا سلام‘‘۔ (العمران ۱۹)

 اسلام کے کیا معنی ہیں ؟

اسلام اس لیے آیا ہے تاکہ خداوند کے مخلص بندے ان لوگوں سے الگ و ممتاز ہو سکیں جو راہ راست سے منحرف و گمراہ ہیں کہ جنہیں شیطان نے گمراہ کیا اور وہ اس کے مقابلہ سے کمزور و عاجز ہو گئے ۔ یہ لوگ دو قسم کےہیں ۔

ایک قسم وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کو مکمل طور پر چھوڑ کہ خدا اور اس کے انبیاء کی دشمنی کا راستہ اختیار کیا۔ ایسے لوگ تاریخ میں بہت زیادہ تھے اور یہ انبیاء و الیاء کے مکان تک چلے گئے ۔اور دوسری قسم وہ لوگ تھے جنہوں نے دین کا کچھ حصہ لے لیا اور جو ان کی خواہشات سے متصادم تھا اسے چھوڑ دیا۔ یعنی انہوں نے دین سے صرف وہی حصہ قبول کیا جو ان کی خواہشات کے خلاف نہیں تھا اور باقی چھوڑ دیا خداوند نے انہیں قرآن میں کافر شمار کیاہے ۔اور یو ں تنبیہ کی: ’’و یقولُون نومن ببعض و نکفر ببعض یریدون ان یتخذوا بین ذلک سبیلا اولُک ھم الکافرون حقا و اعتدنا للکافرین عذابا مھینا‘‘۔(نساء ۱۰۲/ ۱۰۳)

اور وہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے ، وہ چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کا راستہ اپنائیں. یہی لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے انہیں کافروں کے لیے تحقیر کرنے والا عذاب تیار کیا ہے۔ اسکے مقابل خداوند کے مخلص بندے وہ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے رسول کے سپرد کر دیاہے خداوند ارشاد فرماتا ہے:

"فلا و ربک لایومنون حتی یحکمواک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت و سلموا تسلیما”.ً (نساء ۶۵)

نہیں قطعا نہیں وہ ایمان دار نہیں ہو سکتے، یہاں تک کہ وہ آپ کو (اے رسول) اپنے جھگڑوں میں فیصلہ مان لیں ۔پھر آپ کے فیصلے پر کوئی تنگی محسوس نہ کریں ۔اور مکمل طور پر اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دیں ۔جو خود سپردگی کرتاہے۔ وہ حقیقی مومن ہے اور قیامت کے دن کامیاب ہے۔ اس خاطر اسلا م کو اسلام کہاجاتاہے کہ مسلمان امر خدا کے سامنے تسلیم ہو تا ہے اور بہت سی روایات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہواہے ۔حضرت امیر المومنین ؑ نے فرمایا : ’’الاسلام ھو التسلیم ‘‘. (کافی ج ۲ ص ۴۰)

رسول خدا ﷺنے فرمایا: ’’حسن التسلیم لامراللہ‘‘. (میزان الحکمۃ ج ۱ ص ۱۹۱)

ایمان کی اصل امر خدا کے سامنے حسن تسلیم ہے ۔

تسلیم کیسے حاصل ہو؟

تسلیم یعنی شریعت کے تمام احکام کو ملتزم ہونا ہے اور اس پر ایمان لا کر عمل کرنا ہے۔چاہے انسان کی خواہشات کے مطابق ہو یا مخالف، اسی روایت میںحضرت امیر المومنین ؑ نے فرمایا: ’’الاسلام ھو التسلیم والتسلیم ھو الیقین والیقین ھو التصدیق والتصدیق ھو الاقرار والاقرار ھو الاداء والادا ء ھوالعمل الصالح‘‘.

ہم اپنی شرعی تکلیف کیسے ادا کریں؟

تکلیف کی ادئیگی دو طرح سے ہے۔

الف: شریعت کےثابت احکام

ان پر عمل ضروری ہے جیسے نماز، روزہ، زکاۃ، خمس اور جہاد ۔

ب: مصالح و مفاسد

ان امور کی بناء پر حکم لگانا، شرعی قائد و رھبر کا کام ہے جو ان مصالح و مفاسد کی تشخیص کی قدرت رکھتا ہے تا کہ شریعت کی روح کے مطابق حکم جاری کر سکے اسی وجہ سے اسکی اطاعت واجب ہے۔ خداوند کا ارشاد ہے:

"یا ایھاالذین آمنو ا اطیعو اللہ وااطیعو الرسول و اولی الامر منکم”. (نساء ۵۹)

واجب الاطاعت ولی امر کون ہے؟

اس اوپر والی آیت میں ان ھستیوں کا بیان ہوا ہے جنکی اطاعت واجب ہے۔ رسوال خدا ﷺ بالا شبہ وہ ھستی ہیں جو مصالح و مفاسد کی تشخیص دے سکتے تھے اور امت اسلامی کے قائد و رہبر تھے ان کے بعد امیر المومنین امر خدا کے ساتھ اس منصب پر فائز ہوئے۔ پھر ان کے بعد ایک امام کے بعد دوسرا آتا رہا یہ سب ولی امر تھے اس امت میں یہاں تک کہ ولی امر حجت المنتظر کی غیبت ہو گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی غیبت کی مدت میں ان کی نیابت میں کون ولی امر ہے جس کے اطراف میں لوگ جمع ہوں اور وہ وظائف ادا ہو سکیں ؟

ولی فقیہ :

