میرا سوال ہے آپ سے۔ ہم غیبت کبری کے زمانے میں جہاں امام زمانہ غیبت کبری میں ہیں، امام زمانہ تک براہ راست رسائی نہیں ہے،جیسا کہ اضطراری حالت میں آپ نماز میں ہوں ، پانی سے وضو نہ کرسکے یا پانی میسر نہ ہو، تو کیا کرتے ہیں، اس کے بدلے میں تیمم کرتے ہیں، مٹی سے طہارت کر لیتے ہیں، کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بدل اس کا کیا ہے بیٹھ کر نماز پڑھ لیتے ہیں، بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کے، بیٹھنا کھڑے ہونے کے قریب ہے، بدل وہ ہوتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے، میرا یہ سوال ہے غیبت کبری میں جب امام زمانہ غیبت کبری میں ہے، تو کون سا ایسا سسٹم ہے جو ہمیں امام کے قریب رکھ سکتا ہے، بدل کے طور پر اضطراری حالت میں ایک ایسا سسٹم چاہئے جو ہمیں امامت کے قریب رکھے، ہمارے بھائی یہ کہتے کہ رسول اللہ اپنے بعد کوئی سسٹم نہیں دے کے گیا۔ سسٹم ایسا ہونا چاہئے جو نظام ولایت اور امامت کے بالکل قریب رکھے اور ہمیں اس سے دور نہ ہونے دے۔
اگلا سوال: کیا لبرل ڈیموکریٹک سسٹم ہمیں ولایت کے قریب رکھ سکتا ہے، امریکہ اور یورپ کا دیا ہوا لبرل ڈیموکریٹک سسٹم ، کمیونیزم، شوشلزم، نیشنلزم، یہ قریب رکھتے ہیں؟ نہیں رکھتے ، کیا اگر انسان لبرل ہو جائے، سیکولر ڈیموکریٹ ہوجائے، کیمونسٹ ، شوشلسٹ ہوجائے، نیشنلسٹ اور قوم پرست ہوجائے، امام اور امامت کے قریب ہوجاتا ہے یا دور ہو جاتا ہے، کیا اس سسٹم میں رہ کر انسان انسان کامل اور معصوم کے ساتھ رہنے کے آداب سیکھ سکتا ہے، کیا یہ ایسا مکتب ہے سیکولاریزم اور لبرلیزم جس میں جا کر، وہ آداب سیکھے جا سکتے ہیں کہ امام معصوم کے ساتھ کیسے رہا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہے یہ خدا اور اہل بیت سے دور کردیتا ہے، غیبت کے زمانہ میں جو سسٹم ہمیں امامت سے قریب رکھتا ہے، عمران خان کی لیڈر شب امام زمانہ کے قریب نہیں رکھتی، میاں صاحب کی قیادت امام زمانہ کے قریب نہیں رکھ سکتی، زرداری صاحب کی قیادت امام زمانہ کے قریب نہیں رکھ سکتی، ہمیں ہر حال میں اپنے امام کے قریب جانا ہے، ہمیں امام کے قریب رہنا ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے، ایسے سسٹم میں جائیں گے جو امام کے قریب رکھے، ایسی قیادت کے قریب جائیں گے جو امامت کے قریب رکھے، امام کے قریب جو قیادت اور سسٹم ہمیں ہر حال میں رکھتا ہے، مکتب تشیع میں اسے ولایت فقیہ کہتے ہیں، فقیہ کی قیادت ، فقیہ کی لیڈرشپ، اور فقیہ کی حکومت، فقیہ کی حکومت امام کی حکومت کا بدل ہے، ڈیوڈ کیمرون کی حکومت امام کی حکومت کا بدل نہیں ہے، میاں صاحب کی حکومت امام کی حکومت کا بدل نہیں ہے، شہنشاہ ۔۔ کی حکومت امام کی حکومت کا بدل نہیں ہے، اس کی قیادت امام کی قیادت کا بدل نہیں ہے، وہ امام کے قریب نہیں رکھتا، شیطانوں کے قریب کرتا ہے، لہذا غیبت کبری میں وہ نظام جو امامت کے قریب رکھتا ہے، اسے مرجعیت، فقیہ کی قیادت اور رہبریت کا نظام کہتے ہیں، فقاہت کا نظام کہتے ہیں یہ امامت کے قریب رکھتا ہے، غیبت کبری میں ہماری پولیٹیکل سائنس کا نام ہے ولایت فقیہ، لہذا یہ نظام ہے جو ہمیں قریب رکھتا ہے امام کے ہم نے اسی طرح آنا ہے۔

