زمان شناسی کے باب میں دشمن اور رہبر کی شناخت کے بعد جو چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے وہ وقت کے تقاضے اور اس کی شناخت ہے۔ یہاں پر بنیادی سوال جو اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور اس عصر میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ جو منظم بھی ہے، ول پلینڈ ہے، بہترین امکانات اور وسائل کا حامل بھی ہے اس کا مقابلہ منظم ہوئے بغیر نہیں ہوسکتا۔اس صورتحال کے پیش نظر کوئی کہے میں گھر میں خاموش تماشائی بن کر بیٹھا رہونگا، بچ جاؤں گا، یہ اس کی خام خیالی ہے اور دشمن کا نقشہ بھی یہی ہے کہ ہم خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہیں، معاشرے میں ہمارا کوئی رول اور کردار نہ ہو۔ حملہ ہمہ جانبہ اور وسیع ہے، ہم سے ہماری نوجوان نسل چھینی جا رہی ہے، مختلف قسم کی دشمنیاں ہمارے ساتھ ہو رہی ہے۔

ان لوکل ریجنل (local regnal)اورعالمی (international)دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں منظم ہونا پڑے گا، بغیر منظم ہوئے یہ کام نہیں ہوسکتا،اور منظم بھی بہترین انداز میں ہونا ہے، اپنی تمام صلاحتیں اور استعدادوں کو جمع کرنا ہوگا، پھر ان کی پروگرامنگ کرنی ہوگی۔انہیں تقسیم کرنا ہوگا تاکہ مختلف ادارے وجود میں آئے، عالی ترین ادارے ڈولپ (develop)ہوں ، سسٹم ڈویلپ ہو، تا کہ ہم دشمن کا ہر میدان میں مقابلہ کر سکیں۔
یہ خطیر ذمہ داری بغیر منظم ہوئے، بغیر اکھٹا ہوئے، بغیر ٓآمادہ اور بغیر تیاری کے انجام نہیں دی جا سکتی۔

پاکستان میں ہم پانچ کروڑ سے زیادہ شیعہ ہیں لیکن بکھرے ہوئے ہیں اور منظم نہیں ہیں۔ لبنان میںٹوٹل شیعہ سترہ لاکھ ہیں۔ جب وہ بھی منظم نہیں تھے، صرف لاشیں دیتے رہے۔ انہوں نے ہزاروں شہیددئے ہیں۔ جب وہ منظم نہیں تھے توان کے بچے، بوڑھے، نوجوان اور خواتین ہزاروں کی تعدادمیں قتل ہوئے۔ ان کے شہداء کی فہرست بہت طولانی ہے جس میں معاشرے کی ہر صنف کے لوگ شامل ہیں لیکن جب وہ لوگ منظم ہونا شروع ہوئے ، بقول سید حسن نصر اللہ کے اسرائیل سے مقابلہ کرنے کے لئے ڈیڑھ سو لڑکے اٹھے تھے جن کی عمریں سولہ اور بائیس سال کے درمیان تھیں، عماد مغنیہ ساڑھے سولہ سال کا تھا، خودسید حسن نصراللہ ساڑھے اکیس سال کا تھا، ان ڈیڈھ سو کے منظم لشکر میں صرف دو یا تین بڑی عمر کے تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں اگر بات کریں تو ڈیڑھ سو لڑکے اٹھے تھے ان کا ہدف یہ تھا کہ قوم کو منظم کر کے اسرائیل کا مقابلہ کرے۔ سوچنے کا مقام ہے جن کے پاس نہ جہاز ہے نہ توپ و ٹینک ہیں اس اسرائیل کا مقابلہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس نے مصر ، اردن، شام اور پوری عرب دنیا کوگھنٹوں میں شکست دی ہے۔ لہذ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر داخلی یونیٹی پیدا کرنی ہوگی ہے، شیعوں کے درمیان یونیٹی پیدا کرنی ہو گی، شیعہ عیسائی، دروز اور سنی بھائیوں کے درمیان یونیٹی پیدا کرنی ہو گی تاکہ اپنی گراؤند میں اسٹیبلٹی(esteblity) لے کر آئیں اور صحیح معنوں میں دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ جب وہ اسرائیل سے لڑ رہے تھے، عیسائی بھی ان کے ساتھ تھے، سنی بھی، دروز بھی ان کے ساتھ تھا۔ لیکن مسلسل قربانیاں دیں اور شہید دئے۔

