ہم طاقتور ہونگے کبھی ظلم نہیں کریں گے اور اگر ہم طاقتور نہ ہوئے تو یہاں امن نہیں آئے گا، ہم طاقتور ہونگے تو کسی پر ظلم نہیں کرینگے کیونکہ ہم نے عادل کو امام مانا ہے کسی ظالم کو امام نہیں مانا ہے، راولپنڈی میں آپ نے دیکھا ان یزیدی قوتوں نے کتنا جھوٹ بولا۔ ان کا جھوٹ ٹی وی پر آگیا اتنے بچے ذبح کئے گئے، گلے کاٹے گئے،ان جھوٹوں کو شرم نہیں آتی کاش یہ ٹی وی پر آکے معافی مانگتے ۔ اس طرح پروپیگنڈا کیا گیا جس طرح ایک سرد جنگ ہوتی ہے ایک واقعہ رونما کیا جائے اس واقعہ کہ تشہیر کی جائے اور مطلوبہ نتائج حاصل کئے جائے۔ اس کے تین فیز ہوتے ہیں پہلے ایک واقعہ کو وجود دینا پھر اس کی تشہیر کرنا اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنا، ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے کے لئے اسی واقعہ کو وجود میں لایا گیا، پھر اس کی تشہیر کی گئی، ہماری عزاداری کو روکنے کے لئے، مکتب تشیع کے مظلوموں کا امیج خراب کرنے کیلئے ، انہیں کمزور کرنے کے لئے، ڈرانے کے لئے، انہیں ایسولیٹ کرنے کے لئے، عزاداری کو محدود کرنے کے لئے، ذکر حسین کو محدود کرنے کے لئے، چالیس دن سائکالوجیکل وار تھی، جنگ تھی، میڈیا نے جنگ کی عاشور کے دن سے لیکر ، ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت یزیدی قوتیں میدان میں اتری تھیں، دہشتگردوں کی حامی قوتیں اپنا پورا لاو لشکر لیکر ابرہہ کی طرح آئے تھے، جس طرح سے کل کا ابرہہ خانہ خدا کو ڈھانے آیا تھا آج ابرہہ کی نسل پورا لاو لشکر لیکر اسی عبدالمطلب کی نسل سے تعلق رکھنے والے سید الشہداء کے ذکر کو مٹانے چلی تھی،پورا لاو لشکر لے کے آئے تھے، دھندلاتے پھرتے تھے، جیسے مست ہاتھی ہوتے ہیں ایسے بولتے تھے، یہ چالیس دن میڈیا وار تھی، سائکلوجیکل وار تھی۔ الحمدللہ مومنین کی یونیٹی اور وحدت نے، مومنوں کے حوصلوں نے، اس عصر کی یزیدی نسل کو شکست فاش دیا۔ آپ کی چالیس دن کی یونیٹی اور بیداری نے ایک بہت بڑی سازش کو ناکام بنا دیا، اگر ہم ولایت کے پرچم تلے اکھٹے ہوجائیں، پانچ کروڑ سے زیادہ شیعہ ہیں، ہم ہر مظلوم کی پناہ گاہ بن سکتے ہیں ۔ ہمیں اکھٹا ہونا ہوگا، ہمیں پارٹیوں سے نکلنا ہوگا اور ولایت کے پرچم تلے اکھٹے ہونا ہوگا۔

ہم ایک مشکل مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اہم مرحلہ ہے، اس مرحلے میں غفلت نہیں کرنی ہے، چند چیزیں ضروری ہیں، صبر، بصیرت، حکمت، تدبیر بہادری اور شجاعت،حوصلہ ہمت، تا کہ ہم اہل وطن کو اہل وطن کو اس مرحلے سے گزاریں، حکمران ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں کہتے ہیں طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں، کوئی بھی کام کرنا ہو تو اس کے لئے گروانڈ ہونا چاہئے، طالبان سے مذاکرات کی نہ مورل گرواونڈز ہیں ، نہ قانونی اور آئینی ہیں، نہ اخلاقی ہیں اور نہ شرعی اور دینی ہیں، کوئی گروانڈز نہیں ہے اس کی بیس لس ہے، یہ مذاکرات بزدلی کی نشانی ہے، اپنی بزدلی کو خوبصورت لباس پہنا کر مذاکرات کا ڈھوم رچایا گیا ہے، یہ ڈرے اور سہمے ہوئے حکمران ہیں، یہ بزدل ہیں اور قاتلوں کے سامنے ڈرتے ہیں، جو اسلحہ اٹھا لے اس کے مقابلے میں سر جھکا لیتے ہیں، اسٹیٹ کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی، لہذا اس ملک میں قانون کی حکومت کے لئے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا، سٹیٹ کی رٹ کو قائم کرنے کے لئے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا، ہمارے جرنیلز بھی پتہ نہیں کیسے کمانڈرز ہیں، ہر روز ان کو فوجیوں کی لاشیں ملتی ہیں، اور ٹس سے مس نہیں ہوتے، وہ کمانڈر رات کو سوتا کیسے ہے، جس کے ہر روز جوان مرے اور جوانوں کی لاشوں کے تحفے ملے ان کو، لہذا دوستو پاکستان کی دھرتی کے خیبر کو کرار کے ماننے والے فتح کریں گے انشاء اللہ۔ یہ تقدیر میں لکھا ہے کہ ہر زمانے کے خیبر کو فتح یا خود کرار کرے گا یا کرار کے ماننے والے کریں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here