وہ زمانہ گزر گیاجب کوئی سوچتا تھا ہمیں دبا لے گا ، ڈرا لے گا، دیوار سے لگا لے گا، یہ ناممکن ہے کیونکہ ہم اب میدان میں لبیک یا حسین کہہ کر بصیرت، حوصلے، سعہ صدر، صبر و بردباری،دنیا کے عقلمند لوگوں سے مشورے کر کے سوچ سمجھ کرکے اتریں ہیں تاکہ مضبوط اور پختہ قدم اٹھائیں۔ یہ بات نہایت ہی قابل اہمیت ہے کہ اگر امام علی علیہ السلام بھی تنہا ہو تو لوگ اس کے گلے میںبھی رسی ڈال لیتے ہیں، دربار میں لے جاتے ہیں۔ اگر لوگ ساتھ نہ دیں تو امام چودہ چودہ سال زندانوں میں قید رہتا ہے۔ اگر لوگ ساتھ نہ دیں تو آل رسول کی ناموسوں کو لوگ بازاروں میں لے آتے ہیں۔ تنہاہونا دنیا کی نظروں میں جرم ہوتا ہے!۔ آپ کا شعور آپ کی بیداری، آپ کا منظم ہونا، آپ کے اندر وحدت اور اتحاد اور آپ کا میدان میں حاضر رہنا، ہر طرح کی مشکلات کے لئے اپنے آپ کو تیار اور آمادہ رکھنا ہمیںطاقت میں بدل سکتا ہے۔ اگر ہم منتشر رہیں گے تو کبھی طاقت میں نہیں بدل سکتے۔

بعض اوقات لوگ سمجھتے ہیں میں نے نماز پڑھ لی روزہ رکھ لیا، خمس دے دیا بچوں کی شادیاں کر لی اپنی ذمہ داری پوری کی، نہیں ایسا نہیں ہے آپ کے بارہ میں سے گیارہ امام شہید ہیں، کوئی ایک امام بھی اس لئے شہید نہیں ہوا کہ وہ نمازی تھا، حاجی تھا، قاری قرآن تھا، وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے مارے گئے ہیں، اور ظالموں سے ٹکراتے ہوئے مارے گئے ہیں، وہ ظالمانہ نظام کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے مارے گئے ہیں، 63 سال کی عمر میں امام شہید، اور 25سال کی عین جوانی کی عمر میں بھی امام شہید ہے۔ یہ اجتماعی ذمہ داریان انجام دیتے ہوئے مارے گئے ہیں وہ سارے ان کے بچے اور ان کی ناموس بازراروں اور درباروں میں گئیں نماز ی ہونے کی وجہ سے نہیں گئیں، قاری قرآن ہونے کی وجہ سے نہیں گئیں، حاجی ہونے کی وجہ سے نہیں گئیں، وہ اس لئے گئیں کہ وہ یزیدی نظام کو قبول نہیں کرتے تھے، وہ ظالمانہ نظام کو قبول نہیں کرتے تھے، وہ فاسق نظام کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ بشریت پر یزیدت کے منحوس سائے ہوں، وہ اس لئے مارے گئے، انہوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے نظام کو قبول نہیں کیا۔ سقیفہ کو قبول نہیں کیا۔ لہذا اجتماعی ذمہ داریاں انجام دینا طاغوتی نظام کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونا اور اسے قبول نہ کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

جتنے بھی دنیا پرست ہیںوہ اپنی دنیا کے لئے منظم ہو کر کام کرتے ہیں، اقتدار حاصل کرنے کے لئے دنیا پرست مسلسل سعی و تلاش میں رہتے ہیں اور پارٹیاں بناتے ہیں، سسٹم بناتے ہیں، منظم ہوتے ہیں ، لیبر ونگ، یوتھ ونگ، سٹوڈنٹ ونگ، وومن ونگ، کیا کیا نہیں بناتے ہیں تاکہ اس طرح سے طاقتور ہوں اور دنیاوی اقتدار حاصل کرسکیں، اس کے لئے جیلوں میں جاتے ہیں اس کے لئے مارے جاتے ہیں۔ یہ ساری جدوجہد وہ خدا کے لئے نہیں بلکہ ، دنیا کے لئے کرتے ہیں۔