ہم تین چار ایوانوں سے ویکٹم ہیں، مجلس وحدت مسلمین نے، وطن کے حوالے سے، اس کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اپنی قوم کو منظم کرنا شروع کیا ہے۔ہمیں ہر محاذ پر اپنے آپ کو تیاررکھنا ہوگا، ادارے ڈویلپ کرنے ہونگے تاکہ جہالت کا خاتمہ کر سکیں اور معاشرے کے اندر شیعہ کمیونٹی کو ایک مضبوط کمیونٹی میں بدل سکیں، کیونکہ ہمارا ایمان ہے شیعہ پاکستان کی دفاعی فرنٹ لائن ہے۔ اگر شیعہ کمزور ہیں تو پاکستان کا دفاع کمزور ہے، جب تک شیعہ طاقتور نہیں ہونگے اس ملک میں امن نہیں آئے گا۔ اس ملک میں چین نہیں آئے گا۔ تفرقہ نہیں مٹے گا۔ نفرتیں ختم نہیں ہونگی۔پہلے ہم نے طاقتور بننا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین طاقتور بننے کی کی طرف سفر کا آغاز ہے، منظم ہونے کی طرف سفرکی شروعات ہے۔ اسی لئے اس سال کو بڑی بڑی عظیم ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لئے میدان میں حاضر رہنے، طاقتور بننے ، آمادگی اور تیاری کا سال قرار دیا ہے ۔ اگر لبنان میں سترہ لاکھ شیعہ منظم ہو کر وہ عظیم کام کرسکتے ہیںتو ہم پاکستان میں پانچ کروڑ سے زیادہ شیعہ ہیںہم اس کام کو بدرجہ اتم اور بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

سید حسن نصراللہ نے ایک ملاقات میں کہا کہ ہم لبنا ن میں تھوڑے سے ہیں آپ پاکستان میں ایران کے بعد سب سے زیادہ شیعہ آبادی ہیں ، ہماری امیدیں آپ سے وابستہ ہیں۔ اگر آپ طاقتور ہو جاؤ، اکھٹے ہوجاو ٔاور منظم ہو جاو ٔ توجو کام آپ کر سکتے ہو کوئی نہیں کرسکتا۔ ہمیں عراق سے بھی اچھی خبریں آتی ہیں ، امریکہ وہاں سے نکل گیا ہے۔ فلسطین نے بھی اسرائیل کو تکلیف دی ہے، مصرسے بھی اچھی خبریں آرہی ہیں لیکن پاکستان سے جو خبریں آرہی وہ ہمارے لئے بڑی تلخ ، مشکلات آور اور درد آور ہوتی ہیں۔

لہذا یہ سفر منظم ہونے کا سفر ہے، قوم کو بیدار کرنے کا سفر ہے، اس سلسلے میں پارہ چنار کے حالات جب پریشان کن تھے، اس وقت سفر کا آغاز ہوا۔ قوم منظم ہونا شروع ہوئی، آپ نے دیکھا لوگوں کے اندر ایک بیداری کا سفر شروع ہوگیا، یہ سفر بڑھتے بڑھتے مارچ میں ہم پورے سندھ میں تھے، سندھ کے تمام شہروں میں گئے پھر کراچی کے اندر پچیس مارچ کو جو اجتماع ہوا جو شیعوں کی قدرت کا مظہر تھا، اور دنیا نے دیکھا کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوا، لوگ اکھٹے ہوئے، لوگوں میں امید بنی، حوصلہ بنا، وہ پارٹیاں جنہوں نے شیعوں کو دبا کے کچل کر رکھ دیا تھا، وہ بھی خوف زدہ ہوئی ہیں، پہلی بار ان کا در ٹوٹا ہے، ایم کیو ایم والے تقریبا ہر امام بارگاہ میں گئے، کہ آپ ہم سے کیوں ناراض ہیں، ہم آپ کو راضی کرنا چاہتے ہیں، ہمارے پاس حیدر آباد سے حیدر عباس رضوی صاحب آگئے اس نے کہا آپ کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے کہا ہم آپ کی عزت چاہتے ہیں تاکہ آپ کی اپنی پارٹیوں میں عزت ہو، آپ کی ویلیو (velue)ہو، آپ غلام بن کے نہ رہو، آپ کی پارٹی محسوس کرے کہ آپ کے پیچھے شیعہ قوم ہے، آپ تنہا نہیں ہو کہ تمہیں غلام اور نوکربنا کے رکھے اور جیسے چاہے تم سے کروائیں۔ لہذا ایک سفر شروع ہوا قوم کی بیداری کا، قوم کو منظم کرنے کا، بڑی ذمہ داریوںکو انجام دینے کے لئے، اسی سفر کے دوران جب چلاس کا واقعہ ہوا، الحمد للہ پہلی بار اسلام آباد میں نو دس دنوں تک دھرنا ہوا، جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں ملک کے پچاسی شہروں میں دھرنے ہوئے، پاکستان سے باہر، لنڈن میںپاکستانی ایمبیسی کے باہر، ناروے میں، نیوجیریا میں، جرمنی میں ، یورپ کے باقی کنٹریز میں، کینیڈا میں تین جگہ، واشنگٹن میں پاکستانی ایم بیسی کے باہر، لکھنو میں، برما اوردوسرے ممالک میں اجماعات اور احتجاجات ہوئیں۔ پہلی بار سکردو سے لیکر واشنگٹن تک ول ارگنائزڈ اور آبرومندانہ احتجاجات ہوئے۔ کم از کم احتجاج تو آبرومندانہ ہونا چاہئے نا، دشمن یہ محسوس کرے کہ ان کو دبانا مشکل ہے اور ا نہیں کچلا نہیں جا سکتا۔ لہذا یہ وہی منظم ہونے کا نتیجہ تھا کہ پوری دنیا میں ہم لوگ منظم ہوئے اور ہم نے احتجاجات کئے جس سے حکومت کے اوپر پریشر بڑھا۔ پہلی بار لنڈن میں پاکستانی ایم بیسی کے باہر کبھی بھی پاکستانیوں کا اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا تھا، واشنگٹن میں لوگ پورا پورا دن احتجاج میں رہ کر آئے، دوسرے شہروں سے فلائٹ لے کر اس احتجاج میں شرکت کرنے کے لئے آئے۔ الحمد للہ ہم منظم ہو رہے ہیں اور انشااللہ ہم طاقتوربھی ہونگے۔ یکم جولائی اسی سلسلے کی کڑی تھی جس کا میزبان لاہور تھا۔ شہید کی یاد اس میں تازہ کی گئی۔ شہید کی اپنی زندگی کا سب سے بڑا اجتماع جولائی 1978 میں قرآن و سنت کے نام پر مینار پاکستان میں کیا تھا، ہم نے جتنے بھی اجتماعات کئے قرآن و اہلبیت کے نام سے کئے، لیکن یکم جولائی کے اجتماع کو قرآن و سنت کے نام کیا تاکہ شہید کی یاد کو زندہ کرے، وہ شہیدجسے بیالیس سال کی عمر میں عین جوانی کے عالم میں شہید کر دیا گیا، اس کی یاد کو زندہ کریں، اور بتلائیں دشمنوں کو کہ ہم دوبارہ وہیں پر آن پہنچے ہیںجہاں سے شہید چھوڑ کے گیا تھا۔ ہم ڈرے نہیں ہیں،ہم سہمے نہیں ہیں، ہم پھر وہی پرچم ہاتھوں میں لیکر اسی حوصلے اور ہمت کے ساتھ، اسی شجاعت اور جرات کے ساتھ، لبیک یا حسین کہتے ہوئے پھر میدان میں آگئے ہیں۔ آپ نے دیکھا اس یزید شکن، طاغوت شکن اور شیطان شکن اجتماع نے دشمن کو حیران کر کے رکھ دیا وہ دشمن جو گزشتہ پچیس چوبیس سال سے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں مایوس اور ناامید کردیا۔ اور جو اینٹی شیعہ مائنڈ سٹ بن گیا تھا اسے مجبور کردیا کہ وہ اپنا مائنڈ سٹ چینج کرے اور یہ بتلایا کہ تمہیں کس نے اجازت دی ہے کہ تم لوگوں کو وطن دوستی کے میڈل دو۔ یہ عظیم اجتماع ہماراجتماعی جدو جہد کا ٹرننگ پوائنٹ اور ایک اہم موڑ ثابت ہوا جس میں ہم اللہ کی نصرت کا مشاہدہ کیا۔ پنجاب کے جتنے بھی بڑے بڑے ذاکر ہیں وہ سارے کے سارے حمایت کا اعلان کرنے لگے اور جگہ جگہ خودلوگوں کو دعوت دینے گئے۔ ہمار اایمان ہے کہ خدا نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی ہے اور یہ معمولی اور آسان چیزیں نہیں ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here