دشمن شناسی کے باب میں جس منحوس کولیشن کی طرف اشارہ کیا گیا اس جہنمی کولیشن کوعوام کی طاقت کے ذریعہ توڑنانہایت ضروری ہے۔ عوامی جدوجہد اور عوامی بیداری کے ذریعہ اس منحوس کولیشن کو توڑنے کے لئے ہمیں بھی اپنے اسٹریٹجک پارٹنرز بنانے ہونگے۔ کچھ ہمارے زیادہ قریب ہونگے کچھ کم ہونے بہر حال ہمیں بھی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا۔ اس ملک میں ہمارے اسٹریٹجک پارٹنرز کون کون ہو سکتے ہیں؟ اہل سنت بریلوی بھائی ہمارے اسٹریتجک پارٹنر بن سکتے ہیں اور ہمیں انہیں اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنانا چاہئے اس سے پہلے کہ امریکہ اور برطانیہ ان پر اپنا ہاتھ رکھے ہمیں انہیں اپنا ہوگا۔ لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ انہیں اپنے قریب رکھیں اور ان کے ساتھ رابطے بڑھائیں کیونکہ ہم نے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے اور اس جہنمی کولیشن کو توڑنا ہے۔ یہ کولیشن اسلحہ سے نہیں ٹوٹ سکتا اسے عوامی جدوجہد اور عوامی بیداری ہی توڑ سکتی ہے۔ ایک طولانی عوامی جدوجہد کی ضرورت ہے اور امام خمینی بت شکن کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اسی لئے ہم نے کوشش کی سنی تحریک ، سنی اتحاد کونسل سے رابطہ رکھیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ہمارے اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ طاہر القادری صاحب پاکستان آئے ہم نے انہیں ویلکم کہا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ اہل سنت بریلوی بھائیوں کو پولیٹیکل رول پلے کرنا چاہئے۔ اس چار ضلعی کولیکشن کی وجہ سے پاور آف بیلنس ڈسٹرب ہو گیا، طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے اسے ہر صورت میں ہمیں بحال کرنا ہے۔ ہمیں ہمارے بعض دوستوں نے کہا اس شیخ الاسلام کی آپ نے حمایت کیوں کی؟ ہمارا مقصد کسی شخص کو سپورٹ کرنا نہیں ہے بلکہ بریلویوں کو سپورٹ کرنا ہے ان کو اپنے قریب لانا ہے ۔ عراق میں صدام کو کس نے ہٹایا؟یقینا امریکہ نے ہٹایا۔ صدام کے بعد امریکہ چاہتا تھا کہ عراق کو اپنے کنٹرول میں لے لے لیکن عراق کو انقلابیوں نے اپنے کنڑول میں لیاجس کی وجہ یہ ہے کہ آج عراق ، جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ جس طرح امریکہ موجوں پر سوار ہو کر اپنے کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتا ہے انہوں نے کوشش کی یہ موج پر سوار ہو گئے اور عراق کو اپنے ساتھ کھڑا کر دیا۔ہمیں بھی پاکستان کے اندر چاہئے کہ ہم پاکستان میں بریلوی بھائیوں کی پولیٹکل مومنٹ کو سپورٹ کریں اسے صحیح رخ دیں اور اس موومنٹ کی مدیریت کریں۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے کہ آپ دو اچھائیوں میں سے بہتر اچھائی کا انتخاب کرتے ہیںبلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو برائیوں میں سے کم برائی کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ہوتی برائی ہے لیکن کم برائی ہوتی ہے۔ سب کہتے ہیں برائی ہے برائی ہے، ہم بھی کہتے ہیں برائی ہے لیکن کم برائی ہے۔ ہر وہ چھوٹا یا بڑا قدم جس سے ایک مخصوص فرقہ جو جرنیلوں کی اسٹبلشمنٹ کا حصہ ہے طاقتور ہو تو وہ پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے اور ہم نے اسے طاقتور نہیںبننے دینا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا جب طاہر القادری صاحب پاکستان آئے وہ سب اکھٹے نہیں ہو گئے۔ سیاستدان بھی اکھٹے ہوگئے مولوی بھی اکھٹے ہوگئے۔ جس اقلیتی فرقہ کے قبضے میں یہ ملک ہے ، جن اقلیتی جرنیلوں کے گروپ کے قبضے میں یہ ملک ہے ، امریکہ اور ان ملعون سازشی لوگوں کے قبضے میں ہے یہ لوگ آسانی سے اس ملک کو ہاتھ سے نہیں نکلنے دیں گے۔ اپنی پوری طاقت سے یہ لوگ مقابلہ کریں گے اور ہم پر ہر طرف سے حملہ کریں گے۔ لہذا ہم نے بریلویوں کو اپنا ہے اور اسے اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنانا ہے۔