اس بات کی شناخت ضروری ہے کہ عصر غیبت میں کون ہمارا رہبر اور قائد ہے؟ کس کے پیچھے ہمیں چلنا ہے؟ کس کا دامن ہم نے پکڑنا ہے؟کون ہے جو ہمیں لیڈ(lead) کرے گا؟ان عالمی شیطانوں کے ساتھ جو جنگ ہے اس میں ہمیں ساحل نجات تک کون پہنچائے گا؟سید حسن نصر اللہ سے ایک ملاقات میں ہم نے پوچھا کہ کوئی ایک خصوصیت ہمیں بتائیں جو حزب اللہ کی طاقت کا سبب ہو اور ان کی کامیابی کا راز ہو۔ انہوں نے کہا:
’’اپنے رہبر کی شناخت اور ان کا دامن پکڑلینا۔ہم نے پہلے دن سے امام خمینی ؒ کا دامن پکڑااورا ن کے بعد رہبرمعظم امام خامنہ ای کا دامن پکڑا، ہم نے امام خمینی ؒاور رہبر معظم کی بصیرت سے بھرپور استفادہ کیا۔ اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے لئے، لبنان میں پولیٹکلی (politicaly)، شوشلی(socialy)، اکنامکلی(economicaly) اسٹیبلیٹی (esteblity) لانے کے لئے، اپنی مادر وطن کو آزاد کرانے کے لئے، اسرائیل اور امریکہ کو شکست دینے کے لئے ہم نے ان کی بصیرت سے بھرپور استفادہ کر لیا‘‘۔
حزب اللہ کے سیسٹم میںدل اور خون کی طرح ولایت فقیہ اوراس کی اتباع وپیروی جاری ہے۔ سرزمین پاکستان میں ہم نے بھی اپنے نائب امام کو اپنا رہبر مانا ہے، اس لئے ہم نے یہاں پر جو سیسٹم بنایا ہے اس کا سب سے بڑا عہدہ سیکرٹری جنرل کا رکھا ہے ۔ ہمارے مذہب کی رو سے قائد اور رہبر کا عہدہ نائب امام کا ہے۔ ہمارا قائداور رہبر ولی فقیہ ہے۔ وہی ہمارپیشوا ہے۔ اپنے رہبر کی شناخت جو اس وقت عالمی شیطانوں کے مقابلے میں لیڈ (lead)کررہا ہے۔ دنیا کے آزادی کے متوالوں ، غیرت مند اور شجاع انسانوں کی رہبری اور رہنمائی کرنا والا، عالمی صہیونیزم اور استکبار کے مقابلے میں جو قیادت اور رہبریت کے فرائض انجام دے رہا ہے وہ کون ہے ؟ لہذا رہبر کی شناخت بہت ضروری ہے کیونکہ ہم نے اس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔

پوری دنیا میں جہانِ کفر کا ایک لیڈر ہے اور جہان اسلام کا بھی ایک ہی لیڈر ہونا چاہئے اس لئے کہ کفر اور اسلام ایک دوسرے کے مقابلے میں ہے۔ البتہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ رہبر امام اور پیشوا کی شناخت تعصب کی خاطر نہیں ہونا چاہئے۔
امریکہ کے لبرل ڈیموکریٹک سیسٹم(lebral democretic system) نے پوری دنیا کو لیڈ کرنے کے لئے معاصر زمانے میں پہلے بش دیا تھا ابھی اوباما دیا ہے۔ کیا یہ مقام تاسف نہیں ہے کہ اوباما پوری بشریت کی رھبری کرے اور اسے ساحل نجات تک لے جائے۔ امریکہ کا دعوا یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کا لیڈر ہے اور اس نے بش اور اوباما جیسوں کو دنیا کو لیڈ کرنے کے لئے رہبر امام یا پیشواکے طور پر پیش کیا ہے۔ برطانیہ کے سیسٹم نے ڈیوٹ کیمرو ن اور ٹونی بلیر جیسے لوگ دئے۔ جرمنی والوں نے جیلامرکن، ، فرانس والوں نے سرکوزی، سعودیہ والوں نے ملک عبداللہ جیسے لوگ لیڈر کے طور پر پیش کئے۔ مکتب اہل البیت علیہم السلام نے دنیا کی رہبری کے لئے امام خمینی ؒاور آیت اللہ خامنہ ای دیا۔ذرا مقایسہ کریںکہ بشریت کی رہبری اور قیادت کے لئے ان میں سے کون اہلیت رکھتا ہے؟ کیا مکتب اہل البیت علیہم اسلام کی دی ہوئی قیادت اور دوسرے لیڈروں میں کوئی مقایسہ کر سکتا ہے؟ کہاں خاک اور کہاں آسمان؟ یہ ہمیں فخر ہے کہ ہم بشریت کی رہبری اور قیادت کے لئے یا انسان معصوم دیتے ہیں یا فقیہ عادل۔ خواہ نخواہ بشریت کو رہبر چاہیے ، بشریت کو لیڈ کرنے والے چاہیے، بشریت کو قیادت چاہیے۔یہ مکتب تشیع کا طرہ امتیاز ہے کہ اس مکتب میں اگر معصومین علیہم السلام کا زمانہ ہو توامام معصوم اوراگر غیبت کبری کا زمانہ ہو تو فقیہ عادل ہی دنیا کی رہبریت اور قیادت کی اہلیت رکھتا ہے۔ لہذ ا رہبر کی شناخت ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ، ہمارا رہبر کون ہے کیونکہ ہم نے اس کا دامن پکڑنا ہے، اسے مضبوط اور سپورٹ کرنا ہے اور ہم نے اس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ مکتب اہل بیت علیہم السلا م کے پیروکار نہ کسی خان کو اپنا رہبر مان سکتے ہیں اور نہ ہی کسی دنیا پرست اور عیش پرست کو جنہیں خدا و رسول کا کوئی پتہ نہیں دین کا کوئی پتہ نہیں اور جنہیں آخرت کاکوئی پتہ نہیں وہ کیسے ہمارے پیشوا اور لیڈر ہو سکتے ہیں۔ انہیں کیا پتہ عدل کیا ہے اور انصاف کسے کہتے ہیں؟مکتب اہل بیت میں ایسے لوگوں کو رہبری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ زرداری، یہ ن والے، یہ کاف والے یہ گاف لام میم نون والے ہمارے رہبر اور پیشوا نہیں ہو سکتے۔ یہ ہمارے لئے افسوسناک اور شرمندگی کا مقام ہے کہ عدالت اور انصاف کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے تھا یہ ہماری میراث ہے، ہمارے ائمہ عدالت کے لئے شہید ہوئے ہیں، ہم نے تاریخ میں عظیم ترین قربانیاں عدل کے لئے دی ہیں، ان خانوں نے عدالت کیلئے کیا قربانی دی ہے، ہم وہ ہیں جنہوں نے عدالت کے لئے خون دیا ہے اور ظلم کے خلاف فدا ہوئے ہیں۔ عدالت کی راہ میں قربان ہوئے ہیں۔ یہ ہماری میراث ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، یہ پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہونا چاہئے تھا ،،دوسروں نے اٹھا لیا ہوا ہے، اور وہ یقینا اس کے ساتھ دھوکہ کریں گے۔

