*محرم الحرام 2019*

*دوسری مجلس (حصہ دوم)*

*علامہ راجہ ناصر عباس جعفری*

*غلو اور تقصیر:*

تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کس طرح حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ کہیں غلو سے کام لیا گیا ہے تو کہیں تقصیر سے۔ حوادث کے علاوہ شخصیات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ان کی شخصیات کو چھپایا گیا یا پھر ان کے بارے میں غلو سے کام لیا گیا۔ اگر شخصیات کے مقام کو بڑھانے کے حوالے سے دیکھیں تو قرآن کہتا ہے کچھ لوگوں نے حضرت عیسیٰ کو کہا عیسیٰ ابن اللہ ہے۔ اللہ کا بیٹاہے۔ کیا حضرت عیسی نے کہا تھا کہ انہیں اور ان کی مادرِ گرامی کو معبود بنا لیا جائے اور پرستش کی جائے؟ یہ لوگ تھے کہ حضرت عیسیٰ کو معبود بنا لیا تھا اور پرستش کرتے تھے۔ قرآن کہتا ہے: "انی عبد اللہ آتانی الکتاب و جعلنی نبیا” عیسیٰ اللہ کا بندہ ہے اور صرف اللہ کا رسول ہے۔ تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ کس طرح انبیا ء کے مقام کو بڑھایا گیا اور گھٹایا بھی گیا۔ اسی طرح مولا علی علیہ السلام کے بارے میں بھی ایک طرف غلو اور غالی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تقصیر اور مقصر۔ غلو کیا ہے؟ معصوم خود فرماتے ہیں: ہمیں رب نہ کہو. ہمیں عبودیت کے درجہ سے نہ نکالو اُس کے بعد جو چاہتے ہو ہمارے بارے میں کہو وہ کم ہے۔ ہمیں اللہ نہ کہو۔ہمیں عبودیت سے نہ نکالو۔ بندگی سے نہ نکالو۔ ہم اللہ کے عبد ہیں اس کی بندگی کرنے والے ہیں۔ جب حضور پاک کی گواہی دیتے ہیں تو کہتے ہیں: "اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ”۔ بتحقیق میں گواہی دیتا، ہوں کہ محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ اسی طرح جب معراج کا تذکرہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں: "سبحان الذی اسرا بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی”. پاک و منزہ ہے و ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی کی طرف لے گئی۔ اسی طرح خداوند متعال قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: "یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ”۔ اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔  "فادخلی فی عبادی” میرے بندوں میں داخل ہو جاو۔ "وادخلی جنتی” اور میری جنت میں داخل ہو جاو۔ ہمیں اپنے ائمہ اطہار کو اسوہ بنانا چاہئے۔ معصومین علیہم السلام نے ہمیشہ غالیوں سے بیزاری کا اعلان کیا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب ھرگز نہیں ہے کہ ہم مصومین علیہم السلام کی فضلتیں غلو سمجھ کر رد کریں۔ کوئی انہیں اللہ بناتا ہے تو پھر غالی ہے۔ دوسری طرف جب گھٹانے پر اتر آتے ہیں تو اپنا جیسا بندہ بناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہماری طرح ایک انسان ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح ہیں، مر گئے، ختم ہوگئے۔ یہ تقصیر اور گھٹانا ہے۔ ائمہ علیہم السلام کو بھی اپنی طرح کا انسان سمجھتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ زیارت جامعہ میں آیا ہے ائمہ اطہار کشتیِ نجات ہیں جو اس میں سوار نہیں ہوگا وہ غرق ہو جائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here