فہم قرآن(3) بسم اللہ کی تفسیر (حصہ اول)
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری

بسم اللہ کی اہمیت:
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اعمال صالح اور ہدف تک پہنچیں؛ یعنی منزل تک پہنچیں تو اُن کی ابتدا بسم اللہ سے کرنی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ منزل اور مقصد تک پہنچنے کے لئے اور ہمارا عمل ابتر نہ ہو دو چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ عمل جو ہو وہ عملِ صالح ہو، کارِ خیر ہو۔ ایسا عمل نہ ہو جس میں معصیت اور گناہ ہو۔ خدا کی نافرمانی اور سر کشی ہو۔ عمل ذاتی طور پر خیر والا ہو۔ اچھا ہو اور پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ عمل خدا کے لئے انجام دیا جائے۔ ایسا عمل انسان کو کمال تک پہنچائے گا اور یہ انسان کی روح کو کمال بخشے گا۔ یہ انسان کو خدا کے قریت کرے گا۔ اگر عمل اچھا ہو اور اُس میں ریاکاری ہو یہ خدا تک نہیں پہنچائے گا۔ ایسا عمل جو بھی ہو گا عملِ باطل ہے۔جب کوئی خالی کمرے میں نماز تیز تیز پڑھتا ہے اور اگر لوگوں کے درمیان نماز آہستہ پڑھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ ریاکاری کر رہا ہے۔ جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عمل کا ٹائٹل کیا ہو؟ ٹائٹل اگر بسم اللہ الرحمٰن الر حیم ہو؛ یعنی اُس پر خدا ئی رنگ ہو یہ عمل انسان کو مقصد تک پہنچاتا ہے اور یہ عمل وجہ اللہ بن جاتا ہے۔ یہ عمل پھر خدا تک پہنچ جاتا ہے۔اور جو اللہ کے پاس پہنچ گیا ہو باقی ہے۔ اب وہ کبھی فنا نہیں ہوگا۔ اُسے بقا مل جاتی ہے۔ جو باقی ہے وہ وجہُ اللہ ہے۔ اگر انسان کا عمل بسم اللہ کے ساتھ ہے تو اُس کا عمل وجہُ اللہ بن جائے گا۔ پھر یہ باقی رہے گا اور ابدی ہوگا۔ یہ ہمیشہ کے لئے رہے گا۔لہذٰا ضروری ہے کہ انسان اپنے اعمال کو اُن کی ابتدا بسم اللہ سے کرئے۔ انہیں خالصتا لوجہِ اللہ اور قربۃ الی اللہ انجام دیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی ابتدا بھی بسم اللہ سے کی ہے اور سورہ حمد کی ابتدا بھی بسم اللہ سے کی ہے۔
سورہ حمد کے مضامین کا بسم اللہ تعلق:

جو چیز ہر سورہ میں اہمیت کی حامل ہے وہ اس سورہ کی بسم اللہ ہے۔ اسی طرح مضامین جو اس سورہ میں بیان ہوئے ہیں اہمیت کے حامل ہیں۔ سورہ حمد میں ہم اللہ کی حمد بجا لانا چاہتے ہیں اور حامد بننا چاہتے ہیں۔ دوسرا اُس کی بندگی اور عبادت کا تذکرہ ہے۔ اُس سے طلب ہدایت کا تذکرہ ہے۔ خدا کی عبادت بھی بسم اللہ سے شروع ہونی چاہئے اور خدا سے ہدایت طلب کرنا بھی بسم اللہ سے ہونی چاہئے۔
رحمن:
دوسرا نقطہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ رحمٰن اور رحیم کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ خدا کی رحمت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک رحمت، رحمانیہ یعنی وہ رحمت جو مطلق ہے۔ عام ہے۔ جس کے بارے میں خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے میری رحمت ہر شی کو شامل ہے۔ جو بھی شی ہے میری رحمت کی چادر میں ہے۔ رحمت یعنی فیضِ خدا۔ رحمٰن کی حیثیت سے خدا کا فیض کائنات کی ہر مخلوق کو شامل ہے۔ وجود دینا بھی فیضِ خدا ہے۔ نباتات بنانا بھی فیضِ الہی ہے۔ انسان اور حیوان بنانا بھی فیضِ الہی ہے۔ یعنی رحمتِ رحمانیہ ہے۔ اللہ کی رحمت ہر شی میں شامل ہے۔ اس کے مدِ مقابل کوئی نہیں ہے۔ انسان، حیوان، مسلمان، کافر، جنت، جہنم سب کو اللہ نے وجود بخشا ہے۔ وہ رحمٰن ہے یعنی اُس کی رحمت سب کو شامل ہے۔ اُس کا فیض سب کو شامل ہے۔ مثلا وجود دینا سب کچھ شامل ہے۔ خلق کرنا بھی اللہ کی رحمت ہے کائنات اور ہر شی کو وجود بخشنا یہ بھی رحمتِ الہیہ ہے۔
