*محرم الحرام 2019*
*دوسری مجلس (حصہ دھم)*
*علامہ راجہ ناصر عباس جعفری*

*امت کی اصلاح کا مطالبہ:*
فساد کسے کہتے ہیں اور اصلاح یا صلح سے کیا مراد ہے؟ فساد کیسے پھیلتا ہے؟ کیسا فساد تھا جو اس قدر پھیل گیا تھا کہ امام کو اتنی عظیم قربانی دینی پڑی؟
اگر امت کو توحید سے کاٹ دیا جائے یہ سب سے بڑا فساد ہے۔ اُس وقت امت نے یزید کو محور بنایا ہوا تھا جو کہ سب سے بڑا فساد تھا۔ امت توحید کے محور سے ہٹ چکی تھی اور امام اسی کی اصلاح کا مطالبہ لے کر نکلے تھے۔ جو امت، رسولِ خدا کے محور میں ہوگی وہ توحید کے محور میں ہوگی اور اگر رسول خدا کے محور سے ہٹ جائے توحید کی طرف جا ہی نہیں سکتی۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہی رسول خدا کی محوریت میں آنا ہے۔ امت کا محور رسولِ اور وہ عظیم ہستی ہے جس کی ولایت کا اعلان غدیر میں ہوا تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار حجاج کو جمع کر کے، آگے والوں کو پیچھے بلا کر اور پیچھے والوں کا انتظار کر کے، پالان کا منبر بنا کر رسول خدا نے پہلے ایک عظیم خطبہ دیا پھر مولا علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
"من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ”
جس جس کا میں مولا ہوں اُس اُس کا علی مولا ہے۔ میرے بعد میری امت کا محور علی ہے، علی کی ولایت اور علی کی امامت ہے۔ جو علی کو چھوڑے گا، رسول کو چھوڑے گا وہ توحید کے مرکز سے نکل جائے گا۔ اللہ کے نبی نے چند بار چند جگہوں پر کہا:
"انی تارک فیکم الثقلین”
میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں.
"کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی”
اللہ کی کتاب اور میری عطرت جو میرے اہل بیت ہیں۔
"ما ان تمسکتم بھما”
جب تک تم قرآن اور عطرت سے متمسک رہو گے۔
"لن تضلوا بعدی”
تم میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے. اگر ان سے متمسک نہیں رہے تو تم گمراہی سے نہیں بچ سکتے، پھر تم پستی کا شکا رہو جاو گے۔ مقامِ انسانیت سے گر جاو گے۔
امت قرآن اور عطرت کے اردگرد جمع ہو جائیں۔ قرآن اور عطرت کے اردگرد جمع ہونا یعنی توحید کے اردگرد جمع ہونا ہے۔ اللہ کے نبی نے فرمایا ہے:
"من یطیع الرسول فقد اطاع اللہ”
جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔ پھر ارشاد فرمایا:
"یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم”
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔
ایک حدیث جو اہلِ سنت کے جید علماء حافظ زہبی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ اللہ کے نبی نے فرمایا:
"من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع علیا فقد اطاعنی و من عصی علیا فقد عصانی”
جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔ جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جس نے علی کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی۔ جس نے علی کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔
کس کس پر اللہ کی اطاعت واجب ہے؟ جس جس پر اللہ کی اطاعت لازم ہے اُس اُس پر رسول کی اطاعت لازم ہے اور جس جس پر رسول کی اطاعت لازم ہے اُس اُس پر مولا علی علیہ السلام کی اطاعت لازم ہے۔ قرآن میں ایک آیت ہے کہ نیکی گناہوں کو کھا جاتی ہے۔
"ان الحسنات یذھبن السیئات”
اسی طرح حدیث میں آیا ہے شہید دست غیب نے نقل کی ہے۔ فرماتے ہیں:
علی علیہ السلام کا ذکر نیکی ہے۔ علی علیہ السلام کا نام ہاتھ سے لکھنا ایسا ہے کہ اللہ ہاتھ کے گناہ معاف کر دیتا ہے اور آنکھ سے پڑھنا ایسا، ہے کہ آنکھوں کو غسلِ طہارت دیتا ہے۔ کان سے سُنا ایسا ہے کان پاکیزہ ہو جاتے ہیں اور دل میں ذکر علی علیہ السلام ہو تو دل طاہر و طیب ہو جاتا ہے اور زبان پر ذکر علی علیہ السلام آئے زبان پاک ہو جاتی ہے۔ حضرت ابو بکر سے بھی روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے نبی سے سُنا ہے کہ علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے۔

اطاعت کہاں ہوتی ہے؟ جہاں حکم آئے وہاں اطاعت ہوتی ہے چاہے حکم کسی کام کے کرنے کا ہو یا کسی کام کے نہ کرنے کا۔ جہاں امر اور نہی ہو وہاں پر اطاعت ہوتی ہے۔ جہاں امر اور نہی نہ ہو وہاں اطاعت نہیں ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ رسول کی اطاعت میری اطاعت ہے۔ یعنی میر احکم اللہ کا حکم ہے۔ اسی طرح حکم وہاں ہوتا ہے جہاں ارادہ ہوتا ہے اور ارادہ تب ہوتا ہے جب کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا علم ہو۔ بنا بر ایں، جب رسول خدا نے کہا کہ علی کی اطاعت میری اطاعت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ علی کا حکم میرا حکم ہے اور میرا حکم اللہ کا حکم ہے۔ علی کا ارادہ میرا ارادہ ہے اور میرا ارادہ اللہ کا ارادہ ہے۔ علی کا علم میرا علم ہے اور میرا علم اللہ کا علم ہے۔ یہی رسول خدا اور ائمہ ہدی علیہم السلام کی عصمت پر بھی واضح دلیل ہے اور یہی محور حق ہیں۔ انہی کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ کربلا اگر وجود میں آئی ہے تو اس کے پیچھے پوری ایک تاریخ ہے۔ ایک بہت بڑا انحراف ہے۔ کربلا ایسے ہی وجود میں نہیں آئی۔ لہذا ہم نے کربلا کو سمجھنا ہے۔ امام عالی مقام کے قیام کے اسباب و عوامل کو سمجھنا ہے۔ سب سے بڑا فساد یہ تھا کہ امت ولایت کےمحور سے ہٹ چکی تھی۔ جب لوگ حق کے محور سے ہٹ جائیں تو فساد تو معاشرے میں آنا ہی تھا۔ محور حق، قرآن اور اہل بیت علیہم السلام ہے۔ جب ان سے لوگ ہٹ جائیں گے تو فساد پھیل جائے گا۔ اللہ کے بنی نے کہا تھا:
” علی مع الحق والحق مع علی یدور حیث ما دار”
علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے۔ حق علی کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ جہاں علی جائے وہاں حق بھی چلا جاتا ہے۔ یہ تمام اوصاف صرف امام علی علیہ السلام سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام ائمہ معصومین ان صفات کے حامل ہیں۔ تمام ائمہ ھدی علیہم السلام محور حق ہیں۔ امت میں جو فساد آ گیا تھا وہ یہ تھا کہ امت محور سے ہٹ گئی تھی اور فساد پھیلتا جا رہا تھا۔ منکر رواج پا رہا تھا اور معروف پر عمل نہیں ہو رہا تھا۔ سوال: معروف اور منکر کیسے رواج پاتا ہے؟ (تفصیلی جواب اگلی پوست میں ملاحظہ فرمائیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here