فہم قرآن (2) سورۃ الفاتحۃ
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

فہم قرآن کی اہمیت اور مراحل
حدیث ثقلین میں ارشاد ہے کہ جب تک آپ قرآن اور اہلیبت علیہم السلام سے متمسک رہو گے تم میرے بعد کبھی گمراہی کا شکار نہیں ہو گے۔ میری عطرت اہل بیت علیہ السلام اور قرآن کبھی ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ یہ حوضِ کوثر میں میرے ساتھ اکھٹے نہیں ہونگے۔ قرآن سے تمسک کیسے کیا جائے کب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص قرآن کے ساتھ متمسک ہے؟ قرآن کریم سے متمسک ہونے کا پہلا قدم تلاوتِ قرآنِ پاک ہے۔
قرآن مجید میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئ ہے۔ اللہ نے اپنے حبیب کی بعثت کا تذکرہ جب قرآن مجید میں آیات کی شکل میں بیان کیا تب ارشاد فرمایا: جو اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ سورہ مزمل میں ارشاد ہے کہ قرآن کی تلاوت کرو، قرآن کو پڑھو جتنا تمہارے لئے میسر اور ممکن ہے۔ پہلا مرحلہ قرآن سے تمسک رہنے کے لئے قرآن کی تلاوت کرنا ہے اور دوسرا مرحلہ ہے قرآن مجید میں تدبر کرنا، غور و فکر کرنا اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ہے۔ جو فہمِ قرآن کی منزل تک نہیں پہنچا وہ قرآن سے متمسک نہیں ہو سکتا ہے۔ فہمِ قرآن، قرآن کی آیات پر غور و فکر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ لہذٰا ہم ماہِ رمضان کی مناسبت سے جس کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ ہر شی کی کوئی بہار ہوتی ہے اور قرآن کی بہار ماہِ رمضان ہے۔ لہذٰا جہاں اس مہینے میں ہم قرآن کی تلاوت کریں گے اور تلاوت قرآن میں اگر کوئی ایک آیت بھی پڑھتا ہے گویا اُس نے ختمِ قرآن کر لیا۔ جہاں ہم تلاوت قرآن میں توجہ دیں گے اُسی حساب سے ہم قرآن مجید کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں گے اور اس پر غورو فکر بھی کریں گے اور فہمِ قرآن پر توجہ دینگے۔
سورہ فاتحہ کی اہمیت
قرآن کی سب سے پہلی سورہ سورہِ فاتحہ ہے۔ حدیث کے اندر بھی ہے کہ تماز بغیر سورۃ الفاتحہ کے نہیں ہو سکتی ہے۔ انہیں احادیث اور روایات میں اسے فاتحۃ الکتاب کہا گیا ہے۔ جس سے کتاب کھلتی ہے اور کتاب شروع ہوتی ہے۔ اس نام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ قرآنِ مجید اللہ کے نبی نے خود مدون کیا تھا۔ اس کی تدوین خود کی تھی اور نبی کی ہی ترتیب ہے۔ جمع آوری اُن کے حکم سے ہوئی ہے۔ اس لئے قرآن کی پہلی سورہ کا نام بھی فاتحۃ الکتاب رکھا ہے۔ کتاب کو کھولنے والی سورہ۔ یعنی یہاں سے کتاب شروع ہورہی ہے۔ کتاب کی ابتدا ہورہی ہے۔ یہ سورہ وہ ہے کہ جس کے بارے میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی واجب نمازوں میں روزانہ دس بار اس کی تلاوت کرے۔ پنجگانہ نماز میں دس مرتبہ سورہ حمد کی قرائت کرے۔
رسول خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ سورہ الحمد قرآن کا سب سے بہترین سورہ ہے۔ جس نے اس کی ایک بار تلاوت کی اُس نے پوری قرآن ختم کیا۔ امام جعفرؑ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو اور یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مر گیا ہو اور ستر مرتبہ اس سورہ کو پڑھ کر اس کا ورد کریں اور وہ ٹھیک ہو جائے تو تعجب نہ کریں۔ یعنی اُس سورہ کے اندر شفا ہے۔ ستر مرتبہ اس سورہ کو پڑھ کر دم کر کے اگر مرا ہوا شخص زندہ ہو جائے تو تعجب نہ کریں۔