جس قوم کا رہبر نہیں ہوتا وہ قوم کبھی بھی بحرانوں سے محفوظ نہیں رہتی۔ رہبر کے بغیر قومیں مٹ جاتیں ہیں۔ روایات میں آیا ہے ہر قوم کے لئے ایک امیر اور رہبر کی ضرورت ہے فرق نہیں ہے کہ وہ فاسق و فاجر ہو یا نیک اور مومن۔ اس زمانے کا پیشوا کون ہے؟ہم خوش قسمت ہیں اس زمانے کا ہمارا رہبر جناب سیدہ فاطمہ الزہرا کا عظیم بیٹا ہے ۔ اس زمانے کے بت شکن کا تربیت یافتہ ہے۔ اس پوری دنیا کے طاقتوںکو رسوا کر کے شکست دینے والا ہے۔ہمیں فخر ہے ہمارے رہبر جیسا رہبر دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ اتنا با بصیرت، حوصلے والا، حکمت والا، تدبیر والا، جرأت والا، باتقوی اور جملہ کمالات کا مجموعہ کوئی رہبر دنیا میں نہیں ہے۔ ہمارا رہبر وہ ہے جس نے ثابت کیا ہے کہ وہ امام خمینی ؒ کا وارث حق ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے امام خمینی کے بعد کس طرح مظلوموں کی اس کشتی کو ناخدائی کرتے ہوئے ساحل نجات کی طرف لے جا رہے ہیں۔ دنیا کے طاغوت عاجز آگئے ہیں ہر قدم پر انہیں شکست دی ہے۔ لہذا ہمیں رہبر کا پیرو ہونا چاہئے رہبر کے برابر نہیں ہونا چاہئے۔ جو رہبر کہے ہمیں وہ کہنا چاہئے ہمیں اپنی مرضی کی باتیں رہبر کے نام سے استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارا رہبر اس زمانے میں حکیم امت ہیں۔

سید حسن نصراللہ کہہ رہے تھے کہ 2006 کی جنگ میں مجھے رہبر نے پیغام بھیجا کہ آج رات میں مسجد جمکران گیا تھا تمھارے لئے دعا کی ہے تمہیں فتح ملے گی گھبرانا نہیں ہے اور تم اس جنگ سے بہت طاقتور ہو کر نکلو گے۔ لہذا دعائے جوشن پڑھو ۔ ایسا رہبر دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔ سید حسن نصراللہ کہتے ہیں ہم حیران تھے اتنی مشکل جنگ تھی اور ہمارے اوپر پریشر تھا جب رہبر کا پیغام ملا کہ گھبرانا نہیں ہے تم نے اس جنگ سے طاقتور ہو کر باہر نکلنا ہے اور اس پورے خطے کی طاقت بن جاو گے اور ہمیں یقین ہوگیا جو رہبر کہہ رہا ہے وہ ہو جائے گا۔

رہبر بننے کے بعد جب پہلی بار قم آئے تو آیت اللہ بہجت رہبر کے استقبال کے لئے نکلے ۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ رش بہت ہے آپ کے لئے سخت ہوگا۔ ٹھوکریں لگ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے اس سید کے استقبال کے لئے جو ثواب رکھا ہے اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو کوئی آدمی گھروں میں نہ رہ جائے۔
اس طرح ایک سفر میں رہبر قم آئے اور ان کی آیت اللہ بھاء الدینی (عارف) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر رہبر سے مخاطب ہو کر کہا :
{ اسلام علیک یا و اللہ}

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here