ولایت کا دوسرا مرحلہ ولایت تکوینی ہے۔ ولی اس دنیا میںتصرف کی طاقت رکھتا ہے، اس کائنات میں تصرف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں بہت زیادہ آیات ہیں۔بعنوان مثال تکوینی اثرات کسے کہتے ہیں؟ تکوینی اثرات وہ ہوتے ہیں جو وجود رکھتے ہیں، اگر آپ کو پیاس لگی ہے، آپ نے پانی پیا، پانی پینے کا تکوینی اثر یہ ہے کہ آپ سیراب ہو گئے، سیرابی کو وجود مل گیا، تکوینی اثرات وہ ہوتے ہیں جو وجود رکھتے ہیں۔

سورج نکلا دھوپ آئی، زمین گرم ہو گئی، آپ کا بدن بھی گرم ہوگیا، گرمی اور تپش کو وجود مل گیا، تکوینی اثرات وجودی ہوتے ہیں، مثلا آپ کی روح کو آپ کے بدن پر قدرت حاصل ہے، آپ کی روح چاہے تو آپ کی آنکھ بند ہوجائے گی اگر وہ چاہے تو وہ کھل جائے گی اور اگر آپ کی روح چاہے تو آپ کا ہاتھ اٹھ جائے گا۔ یہ آپ کی روح کے تصرفات ہیں آپ کے بدن کے اوپر۔ روح چاہے گی تو زبان حرکت میں آجائے گی، روح چاہے گی تو قدم اٹھیں گے۔ یہ آپ کی روح کی حکومت ہے آپ کے بدن کے اوپر، روح بدن میں تصرف کرتی ہے، اگر روح طاقتور ہو جائے، انسان ریاضت کرے، سیروسلوک کے مراحل طے کرے، کمزور روح ہو تو فقط زبان اللہ اکبر کہتی ہے، اگر روح طاقتور ہو تو انسان کا پورا وجود اللہ اکبر کہے گا، پورا وجود بندگی اور عبادت میں ہو گا،پورا وجود تسبیح خدا بجا لائے گا۔ اسی طرح اگر روح اور طاقتور ہوجائے، تو آپ کے ارادے اور روح کے ارادے کا اثر درو دیوار پر ہونا شروع ہو جائے گا۔
ہمارے علماء کے بارے میں ملتا ہے مرحوم آیت کاشی اصفہانی، اصفہان میں ہمارے بہت بڑے عالم تھے، ان کے بارے میں معروف ہے کہ جب وہ عبادت کے دوران سبحان اللہ کہتے تھے تو درودیوار بھی سبحان اللہ کہتے تھے،جب وہ رکوع میں جاتے تھے تو درخت بھی رکوع میں چلے جاتے تھے،یہ ان کے ارداے اور روح کے تکوینی اثرات ہیں۔

جتنی روح طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے اتنا اس کا دائرہ اور حکومت بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ سفرانسان عبادت کے ذریعہ طے کرتا ہے۔ سیروسلوک کے ذریعہ ، عبودیت کی شکل میں جب انسان سفر کرتا ہے،خدا کا عبد بنتا ہے ، بندگی بجا لاتا ہے، یعنی اپنا ہر عمل اللہ کی رضا اور خوشنودگی کے لئے بجا لاتا ہے، بولتا ہے تو خدا کے لئے ہے، خاموش ہوتا ہے تو خدا کے لئے، چلتا ہے تو خدا کے لئے، بیٹھتا ہے تو خدا کے لئے، دوستی اور دشمنی کرتا ہے تو خدا کے لئے، ہر عمل میں خدا اگر ہو تو وہ عمل عبادت شمار ہوتا ہے۔ عبادت اور سیروسلوک کے نتیجے میں انسان کی روح قوی ہوتی ہے، حجاب ہٹتے ہیں،اس کے روح کی حکومت فقط اس کے بدن پر نہیں ہوتی، آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں پر بھی ہونا ، شروع ہوجاتی ہے اس طرح ولایت، حکومت اور تصرف کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لہذا جتنا جتنا انسان خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے، بلند ہوتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی اس کی حکومت کا دائرہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں نقل ہوا ہے حضرت سلیمان نبی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو تخت بلقیس کو یمن سے فلسطین لے کر آئے؟
{قال عفریت من الجن انا آتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک و انی علیہ لقوی امین}
عفریت جن نے کہا اس سے پہلے کہ آپ کھڑے ہوںمیں لے آتا ہوں۔
{قال الذی عندہ علم من الکتاب انا آتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک}
جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھااس نے کہا میں اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکیں لے آتا ہوں۔

جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اس کے پاس اتنی طاقت تھی تخت بلقیس یمن میں تھا وہ اسے پلک جھپکنے سے پہلے فلسطین لے آیا۔ یعنی اگر میں ارادہ کروں وہ پلک جھپکنے سے پہلے آجائے گا۔ یعنی جونہی ارادہ کرونگا وہ آجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو اس میںاتنی طاقت آجاتی ہے، کہ اس کی زمین پر بھی حکومت ہوتی ہے اور زمان پر بھی حکومت ہو جاتی ہے۔
یہاں حضرت سلیمان نبی علیہ السلام سے ایک سوال کرونگا، اے اللہ کے بنی آپ خود صاحب اسم اعظم ہیں، یہ کام آپ خود کیوں نہیں کرلیتے، حواریوں سے کیوں کہتے ہیں؟ بعید نہیں یہ جواب دیں، کہ میں دنیا والوں کو بتلانا چاہتا ہوں کہ نبی کا وصی کس مقام کا مالک ہوتا ہے۔ اگر سلیمان نبی کا وصی ارادہ کرے تخت بلقیس پلک جھپکنے سے پہلے یمن سے فلسطین آجائے، تو خاتم الانبیاء کا وصی کس مقام کا مالک ہوگا۔
روایت میں آیا ہے ذکر مولا علی علیہ السلام مجالس کی زینت ہے میں قصدا مولا علی علیہ السلام کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ صدیوں سے ظالم اس خیانت کا ارتکاب کرنے کی کوشش کرتے رہیں کہ مولا کا نام مٹ جائے، مولا کا نام چھپ جائے اور مولا کے فضائل بیان نہ ہونے پائیں۔ ہمارے ائمہ علیہم السلام نے بھی مولا کے فضائل اور مناقب بیان کرنے کی تاکید کی ہے۔
جو تخت بلقیس کو یمن سے فلسطین لے آیا اس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا۔قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: {قل کفی باللہ شہیدا بینی و بینکم و من عندہ علم الکتاب}
اے نبی ان سے کہہ دے تیری رسالت کی گواہی کے لئے ایک اللہ کافی ہے اور ایک وہ جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔
مفسرین نے اس آیت کے ذیل میںلکھا ہے آصف بن برخیا کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور رسالت کی گواہی کے لئے ایک اللہ کافی ہے اللہ وہ ہے جو کتاب نازل کرنے والا ہے، رسالت نازل کرنے والا ہے، رسالت دینے اور بھیجنے والا ہے اور ایک وہ جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔علماء نے لکھا ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہو وہ مولا علی علیہ السلام کی ذات ہے۔ چھٹے امام سے پوچھا گیا کہ مولا علی علیہ السلام کے علم میں اور آصف بن برخیا کے علم میں کیا نسبت ہے؟ امام نے فرمایا: قطرے اور سمندر کا ہے۔ آصف بن برخیا کے پاس کتاب کے علم کا ایک قطرہ تھا جبکہ مولا علی علیہ السلام علم کتاب کاسمندر اور بحر ہے۔ جس کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے یمن سے فلسطین لے آئے، تو تعجب نہیں جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہو وہ ارادہ کرے تو چاہے وہ مشرق کو مغرب بنا دے، مغرب کو مشرق بنا دے، شمال کو جنوب بنا دے دے، ڈوبا ہوا سورج پلٹا دے، چاند کو دو ٹکڑے کر دے، تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے اس روح میں کتنی وسعت ہوگی؟ جتنا جتنا علم بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی روح کی وسعت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جتنی کتاب وسیع ہے اور کتاب کا احاطہ ہے، اتنا ہی صاحب کتاب کی روح انہی وسعتوں کی مالک ہے۔ اسی لیے ولی اس کائنات میں یداللہ یعنی اللہ کی قدرت کا مظہر کامل و اکمل و تام و اتم ہوتا ہے ، اللہ کے اسم علیم کا مظہر کامل و اکمل و تام و اتم ہوتا ہے۔سورج میں بھی اللہ کی قدرت ہے لیکن وہ ناقص مظہر ہے، اللہ کی قدرت کا ظہور کامل ولی میں ہے اور علی میں ہے۔