سورہ فاتحہ کے نام
اس سورہ کو فاتحۃ الکتاب کے علاہ اُم الکتاب بھی کہتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ سورہ حمد اسمِ اعظم ہے۔ اسے خلاصۃ القران بھی کہا گیا اور اسے سبعہ مثانی بھی کہا گیا ہے۔ سبعہ سے مراد یعنی سات ہیں۔ بسم اللہ سمیت اس کی سات آیات ہیں۔ مثانی اس لئے کہتے ہیں کہ اسے ہر نماز میں دو دفعہ پڑھتے ہیں یا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ سورہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ایک بار مکہ میں اور ایک بار مدینہ میں نازل ہوئی ہے سے۔ سبعہ مثانی کہا گیا ہے۔ سبعہ سے مراد سات اور مثانی سے مراد دو مرتبہ ہے۔ قرآن میں اللہ نے کہا کہ میں نے تمہیں سبعہ مثانی دی ہے۔
سورہ حمد کے مضامین
اس سورہ کے اندر جن مضامین کو بیان کیا گیا ہے وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس میں خدا کی حمد بجا لائی گئی ہے۔ دوسرا اس مین معاد اور آخرت کا تذکرہ ہے اور خدا کی بندگی کا تزکرہ ہے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگی گئی ہے۔ اس میں توحیدِ ذاتی کا بھی تذکرہ ہے اور توحیدِ افعالی کا بھی تذکرہ ہے۔ بندگی اور استعانت کا بھی تذکرہ ہے اور دعا بھی ہے۔ اس کے اندر خدا شناسی بھی ہے۔ خدا کی معرفت کے حوالے سے بھی گفتگو ہے اور قیامت کے حوالے سے بھی ذکر ہے۔ نبوت اور انبیاء کے بارے میں بھی ذکر ہے۔ خدا کے تین اصول معاد، نبوت، آخرت کے بارے میں ذکر ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسم
اسم، نام کو کہتے ہیں۔
اللہ
اللہ، یعنی خدا اُس ذات کا نام ہے جس میں تمام صفاتِ باکمال با ادب پائی جاتی ہیں۔ وہ ذات جس میں تمام کمالات موجود ہیں۔ اُس کو جب پکارا جاتا ہے تو لفظِ اللہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ اُس ذات کا نام ہے جو تمام صفاتِ کمال کی حامل ہے۔
الرحمن الرحیم
رحمن

رحمن، اللہ کی اُس رحمت کو بیان کرتا ہے جو لا متناہی ہے۔ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔
رحیم
رحیم، اللہ کی خاص رحمت کو بیان کرتا ہے۔رحمت سے رحمٰن بنا ہے اور رحیم بھی رحمت سے ہی بنا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں رحمٰن اس سے مراد خدا کی وہ رحمت اور وہ فیض الہی ہے جو تمام مخلوقات کو شامل ہوتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے میری رحمت ہر شی پر محیط ہے۔ تمام چیزوں کو وجود بخشنا، یہ بھی اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔
لہذٰا جتنی بھی مخلوقات ہیں اور انہیں وجود بخشا ہے وہ اللہ نے رحمٰن کی حثیت سے بخشا ہے۔ یہ جو رحمت ملی سب کو وہ اس لئے کہ اللہ رحمن ہے۔ جنت، جہنم، زمین، آسمان، انسان، حیوان، سورج، چاند، تمام کو وجود اللہ نے رحمٰن کی حیثیت سے بخشا ہے۔ اس میں عمومیت ہے۔ وسعت اور بحرِ بیقراں ہے۔
رحیم یہ وہ رحمت ہے جو انسانوں کے ساتھ خاص ہے اور یہ صفتِ مشبہہ ہے۔ اس میں رحیم یعنی رحمت میں تمام اور پائیداری پائی جائے، ہمشیگی پائی جائے۔ رحیم خاص ہے انسانوں کے ساتھ اور خاص کر مومینین کے ساتھ ہے۔
بسم اللہ میں ب کو بعض نے ابتدائیہ کہا ہے۔
شروع اللہ کے نام سے جو تمام صفاتِ کمال کی حامل ہے اور رحمٰن ہے یعنی جس نے تمام کائنات کو وجود بخشا ہے یعنی جس کی رحمت بحرِ بیقراں ہے جس میں عمومیت اور ہمیشگی ہے۔ رحیم جس کی رحمت ہمیشہ ہے اور وہ مومینین کے ساتھ خاص ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here