ہم دعاِ کمیل میں بھی کہتے ہیں۔تجھے تیری اُس رحمت کا واسطہ جو ہر شیء کو شامل ہے جو تیری رحمت کی چادر میں ہے۔
اے وہ خدا جس کی رحمت غضب سے پہلے ہے۔ یعنی غضب اسکی رحمت کے نیچے ہے۔جیسے والدین بچے کو مارتے ہیں یہ بھی رحمت ہوتی ہے۔ بچے کو مارنا یہ بھی والدین کی محبت ہے۔ یہ رحمتِ رحمانیہ ہے اور یہ وسیع ہے۔
سورہِ رحمٰن کو بھی اللہ نے بسم اللہ سے شروع کیا ہے اور اس میں اللہ اپنی نعمتیں گنواتا ہے۔ اللہ اپنی نعمتوں کو شمار کرتا ہے۔ وہاں خدا جہنم کو رحمت کے طور پر شمار کرتاہے۔ تم دونوں جن و انس پر بھیجے گئے آگ کے شعلے جن میں دھواں نہیں ہوگا اور تمہاری کوئی مدد بھی نہیں کرے گا تم میری کون کون سی نعمتوں کوجھٹلاو گئے۔ یہ جہنم بھی اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ خدا کا فیض نعمت ہے۔ جہنم بھی اللہ کی نعمت اور رحمت ہے۔
اللہ نے کائنا ت کا ایک نظام بنایا ہے اُس میں جہنم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ اس لئے کہ بہت سے لوگ جہنم کے خوف سےعبادت کرتے ہیں اور جنت میں چلے جاتے ہیں۔ اگر جہنم نہ ہوتی تو یہ اللہ کی اطاعت نہ کرتے اور جنت میں نہیں جاتے۔ اس لئے جہنم بھی ایک نعمت ہے۔ یہ ہے لفظِ رحمٰن۔ یعنی شروع اللہ کے نام سے جو بڑا رحمٰن ہے۔ جس کی رحمت وسیع ہے۔ بحرِ بے قراں ہے اور تمام مخلوقات کو شامل ہے اور اس کا فیض ساری کائنات کو شامل ہے۔
رحیم:
رحیم جسے اصطلاح میں رحیمیہ کہتے ہیں۔ رحمٰن اور رحیم دونوں کے معنی رحمت کے ہیں۔ صفتِ رحیمیہ اس صفتِ خاص کو کہتے ہیں جس کے مقابلے میں ہمیشہ غصب ہوتا ہے۔ اس کی حدیں ہیں۔ غضب اور رحیمیہ کی بھی حد ہے۔ رحمتِ رحیمیہ مثلا انبیاء کا بھیجنا۔ یہ اللہ کا فیض ہے۔ یہ رحمتِ رحیمیہ ہے۔ یہ خاص انسانوں کے لئے ہے۔ قرآن رحمتِ رحیمیہ ہے۔ فیضِ خدا ہے۔ رحیم ہونے کی حیثیت سے ہے۔ ہدایت دینا اور توبہ کو قبول کرنا یہ فیض ہے۔ رحمت ہے۔ اللہ کے رحیم ہونے کی حیثیت سے ہے۔ قیامت کے دن شفاعت ملے گی۔ جنت ملے گی۔ یہ خدا کی رحمت ہے۔ رحیم ہونے کی حیثیت سے ہے۔ اس کا مدِ مقابل ہوتا ہے۔ اس کے مدِ مقابل میں غضب ہے۔ اس کی حدود ہیں۔ عملی طور پر یہ مومنین کے ساتھ مخصوص ہے۔
قرآنِ مجید میں دونوں رحمتوں کا تذکرہ ہے۔ سورہِ اعراف میں حضرتِ موسیؑ ارشاد فرماتے ہیں: اے خدا تُو اس دنیا میں بھی ہمارے لئے نیکی کو لکھ دے اور آخرت میں بھی نیکی کو لکھ دے۔ اس دنیا میں بھی خاص رحمت ہمارے لئے لکھ دے اور آخرت میں بھی خاص رحمت ہمارے لئے لکھ دے۔کیونکہ ہم تیری طرف لوٹ آئیں ہیں۔ تیرے پاس آگئے ہیں۔ تیری طرف ہم نے رجوع کیا ہے۔ خدا نے جواب میں ارشاد فرمایا: جسے میں چاہوں گا اُسے میں عذاب دونگا۔ جہنم میں ڈال دونگا۔ میں حکمت والا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں نے کسے عذاب دینا ہے اور کون میری رحمت سے محروم ہوگا اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔
ہاں میں اُس رحمت کو صرف تجھے ہی نہیں بلکہ تمام متقین کو اس نعمت سے نواز دونگا۔جو با تقویٰ ہیں، زکوت دیتے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیات پر ایمان لایا ہے جو صاحبِ ایمان ہیں۔
اس آیت میں اللہ نے تین چیزوں کو بیان کیا ہے ایک عذاب کا تذکرہ کیا ہے۔ دوسرا رحمتِ رحمانیہ کا تذکرہ کیا ہے اور تیسرا خاص بندوں میں خاص رحمت ہو گی۔ قرآن میں دو طرح کی رحمت کا ذکر ہے۔ رحمتِ رحمٰنیہ بھی قرآن میں موجود ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔ رحمتِ رحمانیہ بھی ہے جو خاص مومنین کو بخش دی جائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here