*محرم الحرام 2019*
*دوسری مجلس (11واں حصہ)*
*علامہ راجہ ناصر عباس جعفری*

*معروف اور منکر کے درجات:*
صلح اوراصلاح، معروف ہے جبکہ فساد، منکرہے۔ منکر کے تین درجے ہیں اور معروف کے بھی تین مرحلے اور درجے ہیں۔ مثلاََ ایک شخص نماز پڑھتا ہے۔ خود سے نماز پڑھتا ہے۔ یہ اصلاح کا ایک درجہ ہے۔ اسی طرح ایک شخص مسجد بنا کر لوگوں کو بھی نماز پڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے یعنی نماز کو رائج کرتا ہے۔ یہ اصلاح کا دوسرا درجہ ہے۔ تیسرا درجہ اور مرحلہ وہ ہے کہ ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے کہ لوگ نمازی بن جاتے ہیں۔ ایسا ماحول کہ جس میں نماز نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا ہو۔ اس مرحلے میں آ کر کہا جا سکتا ہے کہ معورف پھیل گیا ہے۔ جھوٹ خود نہیں بولتا، پھر کوشش کرتا ہے کہ دوسرے بھی نہ بولیں، پھر ماحول ایسا بنا دیتا ہے کہ جس میں جھوٹ اور جھوٹ بولنے والے سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے یہ اقامہ معروف ہے۔ یعنی آپ نے معروف کو قائم کر دیا ہے۔ خود عزاداری کرتا ہے اور عزاداری کو پھیلاتا ہے پھر ماحول ایسا بنا دیتا ہے کہ ساری سوسائٹی مولا کی عزادار بن جائے۔ یہ معروف ہے یعنی اس نے معروف کو قائم کر دیا ہے۔ اسی طرح منکر کے بھی مراحل اور درجات ہیں۔ منکر کیا ہے؟ منکر یہ ہے کہ معاشرے کے اندر پہلے خود بُرائی کرتاہے، پھر بُرائی کو پھیلانے کے لئے چینل بناتا ہے، سنیما بناتا ہے، وب سائٹس بناتا ہے، فلمیں بناتا ہے، ڈارمے بناتا ہے، واٹس ایپ، یوٹیوب اور دیگر وسائل کے ذریعہ برائی کو پھیلاتا ہے، فساد کو پھیلاتا ہے، بے حجابی کو، بے حیائی کو، بے غیرتی کو، پھیلاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ماحول ہی بے حیائی کا بن جاتا ہے۔ یہ فساد ہے۔ اس نے معاشرے کو فسادی بنا دیا ہے۔ جب محورِحق سے ہٹ جائیں گے تب فاسد ہو جائیں گے۔ پھر ایسے ماحول میں نماز پڑھنا اور شرابی کا شراب پینا ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ کربلا میں عمر بن سعد بھی نماز جماعت پڑھاتا تھا لیکن اُس کا حاکم یزید تھا۔ یزید ان کا مرکز تھا۔ یعنی سراپا باطل امت کا محور بنا ہوا تھا۔ لہذا ان جیسوں کی مسجد شراب خانے کی طرح ہے۔ ان کی نماز ان کے جھوٹ مکر و فریب کی طرح ہے۔ ان کی شکلیں شراب پینے والوں کی طرح ہیں۔ جب محورِ حق سے ہٹیں گے پھر وہ نماز ایسی نہیں ہے جو ” تنھی عن الفحشاء و المنکر” ہو۔ قرآن کہتا ہے نماز بُرائیوں سے روکتی ہے۔ یہ کیسی نماز تھی جو امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے والے پڑھتے رہے؟ یہ کیسی نماز تھی جو بی بیوں کے سروں سے چادریں چھینے والے پڑھتے رہے؟ وہ کیسی مسجدیں تھی جو انھوں نے منت مانگی تھی کہ مولا حسین علیہ السلام کو قتل کریں گے پھر بنائیں گے؟ یقینا یہ مسجدِ ضرار تھی۔ محورِ حق سے جو ہٹ جاتا ہے پھر ان کی اچھائی بھی بُرائی ہوجاتی ہے۔ امت محورِ حق سے ہٹ گئی تھی۔ لہذا امام نے کیا کہا تھا:
” ارید ان آمر بالمعروف”
میں امر بالمعروف کرونگا
"و انھی عن المنکر”
اور منکر سے روکوں گا۔ منکر کو قیامت تک کے لئے نفرت کی علامت بناونگا۔ معاشرے کا یزیدی ہونا بہت خطرناک ہے۔ معاشرے ایسے یزیدی نہیں ہوتے۔ نسلیں بغض علی میں پرورش پاتی ہیں پھر معاشرہ یزیدی بن جاتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here