وہ شخصیت کہ غیبت کے دوران جس کے اطراف میں جمع ہو کر اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت لوگوں پر واجب ہے۔ آئمہ معصومین نے جامع شرائط فقیہ کو قرار دیا ہے۔ روایات میں یہ چیز بہت کھول کر بیان کی گئی ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’فاتنی قد جعلتہ علیکم حاکما فاذا حکم بحکنا فلم یقبل منہ فانما اسحف بحکم اللہ و علینا رد والراد علینا کالراد علی اللہ‘‘۔ (اصول کافی، ج۱، ص۴۷)

بے شک میں اسے تم پر حاکم بنایا ہے اگر وہ ہمارے حکم کے مطابق حکم کرے اور اس کا حکم نہ مانا چائے تو یہ حکم کی تحقیر ہے اور ہمارے اوپر رد ہے اور جس نے ہمیں رد کیا اس نے خدا کو رد کیا۔

اور شریعت اگر ہمیں کسی کی اطاعت کا حکم دیتی ہے تو یہ ہمارے فائدے میں ہی ہے جیسا کہ رسول خدا ﷺ سے روایت میں آیاہے: ’’اسمعوا واطیعو عن ولاۃ اللہ فانہ نظام الاسلام‘‘۔ (بحارالانوار، ج۲۳، ص ۳۹۸) اسے سنو اور اسکی اطاعت کرو جسے خداوند نے ولایت عطا کی ہے یہی اسلام کا نظام ہے۔

تسلیم راہ جنت :

مومن انسان کو اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور انسان کو آخرت میں جو پھل ملے گا وہ اس کے اسی دنیا میں عمل کا نتیجہ ہو گا۔ لہذا اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا خاص قیمت رکھتا ہے کیونکہ یہ انسان کو صحیح و سالم آخرت کی ضمانت دیتاہے ۔امام صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

’’کل من تمسک بالعروۃ الوثقی فہوناج قلت و ما ھی؟ قال:”التسلیم‘‘ (بحارالانوار ج۲، ص۲۰۴)

جس نے عروۃ االوثقی سے تمسک کر لیا اس نے نجات پا لی ۔ میں نے پوچھا عروہ وثقی کیا ہے ؟ تو فرمایا یہ تسلیم ہے ۔پس تسلیم سبب نجات ہے ۔

راہ کامیابی :

ایک صحیح شرعی قیادت کو قبول کرنے کا فائدہ آخرت سے پہلے اس دنیا میں ظاھر ہو جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف امت کی کوششوں میں وحدت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسری طرف سے کامیابی و عزت ملتی ہے اور خدا وند نے بھی اسی وجہ سے نصرت عطاکی کہ ہم ایک واجب الاطاعۃ ولی کے احکام کے تابع تھے وہ فرماتا ہے:

"ولینصرن اللہ من ینصرہ (حج ۴)و من یتول اللہ و رسولہ و الذین آمنوا فان حزب اللہ ھم الغالبون”۔ (مائدہ ۵۶)

خداوند اس کی مدد کرتا ہے جو خدا کی مدد کرے۔ جو خدا اور اس کے رسول ؐ کی اور مومنین کی ولایت رکھتا ہے بے شک حزب خدا ہی کامیاب ہے۔

 

ولایت کی اطاعت یوں ہوتی ہے

جنگ صفین میں امیر المومنین اور معاویہ کے لشکروں کے درمیان شدت کی جنگ ہوئی۔ یہ جنگ انیس ماہ تک جاری رہی، لشکر شام سے نوے ہزار لوگ مارے گئے اور لشکر امام ؑ سے بیس ہزار افراد شہید ہوئے۔ لشکر امام ؑ معاویہ کے خیمے تک پہنچ گیا، کامیابی و نصرت قریب تھی۔ معاویہ کے سر پر خطرہ منڈلا رہا تھا۔ وہ مقابلہ کے قابل نہ رہا تو اس نے مکر و دھوکہ کا راستہ اپنایا، اس نے اپنے اصحاب کو حکم دیا قرآن نیزوں پر باندھ کر باھر نکلو۔ پانچ سو قرآن نیزوں پر باندھ کر وہ اھل عراق کو جنگ ختم کر کے قرآن کو حکیم بنانے کی دھائی دینے لگے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا یہ کلمہ حق بول کر اس سے باطل مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، صرف ایک گھنٹے کی بات ہے اپنی تلواریں اس طرح نیام سے باہر رکھو حق اپنے مقام تک پہنچ رہا ہے اور ظالموں کی بیخ کنی ہونے والی ہے۔ لیکن حضرت کے ہی لشکر سے لگ بھگ بیس ہزار افراد جو بعد میں خوراج بنے تلواریں لے کر آ گئے اور کہا اے علی اپنے لشکر سے کہو قرآن کا فیصلہ مان لیں ورنہ ہم تمہیں قتل کر دے گے۔ اس وقت مالک اشتر خیمہ معاویہ میں پہنچ چکے تھے، وہ لوگ علی ؑ پر چیخے اے علی مالک کو پیغام بھیجو کہ وہ رک جائے، حضرت نے قاصد بھیجا اس نے جا کر مالک کو پوری صورتحال بتائی، مالک کہتا ہے کاش تھوڑا سا وقت مل جاتا تو وہ معایہ اور اس کے لشکر کو ختم کر دیتا لیکن وہ ولایت کا پیروکار تھا اس نے اسی وقت جنگ سے ہاتھ روک لیا اور واپس آگیا۔ اس کے بر عکس خوارج ولایت سے خارج ہو گئے ۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آج تک آئمہ کی حکومت و ولایت جاری ہوتی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here