جب انہوں نے منظم ہو کر شہید دینا شروع کیا ان کا کام آگے بڑھنے لگا۔پہلے بھی شہید دیتے تھے لیکن کوئی نظم نہیں تھا، کوئی تنظیم نہیں تھی، ان سے استفادہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ البتہ وہ خون رنگ لایا۔ 2006 کی جو جنگ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ لڑی وہ منظم ہو کر لڑی، 33 دن میں اسرائیل کو شکست دی۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی کل تعداد 171 تھی، جن میں حزب اللہ کے علاوہ ، عیسائی، دروز، امل کے لوگ ، اہل سنت بھائی اور دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ عظیم کام بغیر نظم کے ممکن نہیں ہے۔ جب یہ لوگ منظم ہوئے اور اپنی داخلی گراونڈ اور پشت کو بھی مضبوط کیا، شیعہ سنی، عیسائی، دروز اور دوسرے لوگوں کے درمیان استورا روابط قائم کئے تا کہ کوئی پیٹھ پیچھے سے خنجر نہ مار سکے، وہ عالمی صہیونیزم اور استکباری طاقتوں سے ہر وادی میں مقابلہ کرنے کے قابل بن گئے۔ ہم نے بھی اس ملک کے اندر شیعوں کے درمیان داخلی یونیٹی، سنیوں کے درمیان داخلی یونیٹی، شیعہ سنی کے درمیان یونیٹی، پاکستانیوں کے درمیان، سکھ، ہندو، عیسائی سب کے درمیان یونیٹی پیدا کرنی ہے، اسٹیبل سوشل ریلیشن پیدا کرنے ہیں، تا کہ ان کے درمیان سوشل اسٹیبلیٹی آئے۔ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جسے ہم بغیر منظم ہوئے، بغیر پلیننگ کے، بغیر وقت دئے اور بغیر امکانات اور وسائل کے کسی قیمت پر انجام نہیں دے سکتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کوئی نہ ہونے والا کام ہو لیکن کوشش کی ضرورت ہے ، پلاننگ کی ضرورت ہے، منظم ہونے کی ضرورت ہے، اکھٹا ہونے کی ضرورت ہے، اگر یہ نہیں کریں گے دشمن اس سے استفادہ کرے گا ہماری پشت پر خنجر مارتا رہے گا،ہمیں الجھا کر رکھے گا۔ دشمن شیطان ہے اور شیطان کبھی بھی چین سے بیٹھنے والا نہیں ہے۔

اس بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے،اپنے وطن کو اس کی اسٹبلیٹی(esteblity) لوٹانے کے لئے، استقلال لوٹانے کے لئے، مضبوط گورننگ سسٹم (governing system)لانے کیلئے، تا کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی(role of law) ہو۔ دوسری اہم ذمہ ذمہ داری ایک مضبوط مرکزی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ جہاں بھی کمزور مرکزی حکومتیں ہوتیں ہیں وہاں حرج و مرج ہوتی ہے، اس کے لئے کمزور حکومتیں نقصان دہ ہوتیں ہیں جس سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈاکو ، راہزن، چور، قاتل آزاد اور شریف لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ ایک مضبوط سیاسی سسٹم ، سماجی سسٹم بغیر منظم ہوئے معرض وجود میں نہیں آ سکتا اس کے لئے ہمیں منظم اور متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here