یہ ولایت تکوینی درحقیقت ولی خدا کی حکومت ہے ایسی حکومت جس میں ولی اس کائنات کے اندرتصرف کرتا ہے ، دلوں میں تصرف کرتا ہے، ناپاک چیزوں کو پاک بنا دیتا ہے ایک ارادے سے، اس کائنات کا نظام اس کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ مظہر قدرت خدا ہے، پوری کائنات میں جو چاہے وہ کرے، یہی وجہ ہے کہ استاد جوادی آملی ارشاد فرماتے ہیں:
جو اثر اللہ کی{ کن} میں ہے وہی اثر علی کی {بسم اللہ} میں ہے، اس کا ارادہ اللہ کا ارادہ ہے، اس کا فعل اللہ کا فعل ہے۔ قرآن مجید میں بھی ولی خدا کے اس مقام کی طرف متعدد آیات میں اشارہ ہوا ہے جیسے ارشاد رب العزت ہے:
{ وما رمیت اذ رمیت لکن اللہ رمی}
یہ کنکریاں تو نے نہی ماری اللہ نے ماری ہے۔
بنا بریں ولی، اللہ کی قدرت کا مظہر کامل و اکمل و تام و اتم ہے۔ ولی واسطہ فیض ہے جو خدا سے براہ راست فیض لیتا ہے اورساری کائنات میں اس کی عادلانہ تقسیم کرتا ہے۔ اس ولایت کو ولایت تکوینی یا ولایت باطنی کہتے ہیں جو یقینا معصوم کو حاصل ہے۔ اس ولایت کو طاہر القادری صاحب بھی مانتے ہیں انہوں نے {الصیف الجلی علی منکر ولایت علی} کے عنوان سے کتاب بھی لکھی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اورانسان کامل کو یہ ولایت حاصل ہے، انبیاء علیہم السلام کو یہ ولایت حاصل ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو یہ ولایت حاصل تھی وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے، نابینا کو بینا کرتے تھے، مٹی سے پرندے کو پیدا کرتے تھے اور خلق کرتے تھے جس کا صریح ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
یہ ولایت معصوم کو حاصل ہے اس پر ہمارا ایمان ہے لیکن شیعہ ہونے کے لئے اس پر ایمان کافی نہیں ہے۔ مولا علی علیہ السلام صاحب فضائل ہیں، صاحب کمالات ہیں، اللہ کے اسمائے حسنہ کا مظہر کامل و اکمل و تام و اتم اور اسم اعظم خدا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ انسان کامل ہے، وہ واسطہ فیض ہے، وہ آیت کبری ہے۔ اس خالق کائنات کی وہ آیت اکبر ہے۔آدم علیہ السلام سے عیسی علیہ السلام تک ہر بنی کے مقابلے میں علی علیہ السلام نفس رسول اور جان رسول ہیں۔ مولا علی علیہ السلام خود ارشاد فرماتے ہیں:
{انا عبد من عبید محمد}
میں محمد ﷺکے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔

چہاردہ معصومین علیہم السلام کی حقیقت ایک ہے۔ مقام نبوت اور امامت میں اختلاف ہے جبکہ مقام ولایت میں وحدت ہے۔ اس ولایت پر ہماراایمان ہے لیکن شیعہ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ جیسے کہ ذکر ہوااس ولایت کو شیعوں کے علاوہ دوسرے مسالک کے لوگ بھی مانتے ہیں۔ جتنے صوفیہ اورعرفاء ہیں وہ اس کو مانتے ہیں۔ تمام عرفاء کے سلسلے علی علیہ السلام پر جا کر ختم ہوتے ہیں۔ یہ ولایت کا دوسرا مرحلہ ہے جس میں ہمارے ساتھ اہل سنت بھائی بھی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں غیر مسلم بھی شامل ہیں اور دوسرے مرحلے میں ہمارے بریلوی بھائی، عرفاء صوفیا سے تعلق رکھنے والے سب شامل ہیں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here