بریلویوں کے علاوہ کون ہمارا اس ملک میں اسٹریٹجک پارٹنر بن سکتا ہے؟ اس حوالے سے سوچیں اور غور و فکر کریں کون اس جنگ میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے؟ایک وہ ہیں جو سعودی کے قریب ہیں اور ایک وہ ہے جو سعودیہ سے دور ہیں اور امریکہ کے قریب ہے۔ ایک وہ ہے جو دونوں کے ہیں۔ پہلے کس کو میدان سے نکالنا چاہئے؟ کون سی جنگ مشکل ہے؟ آیا جنگ احد مشکل ہے یا جنگ بدر مشکل ہے یا جنگ خندق مشکل ہے یا جنگ حنین مشکل ہے یا جنگ جمل مشکل ہے یا جنگ صفین مشکل ہے؟ سعودیہ کے اسٹریٹجک پارٹنر کے ساتھ جو جنگ لڑنی ہے وہ جنگ جمل اور جنگ صفین ہے ۔ جو امریکہ کے اسٹریٹجک پارٹنرز ہیں ان سے جنگ جنگ احد و جنگ بدر و حنین ہے۔ اب ہم نے انتخاب کرنا ہے کہ پہلے کون سی جنگ لڑنی ہے۔ پہلے کس سے نجات پائیں؟ یقینا سعودیہ جس کو ہمارے سامنے لائے گا وہ مذہبی اور عمامے والے ہونگے۔ امریکہ سعودیہ کے ذریعہ مذہبیوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے براہ راست امریکہ اور اسرائیل لبرلز کو اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ ہم نے سب سے پہلے سعودیہ کو باہر اٹھا کر پھیکنا ہے اور اس کولیشن کو کمزور کرنا ہے۔ اس کولیشن کے ایک ضلعے کو ختم کرنا ہے۔ ایک مورچہ کو تباہ کرنا ہے۔ بعض اوقات دو برائیوں میں سے کم برائی کا اور دو نقصان دہ راستوں میں سے کم نقصان دہ راستہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہمیں پاکستان میں تنہا لڑنا چاہیے یا اپنے اسٹریٹجک پارٹنرز بنانے چاہیے؟آپ نے دیکھا عوام کی جو رائے عامہ تھی اس کے ذریعہ آپ نے ان دہشتگردوں کو کتنا رسوا کیا۔وہ آپ کو تنہا رکھنا چاہتے تھے۔ آئیسولیٹ کرنا چاہتے تھے، ڈرانا چاہتے تھے آپ نے اپنی بیداری اور دو دھرنوں کے ذریعہ انہیں تنہا کردیا اور پوری قوم کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس پریشر کو کوانٹر کرنے کے لئے ہمارے جو اسٹریٹجک پارٹنرز بن سکتے ہیں ان میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہو سکتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی سعودیہ کے ساتھ کمفرٹ نہیں ہے بلکہ امریکہ کے ساتھ کمفرٹ ہے۔ تحریک انصاف بھی ہماری اسٹریٹجک پارٹنر بن سکتی ہے کیونکہ سعودیہ کے ساتھ ان کا لنک اس طرح سے نہیں ہے اور بھی ہمارے پارٹنرز بن سکتے ہیں اس میں دقت سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ہم نے عوامی جدوجہد کرنی ہے۔ لیڈ ہمیں کرنا ہے جنتا ممکن ہو سکے اس طرح کے لوگوں کی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنی ہے تاکہ دشمن یہ دیکھے کہ ہم تنہا نہیں ہیں ہمارے ساتھ بھی عوام کی ایک بہت بڑی طاقت موجود ہے جیسا کہ دھرنوں میں ہوا سول سوسائٹی آپ سے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ہمیں اس طرح ان جرنیلوں کے پر پریشر ڈویلپ کرنا ہے۔ بنا بر ایں ایک کام ہم نے یہ کرنا ہے کہ کسی طرح یہ کولیکشن اور طاقت ٹوٹے۔

ہم نے کربلا سے درس لینا ہے اور پاکستان کی سرزمین پر اس ظالمانہ نظام کے خاتمہ کیلے عوامی جدوجہد کرنا ہے۔کربلا مقاومت اور استقامت کا استعارہ ہے، کربلا ہماری طاقت کا نام ہے، 2006 کی جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی تو انہوں نے انلائسز کیا اور اس میں انہوں نے لکھا کیوں شکست ہوئی، بہت سی وجوہات لیکھیں ۔ انہوں نے کہا حزب اللہ کے پاس دو نام ہیں، جنہوں نے ہمیں شکست دی ہے، ایک حسین اور دوسرا زینب، یہ حزب اللہ کی طاقت ہے، کربلا طاقت کا نام ہے، کہیں آپ کو ضعف، کمزوری اور نقص نظر نہیں آئے گا، جس کو دیکھیں گے بے مثال نظر آئے گا، ہر کوئی موت کے سامنے خاص شان سے گیا ہے، کاش ہم ان شہداء کی زندگی کو تفصیل سے جانتے، کس طرح یہ موت سے عشق کرتے تھے، اور کس طرح شہادت کے عاشق تھے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here