ہم جودیندار ہونے کا دعوا کرتے ہیں اور خداکے لئے کام کرنے کا دعوا کرتے ہیںکیا ہمارے یوتھ ونگ نہیں ہونے چاہیے، ہمارے لیبر ونگ نہیں ہونے چاہیے، ہمارے وومن ونگ نہیں ہونے چاہیے، ہمارے سٹوڈنٹس ونگ نہیں ہونے چاہئے، کیا ہمیں منظم نہیں ہونے چاہئے؟ خدا کے قانون کے نفاذ کے لئے، دین کی حاکمیت کے لئے، ظلم مٹانے کے لئے، عدل کو نافذ کرنے کے لئے کیا ہمیں منظم نہیں ہونا چاہئے؟ دنیا اور شیطانی کاموں کے لئے کے لئے شب و روز کام کریںاور خدا کے لئے شب و روز کام نہ کریں؟ خالی نماز پڑھ کے گھر جا کے سو جائیں کیا یہی ہماری ذمہ داری ہے؟ گمراہ کرنے والی قوتیں دن رات کام کریں اور ہم لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں۔ دشمن ہمارے گھروں تک گھس آئے، ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ ہمارے گھروں کو آگ لگا دیں اور اجھاڑ دیںاور ہم بیٹھے رہیں ، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا خدا ہم سے یہی کچھ چاہتا ہے؟ کیا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہم سے یہی کچھ چاہتے ہیں؟ کیا اہل بیت علیہم السلام اس طرح کے لوگ تھے؟ امام حسین علیہ السلام نے تو یہ کہا تھا، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے لئے نکلا ہوں۔۔۔!!!
دوستو! اس وقت ہم حساس حالات میں ہیں طاقتور بننے کی ضرورت ہے، ان حالات میں کمزور رہنا گناہ اورجرم ہے۔ طاقتور بننا نماز کی طرح واجب ہے، نماز کی طرح فرض ہے۔ طاقتور بننا، طاقتور بننے کے لئے جتنی چیزوں کی ضرورت ہے ان کو بھی انجام دینا نماز کی طرح واجب ہے۔ اگر طاقتور ہونے کے لئے منظم ہونا ضروری ہے تو منظم ہونا واجب ہے، اگر بیدار ہونا ضروری ہے تو بیدار ہونا واجب ہے، اگر ادارے بنانا ضروری ہے تو ادارے بنانا واجب ہے، اگر ٹی وی اور اخبار کی ضرورت ہے تو اس کا بھی مہیا کرنا واجب ہے۔ ہر وہ چیز جو طاقتور بننے کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اس کا بھی انجام دینا فرض اور واجب ہے کیونکہ اس عظیم میراث کا وزن کمزور لوگ نہیں اٹھا سکتے۔اہل بیت کی میراث کا وزن طاقتور لوگ اٹھاتے ہیں۔ جو کربلائی میراث ہے جو آل محمد کی میراث ہے جو انبیاء اور اہل بیت کی میراث ہے، جو تاریخ کے تمام شریفوں اور حروں کی میراث ہے یہ کمزور لوگ اپنے کاندھوں پر نہیں اٹھا سکتے۔ اس میراث کا وزن اٹھانے کے لئے طاقتور لوگ کی ضرورت ہے اس لئے یہ سفر شروع ہوا ہے تاکہ اپنی قوم کو مضبوط بنائیں ، طاقتور بنائیں تاکہ اپنی ذمہ داری کو انجام دے سکے۔ انشااللہ ایک دن آئے گا۔ اس سرزمین سے ہم نا امنی کی فضا ختم کر ڈالیں گے اور امن کی بہار لائیں گے، نفرتوں کی فضا مٹا ڈالیں گے اور محبتوں کی بہار لے آئیں گے، تفرقے مٹا ڈالیں گے اور وحدت کی بہار لائیں گے۔ ہم اکھٹے اور طاقتور ہو کر اس نا امنی اور نفرتون کے خیبر کو فتح کر ڈالیں گے۔ امید ہے خالق کائنات ہماری مدد فرمائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here