*محرم الحرام 2019*
*دوسری مجلس (حصہ ھفتم)*
*علامہ راجہ ناصر عباس جعفری*

*ارادہ تکوینیہ اور ارادہ تشریعیہ:*
خدا امام حسین علیہ السلام کو قتیل اور مخدرات عصمت و طہارت کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ اللہ کے دو طرح کے ارادے ہیں۔ ایک وہ ارادہ جسے ارادہ تکوینیہ کہتے ہیں اور ایک وہ ارادہ جسے ارادہ تشریعیہ کہتے ہیں۔ دونوں ارادوں میں فرق ہے۔ اللہ جب کسی ایسے کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے جسے اللہ نے خود انجام دینا ہوتا ہے کسی اور نے انجام نہیں دینا ہوتا جس طرح ہم انسان بھی اکثر ایسا ہی کرتے ہیں کہ یہ کام مثلا میں خود انجام دونگا۔ لیکن ایک بار اللہ ارادہ کرتا ہے کہ فلاں کام کو کوئی اور انجام دے۔ جیسے اللہ نے ارادہ کیا کہ ہم نماز پڑھیں۔ یہاں پر اللہ کا ارادہ تعلق پیدا کر رہا ہے ایک ایسے کام سے جسے کسی اور نے انجام دینا ہے۔ جس کام کو اللہ نے خود انجام دینا ہو اس کے بارے میں اللہ کہتا ہے:
” اذا اراد اللہ بشیء ان یقول لہ کن فیکون”
جب اللہ ارادہ کرتا ہے کسی کام کو خود انجام دینے کا اور پھر جب ارادہ کرتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کے اس ارادے کی مخالفت نہیں ہوسکتی۔
"انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا”
اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ اے اھل البیت آپ سے رجس کو دور رکھے۔ یہ ارادہ تکوینی ہے۔ جو اللہ نے کہہ دیا سو وہ ہوگیا۔ جب ارادہ کیا تو آلِ محمد ﷺ طہارت کی معراج پر فائز ہو گئے۔ یہ ارادہ تکوینیہ ہے۔ اللہ ارادہ کرے گا اللہ کے ارادے کی خلاف ورزی نہیں ہو سکے گی۔ اللہ کا دوسرا ارادہ، ارادہ تشریعیہ ہے۔ اللہ نے ارادہ کیا ہم جھوٹ نہ بولیں۔ اب ہماری مرضی ہے کہ اب ہم جھوٹ بولیں یا نہ بولیں یعنی آپ مجبور نہیں ہیں۔ اس ارادہ تشریعیہ کی مخالفت ہوسکتی ہے۔ اگر میں مجبو ر ہو جاوں سچ بولنے پر تو کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ اگر مجبور ہو جاوں گناہ کرنے پر اس کا کوئی عقاب نہیں ہو سکتا۔ اسے ارادہ تشریعیہ کہتے ہیں۔ یعنی اللہ نے ارادہ کیا ہے ایک ایسے کام کو انجا م دینے کا اور کام بھی لوگوں نے انجام دینا ہے۔ مثلا اللہ نے ارادہ کیا کہ ہم نماز پڑھیں "اقیموا الصلواۃ” سارے نماز پڑھو۔ کوئی پڑھتے ہیں اور کوئی نہیں پڑھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے ارادہ کیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو جائیں۔ یہ ارادہ تشریعیہ تھا، ارادہ تکوینیہ نہیں تھا۔ اللہ کی مشیت اور ارادہ ایسا ہے کہ حسین مقام شہادت پر فائز ہو آگے امام حسین علیہ السلام کی مرضی ہے کہ وہ شہادت کا سفر اختیار کرے یا نہ کرے۔ اللہ کا ارادہ ہے کہ ناموس آلِ محمد کی اسیری کے بغیر نظامِ توحید کو بقاء نہیں مل سکتی تو پھر بی بیوں کی مرضی ہے کہ وہ اسیر ہوں یا نہ ہوں۔ وہ مجبور نہیں ہیں۔ لہذا امام عالی مقام نے اپنی مرضی سے اس راستے کا انتخاب کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here