درسِ اخلاق
لعلکم تتقون(1)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

خداوند متعال نے قرآن کی اس آیت میں مومنین سے خطاب کیا ہے۔ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پرفرض کئے گئے تھےتا کہ تم متقی بن جاو۔
روزوں کو فرض کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ اس کا ہدف کیا ہے؟ روزوں کو ہم پرفرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم متقی بن جائیں۔ لیکن عام زندگی میں روزوں کو ایک عادت کے طور پر لیا جاتا ہے کہ روزہ کیسے ادا کرنا ہے، روزمرہ کام کیسے اور کس طرح انجام دینا ہے اور پھر افطاری میں کیا کیا پکانا ہے۔ اس طرح کا مقصد عام زندگی میں ہم بنا رہے ہوتے ہیں اور ماہِ رممضان میں بہت سے لوگ روزے رکھتے ہوئے اللہ کی نافرمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ کام بجا لاتے ہیں جو گناہ کا باعث بنتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کو سوائے بھوک کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ایسے بھی روزے دار ہونگے جن کو روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ نہ کوئی اور شی، نہ تقویٰ اور پرہیزگاری غرض یہ کہ سواے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی نہیں ملے گا۔
روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان باتقویٰ اور پرہیزگار بن جائے۔ یہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
قرآن میں اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ متقین کو جزائے خیر ملے گی اور جو لوگ متقین نہیں ہونگے اُنہیں جزائے خیر نہیں ملے گی۔ قرآن کی نگاہ میں انسان اُس وقت تک کریم نہیں بن سکتا جب تک متقی نہ بن جائے۔ جوُں جُوں اُس کا تقویٰ بڑھتا جائے گا اُسی حساب سے اُس کا کریمی کا درجہ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔
اللہ خود بھی کریم ہے اور ملائکہ، قرآن، انبیاء یہ سب بھی کریم ہیں اور کربلا میں امام حسین ؑنے بھی اپنے ساتھیوں کو کریم ساتھی کہتے ہوئے فرمایا: بیدار ہو جاو۔ یہ کریمی کا شرف اُس وقت حاصل ہوگا جب انسان متقی ہو جائے گا۔
اللہ تعالی اپنے نبی سے کہتا ہے کہ اے نبی تم ان لوگوں کو آدم کے دونوں بیٹوں کا واقعہ بیان کرو۔ ان دونوں نےاللہ کے قریب ہونے کے لئے قربانی دی اور ان میں سے ایک کی قربانی اللہ نے قبول کر لی اور ایک کی قربانی اللہ نے قبول نہیں کی۔ جس کی قربانی اللہ نے قبول نہیں کی تھی وہ حسد ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ نے میری قربانی قبول نہیں کی اس لئے میں تمہیں قتل کر دونگا۔ جب اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کا کہا تو اللہ نے فرمایا کہ میں صرف اور صرف متقین کے عمل کو قبول کرتا ہوں۔
پس اللہ متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور جو متقین نہیں ہیں اللہ ان کے اعمال کو قبول نہیں کرتا ہے اور جو متقین نہیں ہوے ہیں اُن کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے کہ تم متقی بن جاو اللہ تمہارا معلم بن جائے گا۔ پھر اللہ خود تمہیں علم دے گا۔ پس معلوم ہوا کہ تقویٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ روزے جو انسان پر فرض کئے گئے ہیں تاکہ انسان متقی بن جائے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا خطبہ ہے۔ مولا علیؑ کے ایک صحابی نے مولا سے کہا کہ مولا مجھے مومنین کہ توصیف ایسے کریں کہ میں اُنہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ مولا علیؑ نے اس صحابی کے سامنے مومنین کی توصیف کی اور کہا کہ متقین کی گفتگو صداقت پرمبنی ہوتی ہے۔ متقین سچائی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ متقین اپنی زبان کو پاک رکھ کر گفتگو کرتے ہیں۔ گالم گلوچ وغیرہ نہیں دیتے ہیں۔ متقین کسی کی غیبت، چغلی، تہمت وغیرہ نہیں کرتے ہیں۔ اُن کی زبان سے سوائے سچائی کے اور کچھ بیان ہی نہیں ہوتا ہے۔ اُن کی زبان آزاد نہیں ہوتی ہے۔ اُن کی زبان اپنی کنٹرول میں ہوتی ہے۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ ماضی میں میرا ایک دوست تھا ایک دینی بھائی تھا۔ جو دنیا کو حقیر سمجھتا تھا۔ اُس کو میری نگاہ میں عظمت دیتا تھا۔ میری نگاہ میں وہ اس لئے عظیم تھا کیونکہ دنیا اُس کی نگاہوں میں حقیر اور پست تھی۔ اکثر وقت وہ چُپ رہتا تھا اور غیر ضروری گفتگو نہیں کرتا تھا۔ بلاوجہ نہیں بولتا تھا لیکن جب بولنے پر آتا تھا تو ایسا منطقی انداز میں بولتا تھا کہ سامنے والے کو چُپ کراتا تھا۔ لہذٰا متقین وہ ہیں جن کی زبان اُن کے کنٹرول میں ہے۔ جن کی زبان پر اللہ کی حکومت ہے۔ جن کی زبان سے سچائی جاری ہوتی ہے۔ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اصراف نہیں کرتے ہیں۔ فضول خرچ نہیں کرتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
مولاعلیؑ فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی سالم زندگی گزارنا چاہتا ہے اُسے میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔ جو انسان میانہ روی اور قناعت کو چھوڑ کر اصراف کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ خدا قرآن میں کہتا ہے کہ اصراف نہیں کرو، کھاو پیو لیکن میانہ روی کے ساتھ تا کہ تم متقی بن جاو۔ جس نے قناعت کی اُس نے عزت پائی۔ روایت میں ہے کہ جو انسان اپنےتمام تر اخراجات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ آگے آنے والی مشکلات کے لئے خود کو آمادہ کر رہا ہوتا ہے اور یہی لوگ متقی ہیں۔
حدیث ہے کہ جو اصراف نہیں کرتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا ہے۔ میانہ روی سے تجاوز کرے گا وہ اصراف ہے اور اصراف انسان کو ہلاکت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ مولا ارشاد فرماتے ہیں کہ جو متقین ہوتے ہیں اُن کی رفتا ر متواضع ہوتی ہے۔ روایات میں مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ علم کا ثمر، تواضع ہے۔ جس حساب سے انسان کا علم بڑھتا چلا جاتا ہے اُسی حساب سے اُس میں تواضع اور منکسر مزاجی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر تعلیم حاصل کرنے سے انسا ن میں تکبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نے علم حاصل نہیں کیا ہے۔ یہ جہالت ہے۔ علم کے شجرِ طیبہ کا پھل تواضع ہے۔ اگر کسی انسان کو معاشرے میں زیادہ عزت دی جاتی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ باشرف انسان ہے اور اُس میں تواضع ہے اگرکوئی انسان باشرف نہیں ہے وہ در اصل متواضع نہیں ہے۔ متقین اللہ کی کبریائی کے سامنے خود کو انتا کمزور سمجھتے ہیں کہ اُنہیں تواضع کے علاوہ کچھ بھی سامنے نظرنہیں آتا ہے۔
امامؑ فرماتے ہیں ایک شخص جو رتبے کے لحاظ سے بلند ہوتا ہے لیکن وہ خود کو دوسروں جیسا سمجھتا ہے اور تواضع کے ساتھ چلتا ہے ایسے انسان باشرف انسان ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی بارگاہ میں متواضع رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ سے اللہ نے سوال کیا اے موسیٰ میں نے اپنی مخلوقا ت میں سے تجھے نبی کیوں بنایا۔ حضرت موسیٰؑ کہتے ہیں کیوں مجھے نبی بنایا۔ فرماتے ہیں میں نے اپنے بندوں کے ظاہر اور باطن کو دیکھا میں نے اپنی بارگاہ میں سب سے زیادہ خضوع کرنے والا پایا۔ سب سے زیادہ خود کو میری بارگاہ میں حقیر سمجھتا تھا۔ خود کو کمتر سمجھتا تھا اس لئے میں نے تجھے اپنا نبی بنایا۔ اے موسیٰؑ جب تُو نماز پڑھتا ہے تُو اپنے رخسار کو میرے سامنے خا ک میں رکھتا ہے۔ یہ تواضع کی انتہا ہے۔ یہ معراج ہے تواضع کی اور بندگی کی۔ جو بندہ ہے وہ کبھی متکبر نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ کبھی غرور نہیں کر سکتا ہے۔ لہذٰا انسان اپنے سر کو سجدے میں خاک پر رکھتا ہے یہ بندگی کی معراج ہے یہ خدا کی بارگاہ میں تواضع کی معراج ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here